ڈنمارک کے سائیکل سوار حکمران

برادرِ مکرم جناب عرفان صدیقی نے گزشتہ تین کالموں میں ڈنمارک کے نظامِ انصاف کے کمالات اور وہاں کے پاکستانی نژاد جسٹس محمد احسن کے حالاتِ زندگی سے ہمیں آگاہ کیا۔ ڈینش عدل و انصاف کی کہانی اور وہاں میرٹ کی سربلندی کے بارے میں پڑھ کر دل بہت خوش ہوا۔ مگر ارتجالاً زباں پر غالب کا یہ مصرع آ گیا: یہ نہ تھی ہماری قسمت...
ان کالموں کا لب لباب یہ ہے کہ ڈنمارک میں قانون کی حکمرانی درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ وہاں کے ججز کا کوئی ظاہری کروفر نہیں‘ وہ سائیکل سوار ججز ہیں مگر کیا مجال کہ کوئی ان پر اثر انداز ہو سکے۔ عرفان صدیقی صاحب کے الفاظ میں ڈینش عدلیہ کی ورکنگ کا خلاصہ یہ ہے ''معلوم ہوا کہ ججوں کے انتخاب میں ڈنمارک کے بادشاہ‘ پارلیمنٹ اور حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں۔ سارا کام سپریم کورٹ خود کرتی ہے‘‘۔ گویا سپریم کورٹ خود کار بھی ہے اور خود مختار بھی۔ صدیقی صاحب ہی کے کالموں سے معلوم ہوا کہ ڈنمارک کے سائیکل سوار ججز میزانِ عدل تھام کر ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرتے ہیں تاکہ حق بہ حقدار رسید ہو سکے۔ یہ اسی نظامِ عدل کا اعجاز ہے کہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے مطابق ڈنمارک دنیا کے 142 ملکوں میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراوانی میں نمبر ون ہے‘ جبکہ پاکستان کا نمبر 129 ہے۔ اس سلسلے کے تیسرے کالم میں جناب عرفان صدیقی نے ایک دلچسپ تجویز بھی پیش کی ہے۔ ان کی تجویز یہ ہے کہ ڈنمارک کے جسٹس محمد احسن کو اسلام آباد تشریف لانے کی دعوت دی جائے اور معزز مہمان کیلئے پاکستان کے عدالتی نظام کے بارے میں ایک خصوصی بریفنگ کا اہتمام کیا جائے جس میں کچھ عالی مرتبت ریٹائرڈ جج صاحبان کو بھی مدعو کیا جائے تاکہ وہ قانون کی حکمرانی کے موضوع پر دانش و حکمت کے موتی بکھیریں۔ صدیقی صاحب نے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق ماضی قریب کے بعض ججوں کے نام لکھے ہیں جن سے وہ اختلاف رکھتے تھے۔ البتہ ہماری عاجزانہ تجویز یہ ہو گی کہ اس بریفنگ میں اگر صرف ریٹائرڈ جسٹس شوکت صدیقی کو مدعو کر لیا جائے تو یقینا وہ ماضی بعید‘ ماضی قریب اور زمانۂ حال کے عدالتی منظر نامے کی انتہائی دیانت دارانہ روداد بیان کر دیں گے۔ اس کے بعد مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں رہے گی۔
اس دوران میرے بہت سے قارئین نے مجھے توجہ دلائی کہ میں ڈنمارک کے طرزِ حکمرانی اور وہاں کے حکمرانوں کے اندازِ زندگانی کے بارے میں کچھ روشنی ڈالوں۔ میں خود بھی اس نتیجے پر پہنچا کہ عدلیہ کسی ملک کے مجموعی آئینی و سیاسی نظام کا حصہ ہوتی ہے۔ ججز کسی اور سیارے سے آتے ہیں اور نہ ہی کسی اور سیارے میں بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ میں ڈنمارک کے حیران کن سیاسی و سماجی طرزِ زندگی کے بارے میں بہت سے دوستوں‘ عزیزوں اور سفارت کاروں سے چشم دید واقعات سن چکا تھا۔ اس بارے میں مدتوں سے بہت کچھ پڑھتا چلا آ رہا ہوں۔ میں نے چند روز قبل کوپن ہیگن میں اپنی بھتیجی افشین پراچہ کو فون کیا کہ وہ ڈنمارک کے بارے میں وہ چشم دید واقعات دہرا دے جو ہم اس سے پہلے بھی بارہا سن چکے تھے۔ انہوں نے چند روز مرہ واقعات سنائے اور کہا کہ شام کو ان کے میاں‘ ڈاکٹر حسن آئیں گے تو وہ آپ کو فون کر لیں گے۔ کوپن ہیگن کے ممتاز سرجن شاکر صاحب کا تعلق تو راولپنڈی سے ہے مگر حسن وہیں ڈنمارک کا ہی جم پل ہے۔ حسن کو ڈینش زبان پر مکمل دسترس ہے۔ وہ ڈینش سیاست میں اچھی خاصی دلچسپی لیتا ہے۔ شام کو ڈاکٹر حسن نے تفصیلی فون کیا۔ اس دوران میں نے کئی ذرائع سے ڈنمارک کے حکمرانوں کے طرزِ زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کر لی تھیں۔ حسن کی گفتگو تو ایک چشم دید گواہی تھی۔ ڈنمارک کے وزیراعظم اور وزرا کا طرزِ زندگی لوئر مڈل کلاس ہوتا ہے۔ یہ ہماری تیسری دنیا بالخصوص پاکستانی حکمرانوں کے شاہانہ انداز کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ یہاں تو ایک وزیراعلیٰ کے پروٹوکول کی چکا چوند سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ ذرا دل تھام کر سنیے کہ ڈینش وزرا‘ وزیراعظم سمیت پارلیمنٹ سائیکل پر یا پیدل آتے ہیں۔ اگر کوئی دور سے آتا ہے تو وہ میٹرو یا ٹرین استعمال کرتا ہے۔ عام لوگوں کے ساتھ آتے جاتے وہ علیک سلیک کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی سکیورٹی نہیں ہوتی۔ ایک بار میں نے ٹیلی ویژن سکرین پر پاکستانی وزیراعظم کے ساتھ طرح طرح کی سکیورٹی اور دوسری گاڑیوں کو شمار کیا تو ان کی تعداد 34 تھی۔ وفاقی اور صوبائی وزیروں کی بڑی بڑی گاڑیوں کے ساتھ بھی کروفر کیلئے دو چار سکیورٹی کی گاڑیاں ہوتی ہیں۔
حسن نے کنفرم کیا کہ ڈینش وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کوپن ہیگن کے باہر میرین برگ کا ایک کنٹری ہاؤس ہے۔ وزیراعظم یہ گھر میٹنگز اور بیرونی مہمانوں کی خیر مقدمی دعوتوں وغیرہ کیلئے استعمال کرتا ہے۔ چند روز کیلئے گرمیوں میں وہ یہاں قیام بھی کرتا ہے۔ وزیراعظم کے پاس بالعموم عوامی علاقوں میں ایک فلیٹ یا ہاؤس عموماً کرائے پر ہوتا ہے۔ وہ اسی میں رہائش رکھتا ہے اور عام لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہتا ہے۔ وزیراعظم یا دیگر وزرا کے بچے عام پبلک سکولوں کالجوں میں پڑھتے ہیں۔ کوئی وزیراعظم یا زون صدر عوام کے پیسوں سے اپنی پروجیکشن نہیں کر سکتا۔
ہمارے ہاں کوئی بھی بڑا حکمران آبائی طور پر کسی عوامی علاقے کا رہائشی ہوتا ہے‘ لیکن جب اقتدار اور وسائل مزید بڑھتے ہیں تو پھر وہ عامۃ الناس سے دور‘ بہت دور کئی کئی ایکڑوں پر پھیلی ہوئی رہائش گاہوں میں سکونت اختیار کر لیتا ہے۔ وہاں وہ اپنے ووٹروں کی پہنچ سے بھی بہت باہر ہوتا ہے۔ جب الیکشن کا موقع آتا ہے تو پھر یہی حکمران اپنے عوامی آبائی حلقے میں دوچار روز چکر لگاتے ہیں اور کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم کی دارالحکومت میں باقاعدہ بہت بڑی رہائش گاہ ہوتی ہے جس کے تمام تر اخراجات عوام کے ٹیکسوں کی رقم سے ادا کیے جاتے ہیں۔
اب ذرا ڈینش طرزِ حکمرانی کی ایک جھلک دیکھ لیجیے۔ ڈنمارک میں بھی پارلیمانی نظام حکومت ہے جو صرف یک ایوانی پارلیمنٹ ہے۔ اس کے 179 ممبرز ہیں۔ البتہ ڈنمارک میں متناسب نمائندگی کا انتخابی نظام رائج ہے۔ ڈنمارک میں پہلے کوئی صوبے نہ تھے‘ 2007ء میں انتظامی ضرورتوں کے تحت ڈنمارک کو پانچ انتظامی زونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی 98 مقامی حکومتوں کا نظام بھی بروئے کار لایا گیا۔ زونز کے بھی باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ زون کے سربراہ کو ڈنمارک میں صدر کہا جاتا ہے جو منتخب ممبران میں سے اپنی کونسل بناتا ہے۔ زون کی زیادہ تر ذمہ داریاں صحت‘ تعلیم اور علاقائی ترقی سے متعلقہ ہوتی ہیں۔ سب سے زیادہ اختیارات مقامی حکومتوں کو حاصل ہیں۔ منتخب میونسپل کمیٹیاں یا مقامی حکومتیں اپنے اپنے شہر کی پراپرٹی‘ پرائمری سے لے کر ہائی سکولوں‘ پولیس‘ سڑکوں‘ ابتدائی عدالتوں اور ٹرانسپورٹ وغیرہ تک کے انتظامات کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ڈنمارک کی عدلیہ نمبر ون اس لیے ہے کہ وہاں سو فیصد قانون کی حکمرانی ہے۔ آئین کی سبھی ادارے‘ پارلیمنٹ‘ انتظامیہ اور عدلیہ مقدس کتاب کی طرح پیروی کرتے ہیں۔ وطن عزیز میں آئین کو موم کی ناک سمجھا جاتا ہے کوئی مقتدر جب چاہے‘ ناک کو جدھر چاہے ادھر موڑ سکتا ہے اور یہاں تک بھی کہہ سکتا ہے کہ آئین کاغذ کا ایک ٹکڑا ہی ہے اور کیا ہے؟
پاکستانی نژاد ڈینش جسٹس ضرور اپنے آبائی وطن تشریف لائیں۔ چشم ما روشن دل ماشاد۔ وسیع المطالعہ جسٹس محمد احسن یقینا پاکستان کے پہلے مثالی چیف جسٹس سر عبدالرشید سے لے کر 'یس باس‘ چیف جسٹس محمد منیر تک اور پھر علیٰ ہذا القیاس 26ویں آئینی ترمیم تک ہماری عدالتی کہانی کے تمام تر اتار چڑھاؤ سے بخوبی آگاہ ہوں گے۔ وطنِ عزیز آئیں اور ہمیں وہ اسمِ اعظم بتائیں جس سے پاکستانی عدالتیں بھی ڈنمارک جیسی ہو جائیں۔ غالب گمان یہ ہے کہ وہ اسمِ اعظم صرف اور صرف ایک ہوگا: جنٹلمین‘ آئین کی مکمل پاسداری!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں