پاکستان کی بیٹی اور پاکستان کا وزیر خارجہ

قومی مفادات کی تہہ در تہہ لطافتوں اور سفارتکاری کی نزاکتوں کا تقاضا تو یہ ہوتا ہے کہ جو جتنا بڑا ذمہ دار ہو‘ وہ اتنی ہی احتیاط ملحوظِ خاطر رکھے۔ وزیر خارجہ اسحق ڈار صاحب واشنگٹن میں یہ احتیاط مدنظر نہ رکھ سکے اور انہوں نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا ان سے اہلِ پاکستان کے جذبات کو بہت ٹھیس پہنچی۔ ایسی صورتحال کے لیے حکیم الامت علامہ اقبال پہلے ہی فرما گئے ہیں:
فلک نے اُن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں کہ روشِ بندہ پروری کیا ہے
سفارت کاری ایک ایسا میدان ہے کہ جہاں ہر سوال کا جواب منہ پر نہیں دے مارنا ہوتا۔ کوچۂ سیاست میں تو بلند بانگ نعرے لگائے جاتے ہیں مگر سفارت کاری کی دنیا میں بعض اوقات معنی خیز خاموشی‘ مسکراہٹ یا ''نو کمنٹ‘‘ کہہ کر کام چلایا جاتا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ اور نائب وزیراعظم اسحق ڈار صاحب واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل کے ایک ایونٹ میں موجود تھے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں بغیر کسی تحفظ کے سوالات کیے جاتے ہیں۔ وہاں اُن سے پاکستان کے عدالتی نظام اور جمہوری مستقبل کے بارے میں سوال کیا گیا۔ ڈار صاحب قومی و حکومتی مفاد کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس سوال کے کئی جواب دے سکتے تھے مگر انہوں نے ایک ایسا لٹھ مارا کہ جسے سن کر ساری قوم کا سر شرم سے جھک گیا اور وہ سراپا احتجاج بن گئی۔ ڈار صاحب نے کہا کہ آپ کی عدالت نے عافیہ صدیقی کو باقاعدہ پروسیس کے بعد 86 برس کی درست سزا دی تھی۔ دراصل موصوف اپنے عدالتی نظام کا دفاع کرنا چاہ رہے تھے مگر یہ عذرِ گناہ بدتر از گناہ ثابت ہوا۔ پاکستان کے وزیر اعظم ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے سامنے مظلوم عافیہ صدیقی کو قوم کی بیٹی‘ قوم کی بیٹی کہتے نہیں تھکتے اور وہاں واشنگٹن میں اسی حکومت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر عافیہ کے کیس کی یوں وکالت کر رہے تھے کہ اس کو ملنے والی غیر معمولی سزا کو درست قرار دے دیاجبکہ عافیہ صدیقی پر کابل میں تھوپا جانے والا سارا کیس ہی بیشتر لوگوں کے نزدیک نہایت مشکوک ہے۔
21 جولائی 2025ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے وزیراعظم سمیت ساری کابینہ کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے اُن سے دو ہفتوں کے اندر یہ جواب طلب کیا کہ انہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کے بارے میں اب تک رپورٹ کیوں نہیں بھیجی گئی۔ حکومت Amicus Briefبھیجنے سے انکاری ہے۔ درج بالا قانونی اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ کسی فرد کے کیس کے بارے میں نظر ثانی یا رحم کی اپیل کرتے ہوئے حکومت بھی ایک سفارشی نوٹ ارسال کر سکتی ہے اور اس طرح کی اپیل میں یہ نوٹ نہایت مؤثر ثابت ہوتا ہے۔ امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے جوبائیڈن کے وقتِ رخصت بھاگ دوڑ شروع کر دی گئی تھی اور اُن دنوں وزیراعظم جناب شہباز شریف نے وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے والے صدر کو جذبات و استدلال کے ساتھ ایک خط تحریر کیا تھا۔
ہم وزیراعظم کے اس خط کے مختصر مندرجات آپ کے سامنے پیش کرنے سے پہلے آپ کو یاد دلا دیں کہ دسمبر 2024ء کے اواخر اور جنوری 2025ء کے اوائل میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے واشنگٹن میں کوششیں تیز تر کر دی گئی تھیں۔ اسلامی سرکل آف نارتھ امریکہ کی قیادت نے دیگر بااثر پاکستانی امریکیوں کے ہمراہ واشنگٹن میں کئی اہم سینیٹرز اور ممبرانِ کانگریس کے ساتھ نہایت مفید ملاقاتیں کی تھیں۔ عالمی شہرت یافتہ وکیل کلائیو سمتھ نے گزشتہ دو برس کے دوران پاکستان اور افغانستان کے دورے کیے اور امریکہ میں ڈاکٹر عافیہ کیس سے متعلقہ دستاویزات کا تحقیقی مطالعہ کر کے جوبائیڈن کے نام ایک اپیل مرتب کی اور اسے وائٹ ہاؤس میں پیش کیا تھا۔
اس اپیل سے قبل اکتوبر 2024ء میں وزیراعظم شہباز شریف نے ایک اثر انگیز خط صدر جوبائیڈن کو لکھا تھا۔ خط میں تحریر کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2010ء سے نیو یارک کی عدالت کی طرف سے دی جانے والی 86 سالہ قید بھگت رہی ہیں‘ اس سزا میں پیرول کی سہولت بھی موجود نہیں۔ وزیراعظم نے اپنے مکتوب میں یہ بھی لکھا کہ 52سالہ خاتون قیدی کی گرتی ہوئی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ شہباز شریف نے اپنے خط کے آخری پیرا گراف میں نہایت دردمندی سے باور کرایا کہ جب کوئی امریکی بیرونِ ملک کہیں زیر حراست ہوتا ہے تو آپ اس کی رہائی کیلئے دل و جان سے کوشش کرتے ہیں (یقینا وزیراعظم کا اشارہ پاکستان سے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی جانب بھی ہو گا) وزیراعظم پاکستان نے نہایت دلسوزی سے یہ لکھا کہ میرا بھی یہ مقدس فرض ہے کہ میں اپنی مصیبت زدہ شہری کی دگرگوں حالات سے نجات کیلئے ہر ممکن کاوش کروں۔ وزیراعظم نے صدر جوبائیڈن سے درخواست کی تھی کہ وہ معافی دینے کا اپنا دستوری حق استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا حکم صادر فرمائیں۔
اُن دنوں بھی حکومتی پالیسی دُہرے معیار کا شکار رہی۔ جب واشنگٹن میں بااثر پاکستانی امریکن سینیٹروں‘ ارکانِ کانگریس اور دیگر متعلقہ اداروں کے ذمہ داران سے ملاقاتیں کررہے تھے اور انہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے دائر کی گئی رحم کی اپیل کی مکمل حمایت کرنے کی درخواست کر رہے تھے‘ اس وقت پاکستان سے آئے ہوئے غیر معروف سینیٹرز (اس وفد میں جناب عرفان صدیقی تھے نہ مشاہد حسین سیّد اور نہ ہی کوئی اور معروف نام) کی امریکی قانون سازوں سے ایک بھی ملاقات کا بندوبست امریکہ میں پاکستانی سفیر نے نہیں کیا تھا۔ لہٰذا بارسوخ پاکستانی امریکیوں کا وفد عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سمتھ اور پاکستانی سینیٹرز کو ساتھ لے کر مزید کئی سینیٹرز سے ملاقاتیں کرتا رہا۔ عین انہی دنوں پاکستانی سفیر محترم سینیٹرز اور ارکانِ کانگریس سے ڈاکٹر عافیہ کیلئے نہیں‘ پاکستانی حکومت کے جمہوری امیج کو بہتر بنانے کیلئے ملاقاتیں کر رہے تھے۔ یہ درویش اس سال مارچ‘ اپریل اور مئی کے دوران امریکہ میں تھا۔ عین رمضان المبارک میں روزے کے ساتھ ٹیکساس کے شہر فورٹ ورتھ کی جیل کے باہر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے مسلم اور غیر مسلم امریکیوں نے زبردست مظاہرہ کیا۔ معروف امریکی شیخ عمر سلیمان اور ڈاکٹر آصف دانی نے نہایت مؤثر خطاب میں ڈاکٹر عافیہ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ وہاں سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی‘ عرب اور دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والے اور امریکی خواتین و حضرات اور بچے موجود تھے۔ مجمع پُرجوش نعرے لگا رہا تھا: فری‘ فری عافیہ فری۔ ہم بھی فیملی کے ساتھ وہاں موجود تھے۔
دیوارِ قفس کے باہر اتنی بڑی احتجاجی ریلی کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ یہاں کوئی دفعہ 144نافذ نہ تھی۔ نہ ہی پولیس یا رینجر کا کوئی سپاہی آن ڈیوٹی تھا۔ احتجاجی ریلی کے منتظمین ہی نہایت ڈسپلن کے ساتھ ٹریفک کنٹرول کر رہے تھے۔ امریکی حکمرانوں سے مرعوب پاکستانی صاحبانِ اقتدار کیلئے یہ بڑا قابلِ تقلید منظر تھا۔ خارجہ امور اور سفارت کاری کارِ شیشہ گری ہے‘ یہ لٹھ ماری نہیں۔ اسحق ڈار کے اس بلنڈر سے پاکستان کے علاوہ دوسری قومیت سے تعلق رکھنے والے امریکی مسلمانوں کو بھی یہ بیان سن کر بہت افسوس ہوا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر خارجہ کو پاکستان کی مظلوم بیٹی کے بارے میں کوئی فکر نہیں۔ اگر اسحق ڈار صاحب امورِ خارجہ کی نزاکتوں کا حق ادا کرنے سے قاصر ہیں تو پھر انہیں کوئی سیاسی عہدہ دے دیا جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں