ذرا اُن گھروں پر اچانک ٹوٹ پڑنے والی قیامت کا تصور کیجیے جہاں گھر والے شدت کے ساتھ اپنے پیاروں کی آمد کے منتظر ہوں مگر ان کے گھر اُن کے پیارے نہیں بلکہ ان کی خاک و خون میں لتھڑی ہوئی لاشیں پہنچ جائیں۔ دس جولائی کو کوئٹہ سے پنجاب جانے والی کوچ کو ژوب کے علاقے میں روکا گیا۔ مسلح افراد نے مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے دس مسافروں کو بس سے اتار لیا اور ان میں سے نو کو بے دردی سے قتل کردیا۔ ان میں سے ایک غلام سعید نامی شخص لودھراں کے ایک گاؤں میں بسترِ علالت پر پڑے اپنے باپ کو سہارا دینے اور اس کی ہمت بندھانے کیلئے آ رہا تھا۔ جب باپ کو گھر پر جوان بیٹے کی لاش آنے کی خبر ملی تو اس کی ہمت ٹوٹ گئی اور صدمے کی شدت سے وہ خود بھی دم توڑ گیا۔ گھر میں ایک کہرام بپا ہو گیا۔ کم و بیش ہر گھر کا یہی المناک منظر تھا۔ دنیا پور لودھراں کے دو بھائی اپنے باپ کی نمازِ جنازہ میں شرکت کیلئے آ رہے تھے کہ وہ بھی اس المناک سانحے سے دوچار ہو گئے۔ یوں علاقے کے ہزاروں لوگوں نے ایک نہیں‘ تین جنازوں میں بیک وقت شرکت کی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آل پارٹیز کانفرنس فوری طور پر طلب کی جاتی۔ سیاستدان اور سکیورٹی ذمہ داران سر جوڑ کر بیٹھتے‘ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ نہ کوئی اسلام آباد سے آیا‘ نہ لاہور سے‘ نہ بلوچستان سے منتخب ہونے والے میرے مہربان مولانا فضل الرحمن اور جناب مولانا عبدالغفور حیدری نے نفرتوں کی آگ میں جلتے بلوچستان کی خبر لی۔کہنے کو بلوچستان کے وزیراعلیٰ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے‘ مگر پیپلز پارٹی خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت گرانے میں مصروف رہی۔ حکومتی ترجمان نے جذبات سے عاری ایک فارمولا ٹائپ‘ بے جان سا بیان دیا کہ فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں نے کوچ پر حملہ کیا اور بے گناہ لوگوں کو قتل کر دیا۔ ترجمان نے ایک رسمی سی کارروائی پوری کر دی مگر انہیں کوئی اندازہ نہیں کہ پنجاب کے آشیانوں پر بجلی کے کارواں گزر گئے۔ میں زیادہ پیچھے نہیں جاتا‘ گزشتہ دو سالوں میں دہشت گردی کی کئی دیگر خوفناک وارداتوں کے علاوہ بسوں سے پنجابیوں کو اتار کر قتل کرنے کا یہ کم از کم پانچواں واقعہ ہے۔ 13اپریل 2024ء سے لے کر سانحۂ 10جولائی تک ہر سانحے کے بعد اسی طرح کا بیان آ جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ اس کے بعد اگلے کسی سانحے تک خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ دہشت گردی کی مذمت اور خاتمہ تو اولین ترجیح ہے مگر بلوچستان کے مسئلے کا گہرائی سے جائزہ لینا‘ اس کے مختلف پہلوؤں کو زیرِ بحث لانا اور اس کے مستقل حل پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
پروفیسر خورشید احمد مرحوم زندگی کے آخری سانس تک ملتِ اسلامیہ کے مسائل اور پاکستان کے دگرگوں معاملات پر گہرا غور و فکر کرتے اور مختلف مسائل کا حل پیش کرتے رہے۔ پروفیسر صاحب شاید اُس قافلۂ حق کے آخری سپاہی تھے جس نے ملتِ اسلامیہ اور پاکستان کیلئے اپنے خونِ جگر کی روشنائی سے اَنمٹ تحریریں چھوڑی ہیں۔ بسترِ علالت سے ان کی آخری تحریر ''بلوچستان‘ سلگتی آگ اور قومی ذمہ داریاں‘‘ تھی۔ گویا پروفیسر صاحب کی تحریر نصیحت بھی ہے اور قوم کے نام وصیت بھی۔ پروفیسر صاحب کی اس چشم کشا تحریر کی چند اہم ترین سطور پیش کرنے سے پہلے بلوچستان کے بارے میں چند حقائق سمجھ لیجیے۔ بلوچستان ملکی رقبے کا 45 فیصد ہے جبکہ آبادی تقریباً چھ فیصد پر مشتمل ہے۔ لگ بھگ 900کلو میٹر کا ساحلی علاقہ اور ایران و افغانستان سے سینکڑوں کلو میٹر کی مشترک سرحد ہے۔ تیل‘ گیس‘ کوئلے اور دوسری قیمتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود یہ غریب ترین صوبہ ہے۔ معاشی ڈھانچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ انفراسٹرکچر تباہ حال ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان میں اربوں روپے خرچ کرنے کے اعلان کے باوجود صوبے میں نفرت اور بے چینی کی لہریں کیوں اُٹھ رہی ہیں؟
پروفیسر خورشید احمد صاحب لکھتے ہیں: یہ 2004ء کی بات ہے کہ مجھے بطور پارلیمنٹیرین بلوچستان کے حالات کا زیادہ گہرائی سے مطالعہ کرنے اور صوبے کے چند مرکزی مقامات کا تفصیلی دورہ کرنے‘ اپنی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کرنے اور بہت سے ذمہ دار افراد سے حقائق کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد جہاں مجھے یقین ہے کہ آج بھی تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل ہو سکتے ہیں‘ وہیں میرا یہ احساس اور بھی پختہ ہو گیا کہ کچھ برسراقتدار قوتیں مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ بلوچستان کی سیاسی و معاشی ناہمواری اپنی جگہ بڑی تلخ حقیقت ہے جس کی ذمہ داری ایک طرف مرکزی اور صوبائی حکومت پر آتی ہے تو دوسری جانب خود بلوچستان کے مقتدر طبقوں اور نوابوں کی ایک نسل کو اس ظلم سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم بلوچستان کے تمام حلقوں کو یہ حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مبالغہ آمیز پروپیگنڈا کے ساتھ نفرت کی آگ بھڑکانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ چودھری شجاعت حسین نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے مختصر دور میں بلوچستان کے مسائل کا گہرائی سے جائزہ لینے اور ان کا حل تجویز کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی۔ اس کمیٹی کے تاریخی کام کو دو ذیلی کمیٹیوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ سینیٹر وسیم سجاد کی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی کے سپرد دستوری سفارشات پیش کرنا ہوا اور سینیٹر مشاہد حسین سید کی سربراہی میں دوسری کمیٹی کے ذمے سیاسی و معاشی سفارشات مرتب کرنا تھا۔ ان عالی دماغوں کی مرتب کردہ سفارشات قومی امانت ہیں۔ آج بھی اس دستاویز سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
پروفیسر خورشید احمد دوسری کمیٹی کے رکن تھے۔ پروفیسر صاحب نے 93 برس کی عمر میں اپنی زندگی کے آخری دنوں میں'' ترجمان القرآن‘‘ کیلئے وصیت نامہ برائے بلوچستان تحریر کیا تھا۔ پروفیسر خورشید احمد نے اپنی پارلیمانی کمیٹی کی مرتب کردہ سفارشات اور اپنے مشاہدات کی روشنی میں بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے دس نکاتی تجاویز پیش کی ہیں۔ ہم ان میں سے تین چار اہم ترین تجاویز کا خلاصہ یہاں پیش کر رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔ مسئلہ سیاسی ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہی ہو سکتا ہے۔ مسئلے کے حل کیلئے تمام متعلقہ عناصر کو افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ جب صوبے مکمل ہم آہنگی سے ایک دوسرے کیلئے مضبوطی کا ذریعہ اور وسیلہ بنیں گے تو مرکز مضبوط ہو گا۔ صوبے میں تعلیم‘ صحت‘ پانی‘ بجلی اور گیس کی فراہمی وغیرہ کا بھی خصوصی انتظام ہو۔ ملازمتوں میں مقامی آبادی کو ترجیح دی جائے۔ یہ سب کام میرٹ پر ہوں۔ پروفیسر صاحب کی رائے میں بلوچستان کے اندر بھارت اور امریکہ‘ دونوں اپنے اپنے اہداف کیلئے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔
پروفیسر صاحب کی درد مندانہ تحریر کی یہ سطور ہر باشعور پاکستانی کیلئے بالعموم اور پاکستان کے حکمرانوں کیلئے بالخصوص قابلِ توجہ ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد کی اس نصیحت یا وصیت پر عملدرآمد سے بدامنی کے شکار بلوچستان کو امن کا گہوارہ بنانا ممکن ہے۔ پروفیسر صاحب فرماتے ہیں ''مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ مذاکرات کیلئے اعتماد کی بحالی پہلا قدم ہو سکتا ہے‘ اس کیلئے ملٹری آپریشن کا خاتمہ‘ عام معافی‘ تمام گرفتار اور لاپتا افراد کی بازیابی اور بہتر فضا میں تمام سیاسی و دینی قوتوں کی شرکت سے معاملات کو سنبھالا جائے۔ بیرونی قوتوں کا کھیل بھی اُس وقت ہی ناکام بنایا جا سکتا ہے جب ہم اپنے معاملات کی خود اصلاح کر لیں۔ پروفیسر صاحب نے اپنے الفاظ میں خلاصۂ کلام یوں پیش کیا ہے: بلوچستان کا پاکستان سے باہر کوئی مستقبل نہیں اور نہ پاکستان کا بلوچستان کے بغیر وجود ممکن ہے۔ اسی قومی یکجہتی سے ان شاء اللہ بدامنی کی آگ بجھے گی۔