ہم سفر

یقین کیجیے ایسی دلچسپ اور متنوع خود نوشت میں نے اس سے پہلے نہیں پڑھی تھی۔ یہ کتاب نہیں طلسم ہوشربا ہے‘ ایک ایسا حیرت کدہ کہ جہاں قدم قدم پر حیران کن مگر سو فیصد سچے واقعات دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ رواں دواں دلّی کی مہذب ٹکسالی زبان میں مصنفہ کا حسنِ بیان کسی سحر سے کم نہیں۔ قصّہ گوئی کی کمال یہی ہوتا کہ سامع آنکھ جھپکتا ہے نہ تارِ نظر توڑتا ہے بس ہمہ تن گوش رہتا ہے۔ گویا: وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
یہ رومانی‘ ادبی‘ اور سماجی وسیاسی داستان ہے 'ہم سفر‘۔ پہلی بار 1995ء میں کراچی میں منظر عام پر آئی تب یہ مسافر بیرونِ ملک مقیم تھا۔ کتاب کا ساتواں ایڈیشن 2023ء میں شائع ہوا۔ تب تو میں وطنِ عزیز میں تھا مگر عجیب اتفاق کہ لاہور کے کتب خانوں میں یہ کتاب نظر نہ آئی۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے عدمِ دیرینہ میاں محمد خالد کا‘ جو پیشے کے اعتبار سے تو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں مگر علمی وادبی اور سیاسی وتاریخی کتب بینی کا زبردست ذوق رکھتے ہیں انہوں نے یہ کتاب عنایت کی۔
ابھی تک میں نے آپ کو یہ تو بتایا ہی نہیں کہ کتاب کی مصنفہ کون سی شخصیت ہے۔ یہ بتا کر آپ کو مزید حیران کر دوں گا کہ اس مصنفہ نے دلّی سے لے کر پیرس تک اور پھر یورپ‘ افریقہ اور ایشیا کے کئی ملکوں کی سیاحت کی مگر عمر بھر کوئی سفر نامہ لکھا اور نہ ہی کوئی مضمون۔ بلکہ کبھی کوئی ایک سطر تک برائے اشاعت نہیں لکھی۔ وہ گھر داری‘ اپنے شوہر کی خدمت گزاری اور اپنے بچوں کی بہترین تعلیم وتربیت کرتی رہیں۔ پھر وہ یکایک راتوں رات ایسی مصنفہ کیسے بن گئیں جن کی خود نوشت ''ہم سفر‘‘ کے ادبی مقام اور مرتبے پر علمی وادبی حلقوں میں تبصرے ہونے لگے۔ یہ سب کیسے ہو گیا اسے آپ مصنفہ کی زبانی سنئے جن کا نام حمیدہ اختر رائے پوری ہے۔ کتاب کا کوئی ایک نہیں‘ کئی موضوعات ہیں مگر مرکزی موضوع مشہور ومعروف ترقی پسند افسانہ نگار‘ نقاد‘ ماہر لسانیات اور مترجم اختر حسین رائے پوری ہیں۔ کوئی نئی زبان سیکھنا تو گویا اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ انہوں نے ایم اے تو علی گڑھ یونیورسٹی سے کیا تھا مگر محض دو تین ماہ میں انہوں نے فرنچ زبان سیکھ کر ساربون (Sorbonne) یونیورسٹی‘ فرانس سے کئی سال لگا کر ''ہنر کی سماجی تاریخ‘‘ پر ڈاکٹریٹ کی اور یوں وہ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری بن گئے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ترقی پسند شاعر اور ادیب ڈاکٹر اختر حسین کو ترقی پسند نہیں سمجھتے تھے کیونکہ موصوف محض افسانہ نگار نہ تھے‘ وہ محقق بھی تھے‘ ماہرِ تاریخ و لسانیات بھی تھے۔ انہوں نے سلیقے سے محنت کر کے زندگی گزاری تھی اور کئی برس تک یونیسکو میں ماہر تعلیم کی حیثیت سے دنیا کے کئی ملکوں میں خدمات سرانجام دیں اور اپنے لیے اور پاکستان کے لیے نیک نامی کمائی۔ کتاب کا منظر نامہ تقسیمِ ہند سے دو تین دہائیاں پہلے کے ہندوستان سے شروع ہو کر 1947ء اور پھر 1992ء کے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔
بات حمیدہ اختر کی ہو رہی تھی مگر ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کی طرف نکل گئی۔ اب ذرا حمیدہ اختر کی زبانی سنئے کہ وہ راتوں رات مصنفہ کیسے بن گئیں۔ لکھتی ہیں: نصف صدی سے کچھ زیادہ ہی وقت میں ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کی ہم سفر رہی۔ 2 جون 1992ء کو کراچی میں ایک ہفتے کی علالت کے بعد اپنی اس تاریک دنیا سے رشتہ توڑ کر بلند وبالا روشن مقام تک‘ اور میں سکتے کے عالم اپنے تخت کے ایک کونے میں بیٹھی دنیا وما فیھا سے بے خبر‘ اختر کی کرسی کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔ چند روز بعد جناب جمیل جالبی صاحب اپنے نہایت پیارے دوست اختر حسین کی بیگم صاحبہ کو پرسہ دینے آئے تو انہیں دیکھ کر حمیدہ کے آنسوؤں کا رکا ہوا طوفان بہہ نکلا۔جمیل جالبی صاحب نے اُن سے کہا کہ آپ کے ذہن میں اختر حسین کے ساتھ نصف صدی سے زیادہ کے واقعات کی جو فلم چل رہی ہے اسے قلم پکڑ کر لکھتی جائیں۔ حمیدہ اختر نے جالبی صاحب سے وعدہ تو کر لیا مگر جس خاتون نے 72 برس کی عمر تک ایک لفظ بھی نہ لکھا ہو وہ بھلا اچانک قلم پکڑ کر کیسے لکھنا شروع کر دے گی۔ پھر ایک دن ماضی یاد کرتے کرتے انہوں نے قلم اٹھایا اور اپنی اور اختر حسین کی رفاقت کے حوالے سے لکھنا شروع کر دیا۔ جمیل جالبی صاحب نے پہلے چند صفحے دیکھے تو ارتجالاً لکھا: آپ کی زبان سبحان اللہ۔ حمیدہ کی جب شادی ہوئی تو اُن کی عمر یہی کوئی پندرہ سولہ برس کی ہو گی اور تعلیم میٹرک‘ ایف اے ہو گی۔ انہوں نے اختر حسین کے ساتھ گزاری زندگی میں زبان پر قفل لگائے رکھا۔ اُن کا رعب حمیدہ پر طاری رہا۔ لکھتی ہیں ''اپنے کو کم تر اور انہیں اس قدر برتر گردانا کہ ہمیشہ بس سر اٹھا کر دیکھا کی‘‘۔
ہر طرح کے حالات میں حمیدہ اختر نے جس اعتماد اور شان سے اختر حسین کا ساتھ دیا وہ پڑھنے یا یوں کہیے کہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ''ہم سفر‘‘ کے صفحات میں مصنفہ نے اپنی یادوں کے چراغ جلائے ہیں اور نصف صدی کے روداد بیان کی ہے۔ اُن کی اس روداد میں کئی اور دنیاؤں کی سیر بھی شامل ہے۔ایک اعتبار سے یہ کتاب اہم شخصیات کا نگار خانہ ہے۔ قائداعظم‘ مہاتما گاندھی‘ پنڈت جواہر لال نہرو‘ سروجنی نائیڈو‘ خالدہ ادیب خانم‘ قاضی عبدالغفار‘ ن م راشد اور بعض دیگر مشاہیر سے حمیدہ اختر نے کبھی اپنے شوہر کے ساتھ اور اکثر اپنی ذاتی حیثیت میں ملاقاتیں کیں۔وہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کے منہ بولے بیٹے اختر حسین کی بیوی بن کر اُن کے گھر آتی ہیں تو سنجیدگی کے تہ در تہ پردے ہٹا کر ہماری ملاقات ایک ایسے مولوی صاحب سے کراتی ہیں جو خوش مزاجی‘ زندہ دلی اور لڑکپن جیسے لڑائی جھگڑوں میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ مولوی صاحب نے اختر حسین کی شب وروز محنت سے ترتیب پانے والی ڈکشنری میں سب کا شکریہ ادا کیا مگر اس کارنامے کے اصل ہیرو اختر حسین کا ایک لفظ میں بھی تذکرہ نہیں کیا۔ بعد ازاں حمیدہ کو مولوی صاحب نے اس کا سبب یہ بتایا کہ حیدر آباد میں اُن کے روکنے کے باوجود اختر حسین چلے گئے تھے اس لیے انہوں نے اسے یوں سزا دی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس حرکت سے انہوں نے اختر حسین کو نہیں‘ بابائے اردو مولوی عبدالحق کو سزا دی۔
اس کتاب میں ایک دلچسپ اور تاریخی واقعہ حمیدہ اختر کا وہ مکالمہ ہے جو مہاتما گاندھی اور اُن کے مابین گاندھی جی کے آشرم میں ہوا تھا۔ حمیدہ نے آشرم کا ماحول دیکھا تو گاندھی جی سے کہا ''آپ برا نہ مانیے‘ سچی بات یہ ہے کہ مجھے تو یہ سب تماشا لگا کہ لوگ جھاڑو دے رہے ہیں‘ پانی بھر کر لا رہے ہیں‘ گوبر اٹھا رہے ہیں۔ یہ سب لوگ اپنے گھروں میں واپس جا کر صاحب بہادر اور میم صاحب بن جاتے ہیں۔ آج صبح میں نے سروجنی جی کو جھاڑو دیتے دیکھا‘ یہ تو اپنے گھر میں خود پانی کا ایک گلاس بھی اٹھ کر نہیں پیتیں۔ گاندھی جی جو آشرم کے ایک خیمے کی چٹائی پر بیٹھے تھے‘ انہوں نے حمیدہ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے گجراتی لہجے میں کہا ''جب سارا ہندوستانی لوگ ایک ہی دھرتی ماں کا رہنے والا‘ پھر یہ ہندو مسلمان الگ الگ کیسا ہو سکتا ہے۔ مل جل کر کیوں نہیں رہنے سکتا؟ اب ذرا حمیدہ اختر کا جواب سنئے۔ انہوں نے کہا: میں خود آپ سے یہ بات پوچھنے کو تھی کہ اگر آپ یہ بات دل سے چاہتے ہیں تو پھر ایک مسلمان کسی ہندو سے شادی کر لے تو حرج ہی کیا ہے۔ آپ کی نظر میں جب ہندو مسلمان ایک ہیں تو پھر آپ کو سب سے بڑھ کر اعتراض کیوں ہو۔ بیچاری وجے لکشمی پنڈت (جواہر لال نہرو کی بہن) نے جب سیّد حسین صاحب سے شادی کر لی تو آپ ہی نے بہانے سے سیّد حسین صاحب کو ولایت بھیج کر لکشمی جی کو کئی ماہ نظر بند رکھا‘ جب تک اُن کے پھیرے نہ ڈلوا لیے۔
حمیدہ اختر حسین نے بڑی شخصیات کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے حوالے سے جو باتیں لکھی ہیں وہ اس لحاظ سے بالکل نئی ہیں کہ اس سے پہلے کسی کی زبانی سننے میں نہیں آئیں۔ کراچی سے شائع ہونے والی اس کتاب کے بارے میں مجھے معلوم نہیں کہ دستیاب ہے یا ایک بار پھر نایاب۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں