اس دعا کے ساتھ کالم سپردِ قلم کر رہا ہوں کہ جب بدھ کے روز یہ آپ کی نظر سے گزرے اُس وقت تک مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہو چکا ہو۔ اگرچہ بظاہر قیامِ امن کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے۔
اسرائیل خطے میں ایک ایسا فیلِ بے زنجیر بن چکا ہے کہ جو جب چاہتا ہے کسی مسلم ملک پر چڑھ دوڑتا ہے۔ 12اور 13جون کی درمیانی شب کو اسرائیل نے تمام عالمی و اخلاقی قاعدے قانون اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے ایران پر اندر اور باہر سے وحشت ناک حملہ کیا۔ پہلے ہی حملے میں اسرائیل نے ایرانی فوجی اور سائنسی قیادت کو اُن کے گھروں میں نشانہ بنایا۔ ایران کے کئی جرنیل شہید ہو گئے اور اس وقت تک برادر اسلامی ملک کے پندرہ ایٹمی سائنسدان بھی جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔ حیرت تو یہ ہے کہ ایران نے امریکہ کے ساتھ جاری اپنے مذاکرات کو منسوخ کیا تھا نہ ملتوی۔ 15جون کو عمان کے شہر مسقط میں دوطرفہ مذاکرات کا چھٹا دور منعقد ہونا تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ امریکہ اسرائیل کو دو ٹوک انداز میں حکماً اس حملے سے روکتا‘ مگر اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل نے اُن کو اس حملے کی باقاعدہ اطلاع دی۔ ایک بڑی عالمی قوت کے سب سے زیادہ ذمہ دار شخص کی اس حیران کن پالیسی کی کوئی توضیح پیش نہیں کی جا سکتی۔ بعد ازاں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے ایران کو 60 دن کے اندر اندر فیصلہ کر لینے کا الٹی میٹم دیا تھا۔
کبھی کسی ملک کے ساتھ یوں گن پوائنٹ پر منٹوں اور سیکنڈوں کا ٹائم ٹیبل دے کر مذاکرات کیے جاتے ہیں؟ ظاہر ہے بدترین اسرائیلی جارحیت کے ردعمل میں ایران کے پاس منہ توڑ جواب دینے کے علاوہ کوئی آپشن نہ تھا۔ ایران گزشتہ چار روز سے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل برسا کر اپنا یہی حقِ دفاع استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل میں گزشتہ پانچ روز سے خطرے کے الارم بج رہے ہیں اور وہاں کے شہری خندقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ اسرائیلی اعتراف کے مطابق اس کے 24 شہری ہلاک ہو چکے ہیں جن میں غیر جانبدار ذرائع کے مطابق کئی فوجی بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ایرانی حملوں کے نتیجے میں سینکڑوں اسرائیلی شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔ کئی حساس نوعیت کی اسرائیلی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ ایران کا زیادہ بھاری نقصان پہلے روز بے خبری میں ہوا ۔ دنیا کی آنکھیں غزہ پر گزشتہ بیس ماہ سے اسرائیلی بمباری اور اس کے دوسرے ظالمانہ اقدامات سے کھل چکی تھیں مگر اب تو اسرائیل نے ایک ایسی جنگی ڈاکٹرائن ایجاد کی ہے کہ جس کے بعد اس کی دسترس سے کوئی ملک محفوظ نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ چونکہ اسرائیل کو ایران کے ایٹمی پروگرام سے خطرہ ہے اس لیے ہم نے اس کی ایٹمی تنصیبات اور دوسرے اہم مقامات کو تباہ کیا ہے۔
کیا کوئی عالمی قانون کسی ملک کو یہ اجازت دیتا ہے کہ جس ملک سے کوئی خطرہ محسوس کرے اسے تاخت و تاراج کر دے؟ اگر اس جنگلی ڈاکٹرائن کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر کیا کسی ملک میں امن برقرار رہ سکتا ہے؟ اسرائیل ایک علاقائی نہیں عالمی دہشت گرد ملک بن چکا ہے۔ اس سے بھی اگلی بات سنیے‘ اسرائیل نے تہران کے شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اہلِ تہران آمرانہ حکومت کو سپورٹ کرنے کی قیمت چکانے کیلئے تیار ہو جاؤ‘ ہم اب براہِ راست تہران کے شہری علاقوں پر بمباری کریں گے۔ گویا اسرائیل رجیم چینج کیلئے کھلم کھلا حملے کر رہا ہے۔
پیر کے روز پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک وڈیو کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو نے پاکستان کو دھمکی اب نہیں‘ 2011ء میں دی تھی۔ پھر انہوں نے خود ہی کہا کہ دھمکی پہلے دی گئی ہو یا اب دی جا رہی ہو‘ وہ دھمکی ہے۔ اہلِ تہران کو اپنے ملک کی ''آمریت‘‘ کی قیمت چکانے کی دھمکی میں ہر عرب اور مسلم ملک کے لیے بڑا واضح پیغام ہے کہ اسرائیل کسی بھی وقت کہاں تک جا سکتا ہے۔ اسلامی اور عرب ممالک کو اب یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر وہ اسی طرح خاموش رہتے ہیں اور اسرائیل کو لگام نہیں دیتے تو پھر ایک ایک کرکے سب کی باری آئے گی۔
آج اگر اسرائیل پاکستان کی طرف میلی نظر نہیں ڈال سکتا تو اس کا صرف ایک سبب ہے کہ پاکستان نہ صرف ایٹمی قوت ہے بلکہ جدید ٹیکنالوجی سے بھی آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ تربیت یافتہ بری‘ فضائی اور بحری فوج بھی رکھتا ہے۔ آج محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو یاد کرکے نگاہیں احسان شناسی کے جذبات سے نم آلود ہو گئیں۔ لیکن ملک میں ایسے احسان ناشناس بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیرو نہیں ایک سائنسدان تھے۔ سائنسدان تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے پہلے بھی بہت سے تھے مگر خان صاحب سے پہلے ہمیں کوئی شخص یورینیم افزودہ کرنے کا نسخہ بتا سکا اور نہ ہی عملاً اس کا تجربہ کرکے دکھا سکا۔ قوم ڈاکٹر خان کے علاوہ ایٹمی پروگرام کے بانی جناب ذوالفقار علی بھٹو‘ جنرل ضیا الحق‘ جناب غلام اسحق خان اور میاں محمد نواز شریف کی بھی ممنون ہے کہ جنہوں نے اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔
اسرائیل اکتوبر 2023ء سے لے کر اب تک غزہ میں ساڑھے 55 ہزار شہریوں کو شہید کر چکا ہے جن میں 17 ہزار بچے اور آٹھ ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔ اسرائیل باقاعدہ اہلِ غزہ کی نسل کشی کر رہا ہے۔ نیتن یاہو خوراک اور ادویات کو بھوک سے تڑپتے لوگوں تک پہنچنے نہیں دیتا اور جو معمولی سی خوراک کسی نہ کسی طرح قحط زدہ لوگوں تک پہنچ جاتی ہے‘ اسے وصول کرنے والوں پر اوپر سے بمباری کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ کب تک دو ارب مسلمان اپنے بیس بائیس لاکھ بھائیوں کو بے بسی کے عالم میں موت کے منہ میں جانے کا نظارہ کرتے رہیں گے۔
ایران پر اسرائیلی حملے کے کئی اہداف ہیں۔ پہلا ہدف تو یہ ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام تہس نہس کر دیا جائے۔ دوسرا ہدف وہاں رجیم چینج ہے۔ تیسرا ہدف سارے عالم اسلام کو خوفزدہ کرنا اور گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار کرنا ہے۔ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ کیا ہے؟ اس صہیونی منصوبے کے مطابق دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک مصر کے کچھ علاقوں‘ عراق‘ شام‘ لبنان‘اُردن اور سارے فلسطین کو اس کا حصہ بنایا جائے گا۔ ایران پر حالیہ صہیونی حملوں کے دو اہم ترین اسباق ہیں۔ پہلا تو یہ کہ اسرائیل عالم اسلام سے کہیں بڑھ کر جدید ترین اسلحہ رکھتا ہے۔ نیز وہ ایسی سائبر ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے جو ہزاروں کلو میٹر دور سے کسی بھی شخص کو ہلاک کرنے کی استعداد رکھتی ہے۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کس حد تک اسلامی ملکوں کے اندر گھس کر خوفناک کام کر رہی ہے۔ امت مسلمہ جدید ترین سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرے‘ نیز مسلم ملکوں کو اپنے لوگوں کے بجائے اسرائیل جیسے دشمنوں کے عزائم پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ علامہ نے اسی لیے فرمایا تھا کہ
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
عالم اسلام اپنی طرف بڑھتے ہوئے بڑے اسرائیلی خطرے کو بھانپ لے‘ نوشتۂ دیوار پڑھ لے۔ آج اُمت مسلمہ کی اہم ترین ضرورت ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ ہے۔ اس حوالے سے سعودی عرب‘ پاکستان اور ترکیہ قائدانہ کردار ادا کرنے کیلئے فوری طور پر کمربستہ ہو جائیں۔