غزہ: جہاں ہر گھر قبرستان بنتا جا رہا ہے

سچی بات تو یہ ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فائرنگ کا نشانہ بنتے مظلوم انسانوں‘ چند گھونٹ دودھ کے لیے بلکتے بچوں اور ہسپتالوں کے فرش پر درد کی شدت سے کراہتے ہوئے زخمیوں کو دیکھنا بہت مشکل کام ہے۔ میں دل دہلا دینے والے ان مناظر سے جتنی آنکھیں چراتا ہوں اتنے ہی یہ مناظر میرا پیچھا کرتے ہیں اور دل کو تڑپاتے ہیں۔ اپنی اور امتِ مسلمہ کی بے بسی پر آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔
ان دنوں غزہ میں یو این او کے زیر اہتمام کئی ملکوں کے ڈاکٹروں کے ساتھ پاکستانی نژاد امریکی مرد و خواتین ڈاکٹرز بھی بے سرو سامانی کے عالم میں اپنے فلسطینی بھائی بہنوں اور بچوں کے لیے طبی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ اس ٹیم میں ٹیکساس کے پاکستانی نژاد امریکی ایمرجنسی سپیشلسٹ ڈاکٹر بلال نے غزہ کے ایک ہسپتال سے وڈیو کال کے ذریعے وہاں کا چشم دید حال یوں بیان کیا ہے: ہمیں جنگ کے دوران کئی مرتبہ یہاں میڈیکل مشن کے ساتھ آ کر خدمات انجام دینے کا موقع ملا ہے مگر جتنے بدترین حالات آج غزہ کے ہیں‘ پہلے کبھی نہ تھے۔ فلسطینیوں کی تین طرح سے نسل کشی کی جا رہی ہے۔ انسانوں پر دن رات بمباری ہو رہی ہے۔ ان کے گھروں‘ پناہ گاہوں اور خیمہ بستیوں میں بچوں‘ بوڑھوں‘ خواتین اور مردوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔ روزانہ بڑی تعداد میں لوگ بھوک سے دم توڑ رہے ہیں۔
بھوک کو اسرائیل ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ ہسپتالوں پر بھی بمباری کر کے انہیں مریضوں اور زخمیوں سمیت مقتل بنا دیا گیا ہے۔ غزہ کے بارڈر پر خوراک سے لدے ہوئے چھ ہزار ٹرک موجود ہیں مگر اسرائیل انہیں اندر داخل نہیں ہونے دے رہا۔ اسرائیلی اور امریکی تاجروں نے بھوکے انسانوں میں خوراک کی تقسیم کا جو نام نہاد نظام بنا رکھا ہے وہ دراصل انسانوں کی شکار گاہ ہے۔ وہاں اسرائیلی فوج کا کنٹرول ہے۔ جان بچانے کے لیے خوراک کے انتظار میں کھڑے بچوں‘ بوڑھوں اور جوانوں کو اسرائیلی فوجی نشانہ بناتے ہیں۔ فلسطینیوں کی بے بسی دیکھیے کہ اس خوراک والی انسانی شکار گاہ میں پڑی بے گور و کفن لاشوں کو وہاں سے اٹھانے والا کوئی نہیں۔
سفید پوش لوگوں کے پاس جو اثاثہ بھی بچا ہے وہ اس کے ذریعے بازار سے آٹا‘ چاول حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر تو پیسوں سے کوئی خوراک دستیاب نہیں۔ ڈاکٹر بلال نے یہ بھی بتایا کہ ہر طرح کے حالات میں جان پر کھیل کر ہسپتالوں میں کھانا پہنچانے والے ورلڈ سنٹرل کچن نے بھی اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے نہایت زخمی دل کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ ہم اب ہسپتالوں میں خوراک مہیا کرنے سے قاصر ہیں‘ لہٰذا گزشتہ دو دنوں سے ٹوٹے پھوٹے ہسپتالوں کے مریضوں کو کوئی خوراک مل رہی ہے اور نہ ہی ڈاکٹروں اور نرسوں کو۔
یہ فلسطینی ڈاکٹرز اور نرسیں صرف اہلِ فلسطین کے نہیں عالمِ انسانیت کے بھی ہیرو ہیں۔ وہ اپنے گھروں سے بھوکے آتے ہیں‘ خالی پیٹ ہی انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ وہ کھنڈر بنے گھروں میں اپنے بچوں کو بھوکا چھوڑ کر آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو کھانے پینے کی اشیا کا انتظار کرنے والے بچوں کے لیے سوائے بھوک کے اپنے ساتھ اور کچھ نہیں لے کر جاتے۔ ڈاکٹر بلال نے غزہ میں کام کرنے والے فلسطینی‘ امریکی اور یورپی ڈاکٹروں کی ترجمانی کرتے ہوئے ضمیرِ عالم‘ مغربی قیادت اور امت مسلمہ کے حکمرانوں سے بڑی درد مدانہ اپیل کی ہے کہ وہ فی الفور غزہ کی مدد کو آئیں۔ فوری طور پر غزہ میں خوراک کے داخلے پر عائد پابندیاں اٹھوائیں۔ نام نہاد اسرائیلی امریکی خوراک پوائنٹس پر انسانوں کا شکار رکوائیں۔ حتیٰ کہ چند روز پہلے لوگ واٹر ٹینک سے پانی لینے گئے تو وہاں بھی غزہ کے پیاسوں کو فائرنگ سے نشانہ بنایا گیا۔
غزہ کے ڈاکٹروں کی طرف سے جاری کردہ یہ چشم دید رپورٹ بڑی دل دہلا دینے والی ہے۔ دنیا نے جو کچھ کرنا ہے فی الفور کرے‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ جب وہ پہنچیں تو اس وقت سارا غزہ ایک بڑا قبرستان بن چکا ہو۔ اس وقت دنیا میں کہیں کہیں اہلِ غزہ کے لیے کچھ سلو موشن کوششیں ہو رہی ہیں‘ تاہم یہ تاخیر جان لیوا ہے۔ پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار نے سلامتی کونسل میں پُرجوش خطاب کرتے ہوئے امن کا چھ نکاتی فارمولا پیش کیا ہے۔ ان نکات میں فوری سیز فائر‘ خوراک اور ادویات کا بلا روک ٹوک داخلہ‘ غزہ کے لیے بند بین الاقوامی امداد کو فوری طور پر دوبارہ کھلوانا شامل ہے۔ غزہ کی تعمیر نو کے لیے مسلم و عرب دنیا کا منصوبہ قبول کیا جائے اور اس کے لیے راہ ہموار کی جائے۔انہوں نے فلسطین میں دو ریاستی فارمولے کے نفاذ کے لیے سیاسی عمل کو دوبارہ شروع کرنے پر بھی زور دیا ہے۔ اسی طرح 28جولائی کو فرانس اور سعودی عرب کی طرف سے مشترکہ طور پر دو ریاستی پروگرام کو عملاً اختیار کرنے کے لیے بلائی جانے والی انٹرنیشنل کانفرنس بھی ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اگر سارا عالمِ اسلام اور سارا یورپ فلسطین کے دو ریاستی فارمولے کو اپنا مشترکہ مطالبہ بنا لیتا ہے تو پھر امریکہ کو بھی یہ بات ماننا پڑے گی۔ مسئلہ فلسطین کا مستقل حل اس کے سوا کچھ نہیں۔ کئی برس قبل سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے یہی بات کہی تھی کہ اسرائیل 1967ء کی سرحدوں پر واپس جائے۔ ہم ایک بااختیار فلسطینی ریاست کے عوض اسرائیل کو تسلیم کر سکتے ہیں۔ اگر اسرائیل ہٹ دھرمی سے کام لے گا تو پھر سارے علاقے میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اسرائیل کو جنگ کے شعلوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اگر چند غیرمسلم لڑکیوں کا یورپی کلب خوراک اور ادویات کا پورا بحری جہاز لے کر کھلے سمندر کے ذریعے غزہ کے ساحل تک آ سکتا ہے تو لامحدود مالی و دفاعی وسائل رکھنے والی عرب اور مسلم اقوام امریکہ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اہل غزہ کے لیے خوراک کے داخلے کے لیے بند دروازے کیوں نہیں کھلوا سکتیں۔
دیکھیے اسرائیل کیسے تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے۔ اسے اپنے یرغمالیوں کی بھی فکر نہیں۔ صہیونی ریاست غزہ کے خاتمے پر تلی کھڑی ہے اور اس کے لیے بھوک سمیت ہر ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ کوئی دو ہفتے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہہ کر امید کی کرن دکھائی تھی کہ نیتن یاہو آ رہا ہے‘ بس پھر سیز فائر ہو جائے گا۔ سیز فائر کیا ہونا تھا‘ اُلٹا اسرائیل نے شام پر بھی حملہ کر دیا۔ او آئی سی‘ عرب لیگ اور خلیج کونسل مشترکہ اجلاس بلائیں۔ پاکستان کے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر‘ طیب ایردوان اور محمد بن سلمان اپنا ذاتی اثر و رسوخ استعمال کریں اور فی الفور سیز فائر کروائیں اور قحط زدہ اہلِ غزہ تک خوراک پہنچائیں۔ مسلم قیادت پر تو دہری ذمہ داری ہے۔ ایک تو اپنے بھائیوں کی مدد کی اور دوسری عنداللہ جوابدہی کی ذمہ داری۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں