پہلے ہی بہت دیر ہو چکی!

دہشت گردی کے خلاف بارہ سال برسرپیکار رہنے کے بعد بھی آج ہم اسی شش و پنج میں مبتلا ہیںجو روز اول سے ہمارے ساتھ ہے۔۔۔ یہ جنگ ہماری ہے یا نہیں ، مذاکرات واحد حل ہیں یا اس کے لیے کارروائی ضروری ہے ، دھماکے کراتا کون ہے ، وہ جن سے ہم مذاکرات کرنے چلے ہیں یا وہ جن کا نام ہم مفت میں ہی بدنام کرتے پھرتے ہیں؟
یقین مانیے ، اتنی کنفیوزڈ قوم میں نے نہیں دیکھی۔ اختلاف رائے تو ہر قوم میں ہوتا ہے مگر اس میں ایک طویل جنگ لڑنے کے باوجود نفسا نفسی کی ایسی کیفیت ہے کہ خدا کی پناہ ! لگتا ہی نہیں کہ ہم ایک قوم ہیں ، اتنا نفاق کہ جوناتھن سوفٹ کی'' گولیورز ٹریولز‘‘ یاد آجائے جس میںجنگیں اس بات پر ہوتی تھیں کہ انڈا چھوٹی طرف سے توڑا جائے یا بڑی طرف سے۔غریبوں کا کیا پوچھیے گا، یہ تو اشرافیہ کا حال ہے، مگر اس نفاق کا نقصان بہرکیف ہوتا غریب ہی کو ہے۔ چلیے تو پھر غریب ہی کو موضوع بناتے ہیں۔ بات فقط اتنی سی ہے کہ ریاست چاہے مذاکرات کرے یا جنگ لیکن عوام جو دہشت گردی کے ہاتھوں پس گئے ہیں،اس کے غموں کا کچھ تو مداوا کرے۔
جب پولیو ٹیموں پر حملے ہونے لگے تو یہ خبر سامنے آئی کہ ایک پولیو ورکرکو یومیہ صرف ڈھائی سو روپے ملتے ہیں۔ ذراسوچیے کہ جان کو خطرے میں ڈالنے کا توکوئی معاوضہ ہو ہی نہیں سکتا مگر بے تحاشا مہنگائی کے اس دور میں زندہ رہنے کے لیے اتنی کم اُجرت پر کام کرنا بھی ان کے لیے عذاب بن گیا ہے ۔صرف یہ ہی نہیں ، یہ خبر بھی آپ کی نظر سے گزری ہوگی کہ پشاور میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کے عملے کو اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کے عوض صرف پچاس روپے الائونس ملتا ہے ۔ یہ تو بھلا ہومیڈیا کا کہ یہ خبر شائع اور نشر ہونے کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو ان کی دادرسی کا خیال آ گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ جنگ تو بارہ سال سے جاری ہے‘ کس کا کتنا نقصان ہوچکا ،اس کی بازپرس کون کرے گا؟
جس ریاست کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے شہریوں کی تعداد اٹھارہ کروڑ ہے یا بیس، اس سے اس بات کی امید رکھنا کہ وہ دہشت گردی سے مارے جانے والوں کی تعداد آپ کو بتا دے ، نری حماقت ہوگی۔ مگر اس نا اہلی کے ادراک سے مرنے والوں کے لواحقین کی صعوبتیں کم تو نہیں ہوجاتیں ۔ ذرا سوچیے کہ گزشتہ بارہ برسوں کے دوران کتنے گھروں سے میتیںاٹھیں، کتنی خواتین بیوہ ہوئیں اور کتنے بچے یتیم ہوئے؟ ان کے سر پرکون ہاتھ رکھتا ہوگا ، اس گھر کی کفالت کون کرتا ہوگا جس کا واحد کمانے والا چلا گیا؟ پھر ان کا بھی سوچیے جو تلاش معاش کے لیے گھر سے باہر گئے اور معذور ہوکر واپس آئے۔ ان کے زخموں پر مرہم کون رکھتا ہوگا؟ اگر آپ ان ہزاروں لاکھوں انسانوں کی سسکیاں سن سکتے ہیں تو ریاست کو یہ سنائی کیوں نہیں دیتیں؟
جہاں گھر گھر میں ماتم ہو ، وہاں کون سوچتا ہوگا کہ بم دھماکے میں معذور ہونے والے فردکو مصنوعی اعضاء کتنے پیسوں میں لگیں گے؟ اور اگرنہ لگائے گئے تو ان کی زندگی کس لاچاری میں بسر ہوگی؟ ایک طرف ماتم، دوسری طرف سناٹا۔ یہ نظام چلے گا تو کیونکر! اور یاد رکھیے کہ بڑوں کو تو پھر بھی چار دوست مدد دینے کے لیے پہنچ جاتے ہوںگے لیکن یہ جوچھوٹے چھوٹے معصوم بچے دہشت گردی کے واقعات میں اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنے اعضاء بھی کھو بیٹھتے ہیں ، ان کا کیا بنتا ہوگا؟ صحیح اور غلط کا فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دیجیے مگر ان ننھی جانوں کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ تو انہیں فراہم کیجیے !
جن ممالک نے طویل جنگیں لڑی ہیں، جن میں دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے ممالک بھی شامل ہیں،ان میں پوری قوم مل کر اپنے ہیروزاور اس طرح کے مظلوموںکے لیے ایسا نظام بناتی ہے جس سے انہیں جسمانی یا ذہنی طور پر کسی محرومی کا احساس نہیں ہوتا۔ایک ہم ہیں کہ پرائیویٹ یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر مبنی کوئی ایسا ادارہ تشکیل دینے کا سوچتے بھی نہیں ‘ جو دہشت گردی کے شکارافراد کے علاج اورکفالت کے لیے کوئی مربوط پروگرام بنائے ۔سوچیے ، اس جنگ کے دوران کتنے ڈالر اس ملک میں آئے اور چلے گئے۔ بہت سوںنے پیسے بنائے مگر حق دارکواس کا حق نہیں مل سکا۔
اب مذاکرات کی بات چلی ہے تو فائر بندی کی بات بھی سننے کو ملتی ہے۔ جنگوں میں فائر بندی کا مقصد زخمیوں کی دادرسی ، تھکن سے چور سپاہ کے آرام اور دوبارہ صف بندیوں کے لیے ہوتی ہے ۔اگر بات چیت آگے چلتی ہے اور باقاعدہ فائربندی کا اعلان ہوتا ہے توکیا یہ ممکن ہے کہ ہم امن کے چند دنوں میں بارہ برس کے دوران زخمی ہوجانے والوں کی ضروریات کا کچھ بندوبست کرلیں؟ یوں تو ہمیں جذبہ خدمت خلق سے بھرپور قوم سمجھاجاتا ہے، ہماری ویلفیئر کی تنظیمیں کافی مقبول ہیں ،تو پھرہمارے گھروں میںاندھیرا کیوں ہو۔ خدا کی راہ میں خرچ کیجیے ،دنیا اور آخر ت دونوں ہی میں اس کا فائدہ ہے۔
اگر فائر بندی ہوتی ہے تو ریاست نے جو کام بارہ برس میں نہیں کیا اس پر کچھ محنت کر لی جائے ۔کیا یہ بات عجیب نہیں کہ ایک چھیاسٹھ سالہ مملکت جس نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے اس میں ابھی تک قومی سلامتی پالیسی موجود ہے نہ دہشت گردی کے خلاف کوئی پالیسی۔ قوانین بھی ایسے جن کے غلط استعمال سے مجرم بار بار چھوٹ جائیں۔ انٹیلی جنس شیئرنگ کا نظام بھی اتنا نا پختہ ہو کہ دائیں ہاتھ کومعلوم ہی نہ ہو سکے کہ بائیں ہاتھ نے کیا کیا۔
نئی سکیورٹی پالیسی کے ڈرافٹ کے بارے میں ہم آئے روزوزیرداخلہ سے کچھ نہ کچھ سنتے رہتے ہیں مگر یہ پالیسی سامنے کب آئے گی وہ بتانا پسند نہیں کرتے۔کچھ باتیں بہت اہم ہیں ، مثلاًنیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی کا قیام اور فعالیت۔ اب یہ ادارہ وزیر داخلہ کو رپورٹ کرے گا تو دفاعی اداروں کی ان پٹ(In put) کہاں سے آئے گی؟ داخلی اور خارجی خفیہ اداروں میں بہت فرق ہوتا ہے،کیا بہتر نہ ہوتا کہ اس ادارے کا سربراہ وزیراعظم کو براہ راست جوابدہ ہوتا؟ خیران باتوں پر جو بھی فیصلہ ہو اس پر عمل ہونا چاہیے کیونکہ پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے، مزیددیر نہیں ہونی چاہئے۔ امن مذاکرات کامیاب ہوں یا ناکام‘ ریاست کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اصلاح احوال کر لے۔اگر امن آبھی جائے تو ہمارے دشمن بھی کوئی کم تو نہیں ہیں۔ اب حکومت کویہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ریاست کو اسی طرح مجبور حالت میں چلنے دینا چاہتی ہے یا بہتری کی کوئی تدبیرکرتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں