پھانسی کے خلاف وزیر قانون کا فتویٰ

ہمارے وزیروں کا مبلغ دینی علم معدوم اور دنیاوی علم نہایت محدود ہے۔ وہ ''حسبِ حکم‘‘ سوچے سمجھے بغیر حکم کی تعمیل کیلئے دوڑ پڑتے ہیں کہ یہاں کوئی ہماری چال سمجھنے والا ہے اور نہ باز پرس کرنے والا۔
چار پانچ روز قبل سینیٹ میں کئی جرائم میں دی جانے والی سزائے موت کو ختم کر دیا گیا۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ پاکستان اس کمٹمنٹ کو پورا کرے جو اس نے سزائے موت کے بتدریج خاتمے کیلئے یورپی و عالمی اداروں کو دے رکھی ہے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ''پھانسی سے جرائم کم نہیں ہوتے‘‘۔ وہ فرماتے ہیں کہ کیسے سوچ لیا گیا کہ سزا کی سنگینی جرم کو روکتی ہے۔
ہمارے پاس 100 جرائم میں سزائے موت ہے اور جرائم کی شرح بلند ہے۔ یورپ میں سزائے موت نہیں اور وہاں جرائم کم ہو رہے ہیں۔ یورپ کا سارا فلسفۂ حیات ہی مختلف ہے۔ اُن کی ہمدردیاں مقتول کے ساتھ نہیں قاتل کے ساتھ ہوتی ہیں‘ مظلوم کے ساتھ نہیں ظالم کے ساتھ ہوتی ہیں۔ وہاں بھی مقتول و مظلوم کے ورثا قاتلوں کیلئے شدید ترین سزا کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر بھی بہت سے اسباب ہیں‘ تاہم اس وقت یورپ نہیں پاکستان ہمارا موضوع ہے۔ تارڑ صاحب کے نزدیک سزائے موت کی بنا پر زیادہ جرائم ہو رہے ہیں‘ سزائے موت ختم کر دی جائے تو جرائم کم ہو جائیں گے۔ دلیلِ کم نظری و کم علمی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اگر آج یہ ڈراوا بھی ختم کر دیا جائے تو پھر سڑکوں پر قاتل ہی قاتل نظر آئیں گے۔
پاکستان اُن ملکوں میں شامل ہے جہاں جرائم کی شرح بلند ترین ہے۔ جرائم کی کثرت کا بڑا سبب یہ ہے کہ یہاں لاقانونیت ہے‘ قانون کی حقیقی عملداری نہیں‘ رشوت ستانی عام ہے۔ ہمارے عدالتی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ اونچے سے اونچا منصب قابلِ رسائی ہے۔ ہر طرح کا اسلحہ عام ہے۔ عملاً یہاں سزائے موت بہت کم دی جاتی ہے۔ فوجداری مقدمات میں بھی انصاف کا عمل سالہا سال نہیں دہائیوں تک پھیلا ہوتا ہے۔ یہاں ہر مجرم کو یقین ہوتا ہے کہ قانونی پیچیدگیوں اور بھول بھلیوں میں سے وکلا اس کیلئے کوئی نہ کوئی رستہ نکال لیں گے۔ اس بے فکری کی بنا پر وطنِ عزیز میں مکھی مارنا دشوار‘ بندہ مارنا آسان ہے۔
سعودی عرب جرائم کی کم ترین شرح کے اعتبار سے دنیا کے پہلے چند ممالک میں گزشتہ کئی دہائیوں سے شمار ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں شرعی سزائیں نافذ ہیں۔ وہاں رُول آف لاء حقیقی معنوں میں موجود ہے۔ بڑے سے بڑا مجرم جرم کا ارتکاب کرکے قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ وہاں کوئی شہری پستول حاصل نہیں کر سکتا۔ گزشتہ اسی‘ نوے برس سے اسلامی سزاؤں کے عملی نفاذ اور قانون کی حقیقی عملداری کی بنا پر ایک طرف جہالت کا خاتمہ کر دیا گیا ہے‘ اور دوسری طرف لوگوں کے اندر قانون کے احترام کا کلچر پیدا کر دیا گیا ہے۔
یہ 1980ء کی دہائی کا ذکر ہے کہ ابھی ریاض طائف موٹر وے نہیں بنا تھا اور صحرا کے بیچوں بیچ ایک سنگل روڈ آتی تھی۔ اس زمانے میں یہ درویش بھی طائف میں مقیم تھا اور اسی صحرائی سڑک سے کئی بار ریاض آنے جانے کا موقع ملا۔ کبھی کوئی ڈر خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔ پھر یہ خبریں ملنے لگیں کہ رشاش العتیبی‘ جو سعودی نیشنل گارڈ میں سپاہی تھااور وہاں سے اسے 1985ء میں نکالا گیا تھا‘ اس نے ایک مسلح گینگ بنا لیا ہے۔ یہ گینگ راتوں کو بسوں‘ نجی گاڑیوں حتیٰ کہ پولیس کے قافلوں تک کو لوٹ لیتا ہے۔ اس گینگ کے ڈاکو بعض اوقات مسافروں پر گولیاں بھی برساتے۔ گاڑیاں دھماکے سے اڑا دیتے۔ سعودی حکومت نے ان وارداتوں پر بڑا شدید ردعمل اختیار کیا۔ پہلے تو پولیس کی گاڑیوں کی نگرانی میں مسافر گاڑیوں کو قافلے کی صورت میں بھیجا جانے لگا۔ اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فہد بن عبدالعزیز نے وزیر داخلہ پرنس نائف بن عبدالعزیز کو حکم دیا کہ تمام تر وسائل بروئے کار لا کر اس گینگ کا خاتمہ کیا جائے۔ کمانڈوز کی ایک فورس تیار کی گئی جس نے زمینی اور فضائی دونوں طرح کے آپریشنز کر کے 1989ء میں صحرا کے اندر غائب ہونے والے رہزنوں کا ہیلی کاپٹروں اور بکتر بند گاڑیوں کے ذریعے قلبِ صحرا تک تعاقب کیا اور بہت سے ڈاکوؤں کو گرفتار کر لیا۔ رشاش العتیبی یمن کی طرف فرار ہو گیا مگر سعودی حکومت نے فی الفور یمنی حکومت سے رابطہ کر کے اسے بھی گرفتار کر لیا۔ رشاش اور اُس کے پہلے سے گرفتار ساتھیوں پر حرابہ (رہزنی‘ ڈکیتی اور قتل و غارت گری) کی دفعات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ تمام زیریں عدالتوں اور المحکمہ العلیا بالریاض (سپریم کورٹ) تک نے متفقہ طور پر ان مجرموں کو شدید ترین قرآنی سزائیں دیں۔ عدالتی احکامات کی روشنی میں تمام مجرموں کے سر قلم کر دیے گئے۔ ان کی سربریدہ لاشیں کئی روز تک ریاض کے ایک مرکزی چوراہے میں لٹکتی رہیں تاکہ لوگ عبرت پکڑیں۔ تمام تر عدالتی عمل کی تکمیل سالہا سال میں نہیں‘ محض چند ہفتوں میں ہو گئی۔ اس کے بعد سعودی عرب میں ایسی کوئی رہزنی نہیں ہوئی۔
اگر پھانسی کی سزاؤں کے ساتھ پاکستان میں بھی قانون کی عمل داری ہوتی تو پھر کچے اور پکے کے ڈاکو یوں نہ دندناتے پھرتے۔ پیر ہی کے روز یہ خبر آئی کہ کچے کے ڈاکوؤں نے بھاری تاوان لے کر شہری کو چھوڑا۔ میں کیا کیا گنواؤں۔ ہر روز اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اس دھرتی پر ایسے ایسے گھناؤنے جرائم کیے جاتے ہیں کہ جن کے تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔ ڈاکوؤں‘ رہزنوں اور قاتلوں کو یہاں کوئی خوف نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اول تو قانون کے شکنجے میں آئیں گے نہیں‘ اگر آ بھی گئے تو ان کے سرپرست ان کی مدد کو دوڑے آئیں گے۔
حیرت ہے دیگر جرائم کے علاوہ آئے روز یہاں ''غیرت‘‘ کے نام پر بچیوں اور نوجوانوں کا قتلِ عام ہوتا ہے۔ دو تین روز پہلے خبر آئی کہ بلوچستان میں جرگے کے حکم پر ایک جوڑے کو گولیاں مار کر سر عام قتل کر دیا گیا۔ جرگے کی کیا حیثیت ہے جو اس درندگی کا مرتکب ہوا۔ قتلِ ناحق کے جرم میں لڑکی کے بھائی سمیت تمام جرگہ کو پھانسی کی سزا دی جانی چاہیے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے درندگی کے اس واقعہ کو بطور عذرِ گناہ بدتر از گناہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ شادی شدہ جوڑا نہیں تھا۔ کچھ بھی ہو‘ انسانوں کا اتنا بہیمانہ قتل انتہائی قابلِ مذمت ہے۔
ایک صحابی اللہ کے آخری نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو اس کے آشنا کے ساتھ دیکھا۔ میں اسے فی الفور قتل کرنا چاہتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تمہیں ہرگز اس کی اجازت نہیں۔ یہ کام عدالت کا ہے تم قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے۔ یہاں ایسے ایسے سفاک قاتل بھی ہیں جو بہلا پھسلا کر اپنی بیٹیوں کو یورپ سے یہاں لاتے ہیں اور پھر انہیں بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ پاکستان میں لاقانونیت ہے جو جی چاہے کرتے پھرو۔ اگر یہاں بھی سعودی عرب کی طرح قانون کا نفاذ ہوتا تو صرف چند ہفتوں میں نام نہاد ''غیرت مند‘‘ باپوں اور بھائیوں وغیرہ کو سزائے موت دی جاتی اور ریاست خود ایسے گھناؤنے جرائم کی مدعی ہوتی تو آنر کلنگ کا یہ ڈرامہ کب کا اس ملک سے ختم ہو چکا ہوتا۔ وزیر قانون تیزاب کے ڈرموں میں ڈال کر 100 بچوں کو قتل کرنے والے وحشی قاتل کے بارے میں کیا کہیں گے کہ اسے سزائے موت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ تارڑ صاحب! قصاص بارے قرآنی آیات کا بغور مطالعہ کریں تاکہ انہیں ''اے عقل والوں تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘ کا مفہوم معلوم ہو۔وزیر قانون یہ کہہ کر کہ ''پھانسی سے جرائم کم نہیں ہوتے‘‘ آئینِ پاکستان سے روگردانی کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔اگر ملک میں قانون کی حکمرانی ہو تو پھر پھانسی سے نہ صرف جرائم کم بلکہ بہت کم ہوتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں