دوستوں کا مشورہ‘ پاک افغان مذاکرات

بات تو یہاں سے چلی تھی کہ 1947ء میں جب پاکستان قائم ہوا تو ابتدا میں افغان حکومت نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا‘ لیکن اس وقت نور المشائخ فضل عمر المعروف مُلا شور بازار نے افغانستان کے دینی حلقوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کشمیر میں جہاد کا فتویٰ دیا۔ یہ سن کر افغان قبائل مظفر آباد کے راستے سرینگر تک جا پہنچے۔ ان بہادر قبائلیوں نے اس وقت کی غاصب بھارتی فوج کو تقریباً سرنگوں کر دیا تھا مگر آج بات یہاںتک آ پہنچی ہے کہ افغانستان کی طالبان عبوری حکومت اپنے محسن‘ پاکستان کے خلاف بھارتی حکومت کے ساتھ معاہدہ کر آئی ہے۔
پاکستان نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران دو بڑی طاقتوں کی افغانستان پر فوج کشی کے نتیجے میں 40 لاکھ افغان مہاجروں کو صرف پناہ ہی نہیں دی بلکہ انہیں سینے سے بھی لگایا۔ ان کیلئے نہ صرف درِ دل وا کیا بلکہ پاکستان کے اندر ان کے آنے جانے اور رزق تلاش کرنے پر کوئی قدغن بھی نہیں لگائی گئی۔ اُس وقت اسی بھارت نے بیرونی قوتوں کے سامنے سینہ سپر اور مزاحمت کرنے والے طالبان کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ آج اسی طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے دورۂ بھارت کے دوران افغانستان کی طرف سے پاکستانی سرحد کے اندر ہفتہ اور اتوار کی شب غیر متوقع حملہ کیا گیا۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز نے یہ حملہ پسپا کر دیا۔ اس جوابی کارروائی میں 200 طالبان اور دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ پاکستان کے 23 جوان شہید ہوئے۔ سبب کچھ بھی ہو مگر ہے یہ بڑا افسوسناک اور قابلِ تشویش۔
بھارتی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں افغان طالبان نے کئی پاکستانی چیک پوسٹوں پر حملے کیے‘ تاہم اس بار طالبان کو خلافِ توقع پاکستان کی طرف سے شدید ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان نے افغانستان کے اندر 21 چوکیوں کو تباہ کر دیا اور ان پر پاکستانی پرچم لہرا دیے۔ میں خود بھی پاکستان اور افغانستان کے مابین مذاکرات کی وکالت کرتا رہا ہوں۔ طالبان حکام سے مختلف مواقع پر مذاکرات کرنے والوں سے ہمیں یہ خبر ملی کہ طالبان پاکستان کے شکر گزار بھی ہیں اور ممنون بھی لیکن وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پاکستان کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ان کا مؤقف یہ رہا ہے کہ پاکستان انہیں اکاموڈیٹ کرے۔ یہ مطالبہ انتہائی غیرمناسب ہے۔ یہ حکومتِ پاکستان کی اپنی پالیسی اور مرضی ہے کہ وہ دہشت گردوں کے ساتھ جو سلوک مناسب سمجھے ‘ کرے گی۔
ایک طرف طالبان کی عبوری حکومت کہتی ہے کہ ہم نے اپنے ملک میں مکمل امن و امان کی خاطر ہر افغان باشندے سے چھوٹا بڑا ہر طرح کا اسلحہ واپس لے لیا ہے۔ صرف سکیورٹی فورسز اور پولیس وغیرہ سے وابستہ لوگوں کو سرکاری اسلحہ رکھنے کی اجازت ہے۔ مان لیا کہ یہ بہت اچھا قدم ہے مگر آپ نے پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ کالعدم ٹی ٹی پی کو بڑے بڑے کیمپ بنانے کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ یہاں چھوٹا کیا بڑے سے بڑا اسلحہ استعمال کرنے کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے۔ طالبان حکومت نے ابھی ماسکو کانفرنس میں اور اس سے پہلے ساری دنیا کو یقین دلایا تھا کہ افغان سرزمین پر کسی دہشت گرد تنظیم کو کام کرنے اور کیمپ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی مگر یہاں بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے ان دہشت گردوں کا مرکزی ٹارگٹ پاکستان کی سکیورٹی فورسز‘ تعلیمی ادارے‘ مساجد اور عوام الناس ہیں۔
میں نے پیر کے روز جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے سینئر رہنما پروفیسر ابراہیم صاحب سے رابطہ کیا۔ پروفیسر صاحب برسوں سے افغان مجاہدین اور طالبان کی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں۔ وہ پاک افغان کشیدگی پر بہت رنجیدہ خاطر تھے۔ میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا کہ آپ نے حالیہ مہینوں میں طالبان اور پاکستانی حکومت کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرانے اور ملکِ عزیز میں دہشت گردی کی وارداتوں کو ختم کرانے میں کیا کوئی کردار ادا کیا؟ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ وہ کچھ ہی عرصہ قبل ایک وفد کے ہمراہ کابل میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملے تھے۔ اس ملاقات میں ہم نے ان پر واضح کیا تھا کہ آپ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین کو کسی قسم کی دہشت گردی کے خلاف استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہ دیں اور انہوں نے اصولی طور پر ہمارے مؤقف سے اتفاق کیا تھا۔ پروفیسر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ چار سال قبل برسر اقتدار آ کر طالبان حکومت نے بھارتی سفارت خانہ اور جگہ جگہ پھیلے ہوئے ان کے قونصل خانے بند کر دیے تھے۔ انہوں نے دو پڑوسی بھائیوں کی سرحدی جھڑپوں پر اظہارِ تاسف کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری مسلمانوں پر آئے روز ظلم و ستم ڈھانے اور مساجد پر حملہ کرنے والے کسی اسلامی ریاست کے حقیقی دوست کب ہو سکتے ہیں؟ دونوں ممالک کو مزید اس نوعیت کی جھڑپوں سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔
اُدھر اتوار کے روز پشاور میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ افغان اچھی طرح جان لیں کہ بھارت کبھی اُن کا دوست نہیں بن سکتا۔ حافظ صاحب نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ افغان طالبان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ بیرونی قوتوں کے تسلط کے دوران قاضی حسین احمد اور جماعت اسلامی نے مجاہدین‘ طالبان اور افغان مہاجرین کی کیسے کیسے مدد کی تھی۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ ہم افغانستان سے بامقصد تعلقات کے خواہاں ہیں۔ وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم سفارت کاری اور مکالمہ چاہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل واشنگٹن میں ٹرمپ نے کابل کے قریب بگرام ایئر بیس کا کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر پاکستانی قائدین نے اس خواہش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور افغانستان میں بیرونی مداخلت کا آئیڈیا مسترد کر دیا تھا‘ لہٰذا یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے۔ جھڑپوں کی خبریں جب عالم اسلام میں ہمارے بھائیوں تک پہنچیں تو انہوں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ بالخصوص سعودی عرب‘ قطر‘ ایران اور متحدہ عرب امارات نے کہا کہ دوطرفہ معاملات باہمی مذاکرات سے حل ہونے چاہئیں۔ اسی طرح چین‘ یہاں تک کہ ملکِ عزیز کی بڑی بڑی دینی و سیاسی شخصیات بھی دونوں برادر ممالک کے درمیان مذاکرات کے حق میں ہیں۔ ہماری تجویز ہو گی کہ مفاہمت و مصالحت کا معاملہ سعودی عرب اور قطر کے سپرد کر دیا جائے۔
قطر تقریباً دو برس تک اسرائیل اور حماس کے درمیان قیام امن کیلئے مذاکرات کے ذریعے شب و روز محنت کرتا رہا ہے۔ قطر نے بیرونِ ملک مقیم حماس کے قائدین کی برسوں مہمان نوازی کی ‘بالآخر قطر کی یہ مذاکرات پالیسی رنگ لائی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے۔ اس کامیابی میں قطر کے علاوہ مصر‘ ترکیہ اور امریکہ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان کے علاوہ سعودی عرب اور پاکستان جیسے ممالک نے بھی غزہ میں قیام امن کیلئے ہر ممکن تعاون کیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہو چکا ہے اور پیر کے روز مصر کے شہر شرم الشیخ میں قیام امن کی دستاویز پر بطور ضامن دستخط کرنے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ خود آئے۔ انہوں نے اس موقع پر صرف غزہ میں ہی نہیں سارے مشرقِ وسطیٰ میں امن کی نوید سنائی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گریٹر اسرائیل کا نعرہ ہمیشہ کیلئے دم توڑ گیا ہے۔ دنیا بھر میں مذاکرات پالیسی کامیاب ہو رہی ہے۔ پاکستانی حکام ملک کے اندر بھی یہی پالیسی اپنائیں۔ معاملہ سیاسی جماعت کا ہو یا کسی مذہبی جماعت کا‘ اسے طاقت سے نہیں مذاکرات سے حل کیا جائے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پاک افغان کشیدگی میں کمی کیلئے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے‘ حکومت کو ان کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں