ایک تو یوں بھی آج کی سائبر اور سپر سانک جنگوں کے حالات نہایت تیز رفتاری سے بدلتے ہیں‘ دوسرا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لمحہ بہ لمحہ رنگ بدلتے مزاج کے بارے میں کوئی بھی پیشگوئی کرنا آسان نہیں۔ پنجابی محاورے کے مطابق 'سجی دکھا کے کھبی مارنا‘ ٹرمپ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو شدید لہجے میں دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے خلیج میں امریکی تنصیبات کو نشانہ بنایا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔ ایران نے اس دھمکی کی پروا کیے بغیر سوموار کی رات قطر میں امریکی اڈے پر میزائلوں سے حملہ کر دیا۔ اب ہر کوئی دھڑکتے دل کے ساتھ انتظار کر رہا تھا کہ ٹرمپ اس ایرانی جسارت کے خلاف کیا ردعمل دیتے ہیں مگر ساری دنیا پیر اور منگل کی درمیانی شب کی آخری گھڑیوں میں حیرت میں ڈوب گئی جب صدر ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کی رضا مندی سے سیز فائر کا اعلان کر دیا۔ اب ہم صدر ٹرمپ سے امید کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل اور غزہ کے درمیان بھی مکمل جنگ بندی کرا دیں گے۔
ہم نے اپنا کالم منگل کو علی الصباح ارسال کر دیا تھا مگر جب دن چڑھے نئی ڈویلپمنٹ سامنے آئی تو سارا ابتدائیہ دوبارہ قلم برداشتہ لکھنا پڑا۔ چند گھنٹوں میں ہی ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جن سے سارا منظر نامہ بدل گیا۔ اس جنگ میں طرفین کا کتنا نقصان ہوا‘ جنگ بندی کب تک برقرار رہ سکے گی‘ ایران کا آئندہ کے حوالے سے کیا رسپانس ہو گا‘ آگے چل کر ہم اس کا تفصیلی جائزہ لیں گے مگر اس وقت آپ کو ایک اہم خبر سنانی ہے۔ ہمارے دوست پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر گزشتہ ایک برس سے بحیثیت استاذ تہران میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک دو روز قبل ہی تہران سے لاہور واپس آئے ہیں۔ وہ ایران کی تازہ ترین صورتحال کے عینی شاہد ہیں۔ میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا کہ اہلِ ایران کا مورال کیسا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں کے بعد اُن کا مورال بلند تھا اور امریکی حملے کے بعد یہ بلند تر تھا۔ زاہد منیر صاحب کا کہنا ہے کہ ایرانی بہت پُرجوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عراق نے امریکہ کے ایما پر جو جنگ ایران پر مسلط کی تھی ہم نے آٹھ برس تک اس میں دادِ شجاعت دی تھی اس لیے ہم جنگوں سے گھبرانے والے نہیں۔ ایران میں رجیم چینج کے بارے میں میرے سوال کے جواب میں پروفیسر صاحب نے بتایا کہ اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ اس جنگ کے بعد ایران کے دفاع کیلئے مختلف الخیال ایرانی جوش وجذبے کے ساتھ ایرانی حکومت کے ساتھ صف بستہ ہیں۔
جنگ بندی سے پہلے کے ہنگامہ خیز واقعات کا جائزہ لیں تو ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہر ملک کی خود مختاری کے تحفظ کی یقین دہانیوں کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہوئے ایران کی تین ایٹمی تنصیبات پر B-2 بمبار طیاروں‘ بنکر بسٹر بموں اور میزائلوں سے حملہ کر دیا۔ دو ایٹمی قوتوں‘ اسرائیل اور امریکہ نے مل کر ایک نان ایٹمی ملک ایران پر حملہ کیا۔ یہ حملہ بذاتِ خود ایک بہت بڑا جرم تھا مگر اس سے بھی بڑا جرم یہ کہ امریکہ نے ایک ایسی قوم پر اندیشہ ہائے دور دراز کا عذر تراش کر حملہ کیا جو این پی ٹی یعنی ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کر چکی ہے۔ مگر اس کے باوجود امریکہ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر بم اور میزائل داغے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فردو کا ایٹمی مرکز ٹنل در ٹنل زمین کے اندر گہرائی میں تعمیر کیا گیا ہے۔ ایک امریکی نیو کلیئر ماہر کی رائے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات کے غلط اندازے لگائے۔ اس ماہر نے واضح کیا کہ امریکی حکام کے اس دعوے میں زیادہ صداقت نہیں کہ انہوں نے ایران کے سارے ایٹمی منصوبے کو ملیامیٹ کر دیا۔ کچھ ایرانی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان مراکز سے کافی مدت پہلے وہ مواد نکال لیا گیا تھا جسے امریکہ نے اپنے تئیں نشانہ بنایا۔
سوموار کو ایران نے خلیج کے امریکی اڈوں کو نشانہ بنانے کا آغاز کر دیا تھا۔ ایران نے آبنائے ہرمز بند کرنے کیلئے پارلیمنٹ کی اجازت اور اس کیلئے تیاری کا ہوم ورک بھی مکمل کر لیا تھا۔ اس آبنائے ہرمز کے ذریعے ہی کئی ممالک کو تیل کی ترسیل ہوتی ہے۔ ایران نے جنگ کے دوران اپنے حواس کو مکمل طور پر قابو میں رکھا۔ اگرچہ اسرائیل میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ اس کا بہت بڑا جانی ومالی نقصان ہوا ہے مگر وہاں خبروں پر شدید نوعیت کا سنسر عائد کیا گیا اس لیے تفصیلات باہر نہیں آ سکیں۔ اسی طرح اسرائیل بھی ایران پر میزائلوں سے حملے کرتا رہا ہے۔ صہیونی ریاست تو جنگ کو لمبے عرصے تک جاری رکھنا چاہتی ہے۔ اسے پروا نہیں کیونکہ امریکہ سے اسے مسلسل کمک پہنچ رہی ہے۔ اسرائیل نے حالیہ دور کی بدترین اور طویل ترین جنگ غزہ کے شہریوں پر مسلط کر رکھی ہے۔ پونے دو ارب مسلمان بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ ایران کو حملے کے بعد امن مذاکرات کی پیشکش کر رہا تھا۔ ایران کا جواب یہ تھا کہ کون سے امن مذاکرات؟ ایرانی وزیر خارجہ نے درست کہا کہ ہم عمان میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات ہی کر رہے تھے جس کا اگلا اجلاس 15 جون کو ہونا تھا۔ مگر اجلاس سے دو روز قبل 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر اچانک حملے شروع کر دیے۔ اب امریکہ کے ایما پر یورپ کے تین ممالک ہمارے ساتھ مذاکرات کر رہے تھے کہ اچانک ٹرمپ نے ایران پر حملہ کر دیا۔ گویا ٹرمپ نے اپنے یورپی اتحادیوں کو بھی فریب دیا۔ امریکی صدر نے مذاکرات کا دھواں پھیلا کر اس کی آڑ میں ایرانی ایٹمی تنصیبات پر نہایت تباہ کن بنکر بسٹر گرا دیے۔اندازہ یہ تھا کہ امریکہ اپنے خلیجی عرب اتحادیوں کا خیال رکھے گا اور انہیں کسی بڑی آزمائش میں نہیں ڈالے گا۔ ایران نے امریکی حملوں کا جواب دیتے ہوئے قطر کے العُدید امریکی اڈے اور عراق کی عین الاسد بیس پر سوموار کی شب میزائل داغے۔ سوموار ہی کے روز ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے روس کے صدر پوتن سے ملاقات کی اور انہیں ایرانی سپریم لیڈر کا پیغام پہنچایا۔ صدر پوتن نے ایران کے ساتھ یکجہتی کا یقین دلایا۔23 جون کو اسلام آباد میں قومی سلامتی کونسل کی میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ کے اعلامیے کے مطابق کونسل نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی پُرزور مذمت کی۔ کونسل نے ایران پر امریکی بنکر بسٹر بموں اور میزائلوں کے حملوں کو بھی نشانۂ تنقید بنایا اور طرفین سے جنگ کے بجائے امن کی طرف واپس آنے پر زور دیا۔
80 برس قبل 1945ء میں امریکہ کے شہر سان فراسسکو میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی منظوری دی گئی۔ اس موقع پر ہر ملک کی خود مختاری کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ طاقت اپنے آپ کو کسی اصول وضابطے کی پابند نہیں سمجھتی۔ اس وقت کے امریکی صدر نے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد طاقت کے استعمال کو لگام دینے کا اعلان کیا تھا۔ آج اسی امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طاقت کے بے لگام ہونے کا عملاً اعلان کر دیا ہے۔ تاریخ کے چند سنہری ادوار کے علاوہ طاقت کبھی اخلاقی اصولوں کی پابند نہیں رہی۔ آج دنیا بھر کے دانشور متفکر ہیں کہ اقوام متحدہ کی ناکامی کے بعد دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا بھیانک بدامنی کا دور واپس آ جائے گا۔
فارسی زبان کی کہاوت ہے کہ دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست در پریشاں حالی و درماندگی۔ دوست وہ ہوتا ہے کہ جو پریشان حال دوست کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔ اس وقت یہی امتحان ایران کے برادر اور ہمسایہ ملک پاکستان کو درپیش ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان سرخرو ہو گیا کہ اس نے نہ صرف ایران پر امریکی و اسرائیلی حملوں کی مذمت کی بلکہ ایران اور اسرائیل کی جنگ بندی کے لیے اپنے دوست ممالک کے ذریعے بھرپور کوشش کی اور ان کوششوں سے خطے میں امن قائم ہو گیا۔