پنجاب میری جند جان لیکن سب سے پہلے پاکستان

وزیراعلیٰ پنجاب‘ پنجاب کے سیلاب زدگان کی دلجوئی اور مدد کرنے میں بہت بھاگ دوڑ کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ تحفظات و اعتراضات ہیں۔ (ن)لیگ کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے اعتراضات سُن کر مریم نواز برہم ہیں۔ انہوں نے جو لب و لہجہ اختیار کیا وہ اُن کی اتحادی حکومت کے لیے تو یقینا کسی زلزلے سے کم نہیں ہو گا مگر یہ اندازِ گفتگو اہلِ پنجاب کے لیے بھی تعجب خیز ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے فیصل آباد میں 29 ستمبر کو گرین بس سروس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ ''پنجاب اور پنجابی کے خلاف بات آئی تو چھوڑوں گی نہیں۔ میرے پنجاب کا پانی‘ ہمارا پیسہ‘ نہریں بنانے پر آپ کو کیا تکلیف ہے؟ پنجاب کے عوام کو ان کا حق دینے کے لیے کسی کی اجازت ضروری نہیں‘‘۔ پاکستان جتنا پنجاب کا ہے اتنا ہی سندھ کا ہے‘ اتنا ہی خیبر پختونخوا‘ بلوچستان اور آزاد کشمیر کا ہے۔ پنجاب کی تاریخ ہی یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ بڑا بھائی بن کر سوچا ہے۔ ایسا بڑا بھائی جو فراخدلی سے چھوٹوں کی خاطر بہت بڑی قربانی دینے کو ہر دم آمادہ رہتا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر 1970ء کی دہائی تک کبھی پنجاب کے کسی باسی نے پنجابی بن کر سوچا اور نہ ہی کسی نے پنجابیت کی آواز اٹھائی۔ یہ آواز سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں پنجاب کے ایک دانشور وزیراعلیٰ محمد حنیف رامے نے اٹھائی تھی۔ انہوں نے پنجاب پرست بن کر ایک کتاب ''پنجاب کا مقدمہ‘‘ لکھی تھی۔ جناب حنیف رامے مارچ 1974ء سے لے کر جولائی 1975ء تک پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے۔ ہم جناب رامے کی علمی و ادبی خدمات اور فنونِ لطیفہ کے اعتبار سے ان کی اعلیٰ اہلیت کے تو معترف ہیں مگر سیاست میں وہ اپنا مستقل مقام نہ بنا سکے تھے۔ رامے صاحب نے پنجابیت کا ایک فیشن ایبل نعرہ تو بلند کیا مگر ان کے اس نعرے کو عوامی‘ سیاسی یا دانشورانہ سطح پر پذیرائی نہ مل سکی۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پنجاب میں ''پنجابیت‘‘ چلنے والا سکہ نہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے اس سے پہلے 1988ء کے صوبائی انتخابات کے موقع پر پنجاب کارڈ کھیلنے کی کوشش کی اور وقتی ضرورتوں کے تحت ''جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داغ‘‘ کا نعرہ لگایا۔ پنجاب بالخصوص لاہور کی دیواروں پر یہ نعرہ کثرت سے لکھوایا گیا۔ پھر جب قومی سطح پر نواز شریف صاحب کو مقبولیت حاصل ہوئی تو انہوں نے صرف پاکستان اور پاکستانیت کی بات کی مگر اب بھی صوبائیت کا یہ نعرہ لوگوں کو یاد ہے۔ اب جناب نواز شریف کی صاحبزادی نے پنجاب اور پنجابیت کا نعرہ ایک بار پھر بلند کیا ہے۔ ہم ابھی تک اس نعرے کے مقاصد کو سمجھ نہیں پائے۔ کیا مسلم لیگ (ن) نے اسی طرح اب صرف پنجاب میں مورچہ زن ہونے کا فیصلہ کیا ہے‘ جیسے پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ کو اپنا ''قلعہ‘‘ بنا رکھا ہے۔
میری سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئی کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ہی وہ طوطا ہے جس میں دونوں جماعتوں کی سیاسی بقا ہے۔ اتحاد کے ٹوٹتے ہی ان جماعتوں کا سیاسی وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ ہمیں ان دونوں اتحادی جماعتوں کی طرف سے دوطرفہ تیر اندازی کا خدشہ تو تھا مگر اتنا جلدی نہ تھا۔ اندازہ تھا کہ جب دورِ حکومت کا خاتمہ قریب ہو گا تو پھر یہ نوبت آئے گی۔ بہرحال پیپلز پارٹی نے 30 ستمبر اور تین اکتوبر کے قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے واک آؤٹ بھی کیا اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کی دھمکی بھی دے دی اور یہاں تک کہا ہے کہ ہم نے بالآخر انہی بینچوں پر آنا ہے۔ محترمہ مریم نواز نے فیصل آباد میں یہ بھی کہا کہ میرے پنجاب کا پانی‘ ہمارا پیسہ‘ نہریں بنانے پر آپ کو کیا تکلیف ہے۔ ہم صحرا کو ان نہروں سے سیراب کریں گے یہ ہمارا حق ہے۔ان کی بات تو بالکل درست ہے تاہم اگروہ دیگر صوبوں کے تحفظات سے بے نیاز ہیں تو پھر فوری طور پر یہ اعلان کریں کہ کالا باغ ڈیم بنانا ہمارا حق ہے۔ ہمارے پاس اس کی فنڈنگ بھی موجود ہے۔ ہم فلاں تاریخ کو اس کی تعمیر کا آغاز کریں گے۔ اس جرأتِ رندانہ پر انہیں اہلِ پنجاب کی طرف سے تائید ملے گی۔
ہمارا جم پل پنجاب کا ہے اور ہمارے آباؤ اجداد صدیوں سے بھیرہ کے تاریخی شہر میں آباد ہیں۔ اپنی زمین سے محبت عین فطری ہے مگر اوّلین ترجیح پاکستان ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلمانانِ ہند نے بنایا ہی اس لیے تھا کہ اس وطن میں کوئی علاقائی عصبیت ہو گی اور نہ کوئی لسانی تعصب۔ اسلامی نظریے کے مطابق یہاں آباد ہر مرد و زن واجب الاحترام پاکستانی ہو گا۔ تاریخی طور پر سب سے پہلے قراردادِ پاکستان سندھ اسمبلی نے منظور کی تھی۔
صوبے ہماری علاقائی شناخت ضرور ہیں مگر ہماری اصل پہچان اور شان پیارا پاکستان ہے۔ ہر علاقے میں بسنے والوں کے اپنے حقوق ہیں جو انہیں ملنے چاہئیں مگر سندھی‘ پنجابی اور مہاجر کہنا نظریہ پاکستان اور دستورِ پاکستان کی نفی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس موقع پر ایک دو اور باتوں کی طرف حکمرانوں کی توجہ مبذول کرانا ضروری ہے۔ ہر شخص جونہی مسند اقتدار سنبھالتا ہے تو اس کا لب و لہجہ بدل جاتا ہے۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ چھوڑوں گا نہیں‘ یا یہ ہماری ریڈ لائن ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہی باتیں کہنے کے لیے الفاظ کا بہتر انتخاب بھی کیا جا سکتا ہے۔ محترم شہباز شریف آج سندھ کے انہی لیڈروں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھتے ہیں کہ جن کے بارے میں ماضی میں بڑے شدید لب و لہجے میں تنقید کرتے رہے۔ دیواروں پر لکھے نعرے تو شاید دو چار برساتوں میں مٹ جاتے ہوں مگر دلوں میں جو زخم لگتے ہیں انہیں مندمل ہونے میں بڑا وقت درکار ہوتا ہے۔ حالیہ چند مہینوں میں پاکستانی قوم کو دنیا بھر میں اللہ نے بڑی پذیرائی عطا کی ہے۔ اس پر ہمارے حکمرانوں کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ شکرانے کے طور پر ساری قوم کو ایک صف میں کھڑا کرتے۔ تمام پارٹیوں کے ساتھ افہام و تفہیم پیدا کرتے‘ مگر ہو اس کے برعکس رہا ہے۔
محترمہ مریم نواز جمعرات کے روز بھی اپنی پنجابیت کا دفاع کرتے سنائی دیتی رہیں۔ محترمہ ہر پنجابی کے دل کی آواز بھی سنیں! پنجاب میری جند جان لیکن سب سے پہلے پاکستان!
پس نوشت: جمعرات کے روز اسلام آباد پریس کلب کے کیفے ٹیریا میں صحافیوں پر اسلام آباد پولیس نے انتہائی وحشیانہ انداز میں لاٹھیاں برسائیں‘ یہ انتہائی شرمناک ہے۔ پریس کلب کی تاریخ میں ایسا واقعہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہ اس لحاظ سے اور بھی تشویشناک ہے کہ صحافیوں پر بدترین تشدد صحافی وزیر داخلہ کے دورِ حکومت میں ہوا۔ حکومت علاقائی تعصبات بھلا کر آزاد جموں و کشمیر سمیت ہر صوبے کے مسائل سیاسی گفت و شنید سے حل کرے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں