حق دو بلوچستان کو

امیر جماعت اسلامی بلوچستان اور وہاں کی صوبائی اسمبلی کے رکن جناب مولانا ہدایت الرحمن بلوچ ایک حیران کن شخصیت ہیں۔ وہ اس وقت جنوبی بلوچستان کی سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب شخصیت ہیں۔
سرداروں اور پسے ہوئے بلوچوں کی سرزمین بلوچستان میں ایک ماہی گیر کا تعلیم یافتہ بیٹا کیسے اپنے علاقے کے عوام‘ وہاں کے جوانوں‘ بوڑھوں اور ماؤں اور بہنوں کے دلوں کی دھڑکن بنا‘ یہ ایک دلچسپ داستان ہے‘ تاہم سردست تو ہم اس کی ایک دو جھلکیاں ہی آپ کو دکھائیں گے۔ تفصیلی بات مولانا ہدایت الرحمن کے لانگ مارچ کی ہو گی۔
گوادر اور مکران کے مقامی سیاستدانوں کے ساتھ مل کر مولانا ہدایت الرحمن نے عوامی تحریک کا 2021ء میں آغاز کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ دستوری‘ جمہوری اور پارلیمانی تحریک تمام تر قوم پرست جماعتوں کو پیچھے چھوڑ گئی۔ ''حق دو تحریک‘‘ کے آغاز میں مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ اپنے اور اپنے عوام کیلئے میں بھی شدتِ احساس رکھتا ہوں۔ یہ اللہ کا فضل اور جماعت اسلامی کی تعلیم و تربیت کا اعجاز ہے کہ میں آپ کے درمیان کھڑا ہوں وگرنہ میں بھی کہیں پہاڑوں پر موجود ہوتا۔ مولانا ہدایت الرحمن نے لاہور کے ایک دینی مدرسہ سے درسِ نظامی کی سندِ فضیلت حاصل کی ہے‘ جو ایم اے اسلامیات کے مساوی ہے۔ مولانا ہدایت الرحمن اپنے حقوق اور امن دونوں کے علمبردار ہیں۔ 2024ء کے انتخابات میں وہ گوادر کے علاقے سے جماعت اسلامی کی طرف سے نہیں حق دو تحریک کی طرف سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ اُن کی انتخابی مہم وہاں کے عوام نے چلائی۔ 2021ء سے حق دو تحریک کی ریلیوں اور جلسوں میں عوام کا جم غفیر ہوتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی بلوچستان سے ہماری پرانی یاد اللہ ہے۔ ہم گاہے گاہے اُن کی جرأت مندانہ اور جمہوری تحریک کا ان کالموں میں تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ وہ بلوچستان سے تو اسلام آباد لانگ مارچ کے جھنڈے لے کر چلے تھے مگر جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ لاہور میں محصور ہو کر رہ گئے۔ مجھے بڑا تجسس تھا کہ معلوم کروں یہ کیسے ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ خود منصورہ جاؤں‘ ایک نسبتاً جوان مجاہد سے شرفِ ملاقات حاصل کروں اور فون کے بجائے روبرو اُن سے پوچھوں کہ وہ اسلام آباد جاتے جاتے لاہور کیسے آ گئے۔
لاہور میں ایک طرف وفاقی اور صوبائی حکومت کے وزرا جماعت اسلامی کی قیادت سے مذاکرات کر رہے تھے‘ دوسری طرف منصورہ جانے کے راستے بند کر رکھے تھے اور وہاں پولیس کی بھاری نفری‘ آنسو گیس والی گاڑیاں اور نہ جانے کیا کیا لا کر منصورہ کا مرکزی گیٹ بھی آمد و رفت کیلئے بند کر دیا گیا تھا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے لاہور میں ایک بلوچ رہنما کا ایسا استقبال کیا گیا۔ جمعرات کے روز علی الصباح موبائل پر میرا مولانا ہدایت الرحمن بلوچ سے رابطہ ہوا۔ میں نے انہیں اپنے شہر لاہور میں خوش آمدید کہا۔ میرا پہلا سوال ہی یہ تھا کہ جناب! آپ اسلام آباد لانگ مارچ لے کر گوادر سے چلے تھے مگر منصورہ لاہور میں آ کر کیسے محصور ہو گئے؟ مولانا ہدایت الرحمن نے بتایا کہ لاہور ہمارے پروگرام میں موجود تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم 25جولائی کو گوادر سے چلے۔ ڈیرہ غازی خان ہمارا پہلا اور ملتان ہمارا دوسرا پڑاؤ تھا۔ ہم پنجاب میں جہاں جہاں گئے وہاں عوام نے ہمارا پُرجوش استقبال کیا۔ ملتان میں ایک جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمن نے انہیں بتایا کہ 500 بلوچ عوام کا نمائندہ وفد گاڑیوں میں ہمارے ساتھ ہے۔ ملتان سے ہم براستہ جی ٹی روڈ سفر کرتے ہوئے خانیوال‘ اوکاڑہ‘ ساہیوال میں رکے‘ جہاں عوام نے ہمارے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیے۔ مگر ہم بصد افسوس یہ عرض کررہے ہیں کہ حکومتِ پنجاب کی طرف سے جگہ جگہ ہمارے راستے میں روڑے اٹکائے گئے۔ حکومت کو عوامی جذبات کا عکس ہونا چاہیے مگر یہاں عوام کے برعکس حکومتِ پنجاب کا رویہ مایوس کن تھا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ یہاں حق دو بلوچی قافلے کو پہلے منصورہ میں روکا گیا‘ پھر بصد دقت شملہ پہاڑی کے مقام پر لاہور پریس کلب کے سامنے دھرنا دینے کی اجازت دی گئی۔ مولانا ہدایت الرحمن نے بتایا کہ ہم 29 جولائی کو منصورہ لاہور پہنچے۔ مسلسل دو روز تک ہم نے کئی بار اسلام آباد روانہ ہونے کیلئے منصورہ سے نکلنا چاہا مگر ہر بار ہمارا راستہ روکا گیا۔ حکومتِ پنجاب کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام آباد جتنا اہلِ پنجاب کا ہے اتنا ہی بلوچستان کے عوام کا ہے۔
مولانا ہدایت الرحمن نے اپنی لاہور موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ میں پنجاب کے وکلا کی بہت بڑی تعداد سے خطاب کیا اور انہیں اپنی پُرامن ''حق دو تحریک‘‘ کے مطالبات سے آگاہ کیا۔ جمعرات کے ہی روز امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے مولانا ہدایت الرحمن کے ساتھ لاہور پریس کلب کے باہر بلوچ مہمانوں اور پنجابی میزبانوں کے ایک بہت بڑے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے بڑی اہم بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ حق دو لانگ مارچ نے اس زہریلے پروپیگنڈا کو پاش پاش کر دیا کہ بلوچ پنجابیوں کے یا پنجابی بلوچوں کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنا ہو گا اور ان کے مطالبات پورے کرنا ہوں گے۔ اس موقع پر مولانا ہدایت الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا پہلا مطالبہ ہے کہ ہمیں ہمارے آئینی حقوق دیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے تمام فیصلے وہاں کے منتخب نمائندوں کو کرنے دیے جائیں۔ حق دو تحریک کو دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ بلوچستان میں آپریشن بند کیا جائے۔ چیک پوسٹوں پر عوام سے آبرو مندانہ سلوک کیا جائے۔ لاپتا افراد کی بازیابی یقینی بنائی جائے۔ سیاسی آزادیوں پر پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے اور ڈاکٹر ماہ رنگ‘ بیبرک بلوچ‘ شاہ جی اور دیگر سیاسی کارکنوں کو رہا کیا جائے۔ گوادر سے چمن تک کے بارڈر کو بند کرکے 30 لاکھ عوام کو بے روزگار کرنا بلوچ عوام کیلئے قابلِ قبول نہیں۔ جناب ہدایت الرحمن کی حق دو تحریک کا ایک نہایت اہم مطالبہ یہ ہے کہ بلوچستان کے وسائل گیس‘ ریکوڈک‘ ساحل اور گوادر کی دیگر زمینوں کی وفاق کی طرف سے الاٹمنٹ کے ذریعے لوٹ مار بند کی جائے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ بلوچستان کی شاہراہوں کو پُرامن بنایا جائے۔
پنجاب حکومت کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب اور نائب امیر جماعت اسلامی جناب لیاقت بلوچ کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد طے پایا کہ ''حق دو بلوچستان کو‘‘ کا قافلہ لاہور پریس کلب کے سامنے دھرنا دے گا جبکہ مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں آٹھ رکنی وفد وفاقی حکومت کی بلوچستان کمیٹی سے ملاقات کیلئے اسلام آباد جائے گا۔ بلوچ عوام نے ایک پُرامن جمہوری قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے تو وفاقی حکومت کو اسے ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھنا چاہیے۔ اسلام آباد کے صاحبانِ اقتدار جماعت اسلامی کی 75 سالہ تاریخ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اگر وائٹ ہاؤس واشنگٹن کے سامنے لاکھوں افراد کی ریلیاں اور جلوس نکل سکتے ہیں تو اسلام آباد میں پُرامن لوگوں کا راستہ کیوں بند کیا جا رہا ہے؟
کالم مکمل ہو چکا تو رات گئے ایک نئی پیشرفت سامنے آ گئی۔ وفاقی دارالحکومت میں حکومتی رہنماؤں کے ہمراہ جماعت اسلامی کے اراکین نے مشترکہ پریس کانفرنس میں لانگ مارچ کو لاہور ہی میں ختم کرنے کا اعلان کیا اور بتایا کہ بلوچستان کے عوام کو درپیش مسائل اور ان کے حل کیلئے ایک کمیٹی بنائی جا رہی ہے۔ حکومت نہایت سنجیدگی سے ''حق دو تحریک‘‘ کے نہایت مناسب‘ متوازن اور جمہوری مطالبات کو بنیاد بنا کر بلوچستان کی دیگر پُرامن جمہوری قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرے ۔ جب منتخب قوتیں عوام کو اُن کے حقوق دینا شروع کر دیں گی تو پھر استحصال پسند دہشت گردوں کا راستہ خود بخود بند ہو جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں