میڈیا کی طاقت اور ذمہ داریاں

دیومالائی کہانیوں میں ہیرو اکثر اپنی مافوق الفطرت صلاحیتوںکے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے اور کم سنی میں ان قوتوں کا ادراک نہ رکھتے ہوئے بھی ان کا استعمال کر بیٹھتا ہے۔ آپ نے ہرکولیس اور اژدہے کا قصہ سن رکھا ہوگا۔ اسی سے مغربی فلم انڈسٹری میں بھی سپر مین جیسے قصوں کو فروغ ملا اور ان کہانیوں میں بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اب ان صلاحیتوں کا استعمال اچھاہو یا برا‘ ان سے لاعلم رہناہرگز سود مند نہیں ۔
پاکستان کی دیومالا میں بھی ایک ایسے ہی ہیرو کی پیدائش ہو چکی ہے۔ یہ ہیرو بھی کم سنی میں ہی طاقتوں کا استعمال با ر بار کرتا ہے، مگر بدقسمتی سے نہ تو اسے اپنے زور بازو کا اندازہ ہوسکا اور نہ ہی یہ کہ طاقت اپنے ساتھ جو ذمہ داریاں لاتی ہے اس سے کیونکر نبردآزما ہوا جائے۔جی ہاں ، میڈیا ہی کی بات ہو رہی ہے۔
یوں تو پاکستان کا میڈیا یوم آزادی سے ہی کافی فعال رہا ہے مگر یہ سلسلہ ہرچوبیس گھنٹوں بعد چھپنے والے اخبارات پر محیط تھااور اسی وجہ سے یہ ایک محدود طاقت تھی۔پھر بھی صحافیوں نے آمریت کا بڑی جواں مردی سے مقابلہ کیا۔ آمر کوئی خبر رکوا دیتا تو اخبارات احتجاجاً اس خبر کی جگہ خالی چھوڑ دیتے، کوڑے بھی کھاتے مگر اپنے کام سے انصاف کرتے۔
پھر ایک علیحدہ قسم کے میڈیا کی داغ بیل پڑنے لگی۔ الیکٹرانک میڈیا پر جیسے جیسے ریاست اور حکومتوں کی گرفت کمزور ہوئی تو سمجھیے بھونچال ہی آگیا۔ اتنے چینل کھل گئے ہیں کہ ان کا شمار بھی مشکل ہے۔ مگر جہاں میڈیا کے اس تیزی سے پھیلنے سے میڈیا کی نوکریوں میں اضافہ ہوا‘ وہیں تربیت یافتہ افرادی قوت کا بھی خلاء پیدا ہوگیا۔ اب تربیت کے لیے کون رکتا ہے‘ جو ہاتھ پڑا اس کو شامل کرلیا۔ گو کہ کچھ چینلز نے کچھ نہ کچھ تربیت کا اہتمام کیا مگر زیادہ تر ا سکرینوں پر غلبہ اناڑیوں کا ہی ہونے لگا۔ اس نفسا نفسی کے عالم میں فیصلہ سازی سرکتے سرکتے ان کے ہاتھ آگئی جن کا اصل کام یہ تھاکہ ڈبہ بک جائے، چاہے اس کے اندر کچھ بھی ہو۔ یہ نہیں کہ ان دوستوں نے اس کام سے انصاف نہ کیا۔ کچھ نے بخوبی کیا مگر صحافت کا تجربہ جو اپنے ساتھ ایک گہرائی لاتا ہے وہ ٹیلی پرامٹر (Teleprompter) سے کسی اور کا لکھا تبصرہ پڑھنے والے دوستوں کے کام میں اکثر نظر نہیں آتا۔ میں اگر آپ کے لیے اسکرپٹ لکھوں گا اور نہ تو اسکرین پرخود نظر آئوں گا اور نہ ہی مجھے کوئی کریڈٹ ملے گا تو میں بھی کتنی ذمہ داری نبھائوں گا۔ ممکن ہے اپنے نظریات کی ہی دکان کھول کر بیٹھ جائوں۔مگر ہم میں سے کسی کو ادراک ہو یا نہ ہو ہماری باتیں بہت غور سے سنی جاتی ہیں اور سب خاص و عام ان باتوں کا گہرا اثر لیتے ہیں۔
مشہور امریکی مزاحیہ سیریز نیوز ریڈیو میں بھی کچھ ایسا ہی دکھایا گیا ہے۔ایک قسط میں ایک مبصر ایک فرضی نام لے کر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر تا ہے۔ اب وہ تو اس نام کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کرتا ہے مگر شام کو اس کو خبر ہوتی ہے کہ ایک جذباتی ہجوم نے اسی نام کے ایک شخص کو بُری طرح پیٹ ڈالا ہے۔پھر وہ اپنی اگلی براڈکاسٹ میں یہ وضاحت کرتا ہے کہ اس کا اشارہ کسی ایک فرد کی طرف نہیں تھا بلکہ ایک ملک کی امریکہ میں بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں تھا۔ اگلے دن پھر اسے پتہ چلتا ہے کہ اس ملک کے سفیر کے ساتھ یہی واقعہ ہوا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس فرضی کہانی کو بیان کرنے کا اسلوب اور مقصد تو لطفِ طبع ہی ہے مگر میڈیا کی جو طاقت دکھائی گئی ہے وہ حقیقت کے قریب تر ہے۔
ان دنوں تھر میں قحط سا لی کی جاری کوریج کا اثر دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر میڈیا اپنی ذمہ داری کو سمجھے تو وہ بالعموم معاشرے اور بالخصوص حکومتوں کے لئے ضمیر کا کردار ادا کرسکتا ہے۔مگر یہاں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے۔ جس طرح ہمارا معاشرہ مختلف نظریات کی بنیاد پر گروہوں اور طبقوں میں تقسیم در تقسیم ہوتا چلا جا رہا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ صحافی پر اس کا اثر نہ ہو؟ اب ظاہر ہے کہ اختلاف رائے تو جمہوری تنوع کا باعث بنتا ہے اور اسی میں اس کا حسن ہے، مگر مسئلہ تب ہوتا ہے جب ہم اپنے نظریات کے لئے اپنے فرائض منصبی کو پس پشت ڈالنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔غور کیجیے تو ہماری ذمہ داریاں صاف ظاہر ہیں۔ ہماری پہلی وفاداری سچ کے ساتھ ہونی چاہیے، دوسری انسانی جان کے تقدس کے ساتھ اور تیسری اس ریاست کے ساتھ جو ہماری پالنہار ہے۔سچ میں اپنی پسند کے زاویوں کو تلاش کرنا، دیگر زاویوں کو یکسر نظر انداز کر دینا اور باتوں کے جال کو کچھ اس طرح بُن لینا کہ کام سے طرفداری کی بو آئے‘ یہ کوئی اچھا کام نہیں۔مگر ہمارے ہاں تو سیاسی تعصبات کبھی کبھار اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ ہمارے کئی ساتھی بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے ہی منسلک ہو جاتے ہیں۔ خیر اس طرح کی مثالیں دوسرے ملکوں میں بھی مل ہی جاتی ہیں۔ تو پھر بس اتنی سی درخواست ہے کہ اوپر دی گئی تین وفاداریوں کواور جمہوریت میں اعتقاد کو ہی اساس بنالیں تو بھی یہ کافی ہوگا۔ یہ اتنا بڑا اور مشکل ایجنڈا نہیں۔ ممکن ہے کچھ دوست جمہوریت کے نام سے ہی بدکنے لگیںتو ان سے درخواست ہے کہ مطالعہ کو شعار بنالیں اور خود دیکھیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ تر نے جمہوریت کی ہی بنیاد پر ترقی کی ہے۔
میں پھر کہوں گا کہ ہمارا ملک فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکا ہے، اس سے آگے ترقی کا وہ زینہ ہے جو ہمیں ترقی کی نئی بلندیوں تک لے جاسکتا ہے۔ ایسے میں سیاستدان، ریاست اور اس کے ذیلی ادارے جو بھی کریں ، ہمیں ایک ایسی قوت کی ضرورت ہے جو معاشرے کے ضمیر کا کردار ادا کرسکے۔ایسے میں میڈیا کی اٹھان بہت اہم رجحان ہے۔ اگر ہم اپنی ذمہ داری کا ادراک کرلیں تو اس ذمہ داری کو بخوبی ادا کرسکتے ہیں۔ اس قوم نے بہت غم جھیلے ہیں۔ کاش ہم ان غموں میں کمی کا باعث بن سکیں۔بس ہمیں اپنی قابلیت میں کچھ اضافہ کرنا ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں