غریب نہیں ناکام ریاستیں

عالمی شہرت یافتہ 95 سالہ امریکی ماہرِ لسانیات‘ فلسفی‘ مدبر اور حق گو سیاسی ایکٹوسٹ گزشتہ ایک برس سے فالج کے حملے کے بعد صاحبِ فراش ہیں۔ ان کا علاج امریکہ اور ان کے سسرالی ملک برازیل میں ہو رہا ہے۔ حال ہی میں ان کی برازیلین بیگم نے نوم چومسکی کے لاکھوں مداحوں کو خبر دی ہے کہ وہ روبہ صحت ہیں اور جب وہ ٹیلی وژن پر غزہ پر ہوتی بمباری اور قحط سے دم توڑتے بچوں کو دیکھتے ہیں تو بول تو نہیں سکتے مگر غصے کی شدت سے اپنا بایاں بازو بلند کر کے اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔
1960ء کی دہائی سے نوم چومسکی کی سب سے بڑی پہچان ان کی حق گوئی ہے۔ انہوں نے ایک سو سے زائد کتابیں لکھی ہیں اور ہزاروں لیکچرز اور انٹرویوز دیے ہیں۔ وہ امریکی نظامِ معیشت وسیاست کے بہت بڑے ناقد سمجھے جاتے ہیں۔ بطورِ خاص وہ امریکہ کی خارجہ پالیسی پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔ پروفیسر چومسکی نے تیسری دنیا کی اصل محرومیوں کی حقائق کی روشنی میں نشاندہی کی ہے۔ اگرچہ حق گو فلاسفر ان دنوں بسترِ علالت پر ہیں تاہم ان کے لکھے ہوئے ہزاروں صفحات اور ان کی سینکڑوں تقاریر آج بھی جگمگاتے ہوئے ستاروں کی طرح دنیا کی رہنمائی کر رہی ہیں۔ 2006ء میں چومسکی کی کتاب ''Failed States‘‘ شائع ہوئی تھی۔ آج کل یہ کتاب ایک بار پھر منظرِ عام پر آئی ہے۔
نوم چومسکی قوموں کے امراض کے بہت بڑے نبض شناس ہیں۔ ان کی تشخیص باکمال ہوتی ہے۔ ایسی تشخیص کہ جس میں علاج بھی موجود ہوتا ہے۔ ساڑھے سات دہائیوں کے خراب وخستہ ملکی حالات کو سمجھنے کیلئے ہم نے ان کی کتاب ''ناکام ریاستیں‘‘ سے رجوع کیا تو ان کا ایک گراں قدر قول ہاتھ لگا جس میں ایک جہانِ معانی پنہاں ہے۔ چومسکی لکھتے ہیں ''دنیا میں غریب نہیں‘ ناکام ریاستیں ہوتی ہیں۔ یہ ناکام ریاستیں اپنے وسائل کو بے دردی سے خرچ کرتی ہیں۔ وسائل کی کمی نہیں ہوتی مگر انہیں ناقص منصوبہ بندی اور کرپشن سے برباد کر دیا جاتا ہے‘‘۔ پروفیسر نوم چومسکی کا ایک اور قول بھی ملاحظہ کیجئے تاکہ اپنی تباہ حالی سمجھنے میں مزید آسانی ہو سکے۔ ''لوگوں کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کے دل میں یہ خیال راسخ کر دو کہ وہ اپنی شومیٔ قسمت کے خود ذمہ دار ہیں اور اپنے آپ کو ان کا نجات دہندہ بنا کر پیش کرو‘‘۔لگتا ہے کہ جیسے نوم چومسکی نے ہماری ہی نبض پر ہاتھ رکھ کر ان امراض کی تشخیص کی ہے۔
پاکستان میں حالیہ سیلابوں سے ہونے والی بڑے پیمانے پر تباہی کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ بہت بڑا جانی نقصان بھی ہوا ہے اور ابھی تک ہو رہا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس سال موسمیاتی تبدیلیوں کی بنا پر مون سون بارشوں کی کثرت سے سیلابوں کی شدت میں اضافہ ہوا ہے مگر سیلاب تو قیامِ پاکستان کے فوری بعد یعنی 1950ء کی دہائی سے آ رہے ہیں۔ ہر دو چار سال کے بعد سیلاب بار بار آ رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ 1971ء سے لے کر 1977ء تک کا ہے۔ اس زمانے میں بھٹو صاحب کا یہ قول زبان زدِ خاص وعام تھا کہ جہاں جہاں سیلاب جائے گا وہاں وہاں میں جاؤں گا۔ تین برس قبل 2022ء میں ملکی تاریخ کا بہت بڑا سیلاب آیا تھا کہ جس پر ہم نے عالمی برادری سے بھی اچھی خاصی فنڈنگ حاصل کی تھی‘ مبینہ طور پر جس میں سے آدھی ناقص منصوبہ بندی اور آدھی کرپشن کی نذر ہو گئی۔
ان دنوں صدرِ پاکستان جناب آصف علی زرداری چین کے دورے پر ہیں۔ ہمارے مستقبل کے حکمران بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو زرداری بھی اُن کے ہمراہ ہیں۔ یہ صدارتی ٹیم چین کی محیر العقول ترقی کے کرشمے بچشمِ خود دیکھ رہی ہے۔ وہ برق رفتار گاڑیوں‘ دنیا پر برتری حاصل کرنے والے جنگی جہازوں‘ زیر زمین نہیں‘ پُلوں کے اوپر سے صحراؤں کو سیراب کرنے والی نہروں اور یونیورسٹیوں میں کی جانے والی تحقیقات وایجادات دیکھ رہے ہیں۔ چین کی کامیابی کا سبب اشتراکیت کا نظام نہیں کہ جس میں ہر شے ریاست کی ملکیت ہوتی ہے‘ حتیٰ کہ محنت کش بھی حکومت کی تحویل میں ہوتے ہیں۔ اس نظام سے چین نے رجوع کر لیا تھا اور فرد کو اس کی ملکیت کا ذاتی حق واپس دے دیا گیا تھا۔ اس کے بعد چین ترقی کی شاہراہ پر تیز رفتاری سے رواں دواں ہوا۔
چین کی ترقی کا اصل سبب وہی ہے جس کی طرف نوم چومسکی نے اشارہ کیا۔ وہاں ناقص نہیں‘ وسائل کی بہترین منصوبہ بندی کی گئی ہے اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا ہے۔ جناب آصف علی زرداری چینی منصوبہ سازوں سے ذرا معلوم تو کریں کہ ان کے صوبہ سندھ میں 50 فیصد سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے۔ناقابلِ رہائش ملکوں کی فہرست میں کراچی پہلے دو‘ چار شہروں میں شامل ہے۔ تقریباً دو کروڑ آبادی کا شہر اور پاکستان کا معاشی مرکز شدید نوعیت کی بدحالی اور بیڈ گورننس کا شکار کیوں ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس سوال کے جواب میں زرداری صاحب کے میزبان اور پاکستان کے مخلص ترین دوست چین کے اقتصادی ماہرین اور منصوبہ ساز انہیں وہی وجوہات بتائیں گے جن کی نشاندہی نوم چومسکی نے اپنی کتاب 'ناکام ریاستیں‘ میں کی ہے۔ ہمارے چینی بھائیوں کو جب یہ معلوم ہوگا کہ جناب زرداری سمیت ہمارے حکمرانوں کی اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک ذاتی دولت کے بڑے بڑے انبار ہیں تو ان کی سمجھ میں سب کچھ آ جائے گا کہ ہماری تباہ حالی کے حقیقی اسباب کیا ہیں۔
قومی دولت سے حکمرانوں کی ذاتی پروجیکشن کے اربوں کے اخراجات کرپشن پر مستزاد ہیں۔ اس کے علاوہ پروٹوکول کے اندرون وبیرونِ ملک شاہانہ انتظامات دیکھ کر کیا اپنے عوام کے خدمتگار یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ اس ملک کے حکمران ہیں جس کے 50 فیصد سے زائد لوگوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ حکمرانوں کے بعد ان کے خادموں یعنی عوام کے افسروں کا پروٹوکول بھی کچھ کم شاہانہ نہیں ہے۔ یہ افسران بھی زیادہ تر وقت حکمرانوں کے دوروں میں ''حسن کارکردگی‘‘ یعنی حکمرانوں کو پروٹوکول دکھانے میں مصروف رہتے ہیں۔ عوامی خدمت‘ جس کیلئے انہیں بھاری تنخواہیں اور بڑی بڑی سہولتیں ملتی ہیں‘ اس کیلئے تو ہمارے افسروں کے پاس بہت کم وقت ہوتا ہے۔
ہمارے حکمرانوں کو گرد وپیش سے سبق حاصل کر لینا چاہیے کہ یوں فقط پروٹوکول اور کنٹرول سے کام نہیں چلتا۔ لوگ بالخصوص نوجوان جب ایسے حالات دیکھتے ہیں تو انہیں مایوسی گھیر لیتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور عوام الناس کے رہن سہن میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور یہ فرق انہیں تبدیلی لانے پر اُکساتا ہے۔ اللہ ہمارے پیارے پاکستان کو ایسی پُرتشدد تبدیلی سے محفوظ رکھے‘ آمین!
البتہ حکمرانوں کو ادراک کر لینا چاہیے کہ آج کا نوجوان اپنی بربادی کا سبب خوب جانتا ہے۔ اسی لیے بار بار حکمرانوں کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ وہ عوام کو حقیقی حقِ حکمرانی دیں۔ پروفیسر نوم چومسکی کی تشخیص کے مطابق ہم ایک غریب نہیں 'ناکام‘ریاست ہیں۔ اسے کامیاب بنانے کیلئے ہمیں متحد ہو کر آئینِ پاکستان کی پاسداری اور کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ یہی بانیٔ پاکستان کی نصیحت بھی تھی اور وصیت بھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں