فی کس آسودگی اور قومی خواب

سر جھکے ہوئے، چہرے لٹکے ہوئے، اداسی باتوں سے عیاں، گزشتہ دس پندرہ سال میں ،میںنے تو یہی حال دیکھا اس ملک کی رعایا کا۔ جو لوگ دہشت گردی سے بچ گئے ،انہیں مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور بھوک نے مار ڈالا۔ موت بھی دو قسم کی ہوتی ہے۔ مادی اورہیجانی۔ جہاں جسم نہیں مرتے وہاں دل مرجاتے ہیں۔ ایسے میں میڈیا اور سیاستدانوں کو وقت ہی کب مل سکا کہ وہ اس ہیجانی انتشار پر ہی کچھ توجہ دیتے اور عوام کی ہمت بندھاتے۔ لیکن ، آج جب لگتا ہے کہ شاید کسی نہ کسی طرح امن قائم ہو جائے اور زندگی کچھ نارمل ہو جائے تو امید ہے کہ دہشت گردی کے ہاتھوں ٹوٹے پھوٹے اور غربت کے ہاتھوں تنگ عوام کو بھی کوئی توجہ مل جائے۔ 
مگر اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کوئی پیمانہ بھی تو ہونا چاہئے۔ پہلے یہ تو پتہ ہو کہ کمزوریاں ہیں کیا ۔ آپ کو یہ جان کرشاید حیرت ہو کہ ایسا ایک پیمانہ موجود ہے جس سے کسی ملک کی مجموعی پیدا وار کی طرح اس کی مجموعی خوشی اور آسودگی کو بھی پرکھا جا سکتا ہے۔ 1972ء میں بھوٹان کے اس وقت کے بادشاہ جگمے سنگے وانگچک نے مجموعی قومی خوشی"gross national happiness" (GNH) کی اصطلاح پہلی دفعہ استعمال کی۔ عام طور پر بادشاہ لوگ ایسی اصطلاحات استعمال کر کے بھول جاتے ہیں مگر یہ صاحب نہیں بھولے۔ انہوں نے اسی نام سے ایک انڈیکس ترتیب دیا اور پھر ایک کمیشن بھی بنا دیا جو ملک میں عوامی آسودگی پر کام کرنے کے لئے مامور ہے۔
اب ہوتا یہ ہے کہ جب ہم مادیت سے تھوڑا ہٹنے کی کوشش کریں اور ذہنی آسودگی اور سچی خوشی کی بات کریں تو مذہب و روحانیت پر ہی تکیہ کیا جاتا ہے کہ حقیقی خوشی تو وہیں میسر ہے۔ظاہر ہے کہ یہ حل بہت سوں کوآسانیاں دیتا ہے اور دینی بھی چاہئیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ریاست مذہبی ایجنڈا پر چل تو سکتی ہے مگر طاقت ہی کے استعمال سے، اور ہمارے دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ سو،بعض اوقات ایسی کوشش میں لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ 
سابق بھوٹانی شاہ کے بنائے ہوئے اس انڈیکس کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے لئے اجزاء مادی دنیا سے ہی لیے گئے ہیں مگر کچھ ایسے کہ ان سے خوشی، امن اور سکون کی راہ استوار ہو سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اجزاء وہ ہیں جن کو حکومتی پالیسیوں اور سماجی تحاریک میں بخوبی استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس سلسلے میں سات اہم جز وہیں،جو یہ ہیں ۔معاشی صحت ، ماحولیاتی صحت ، جسمانی صحت ،ذہنی صحت، پیشہ ورانہ صحت ،سماجی صحت،اورسیاسی صحت۔ ان تمام اجزاء کو سروے کے ذریعے پرکھا جا سکتا ہے۔ 
عام انڈیکسز سے اسے صرف اس طرح مختلف بنایا گیا ہے کہ شماریات کی بنیاد سطحی نہیں رکھی گئی۔ مثلاً معاشی صحت کو جانچنے کے لئے صرف فی کس آمدنی ہی نہیں ، اشیاء کی قیمتوں اور قرضہ جات کے تناسب کو بھی سامنے رکھا گیا ہے۔ ذہنی صحت کے لئے ڈپریشن کم کرنے والی ادویات کے استعمال اور ذہنی بیماریوں کی شرح پر توجہ دی گئی ہے۔پیشہ ورانہ صحت کے مطالعہ کے لئے بیروزگاری ، نوکریوں کی تبدیلی، معقول اُجرت اور قانونی چارہ جوئی پر خاص زور دیا جاتا ہے اور سماجی معاملات کو پرکھنے کے لئے تو طلاق سے جرائم تک اور خاندانی تصادم سے قانونی ٹکرائو تک ہر چیز کواہمیت دی جاتی ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ ایسے مطالعہ کے لیے کون سے آسمان کے تارے توڑ کر لانے پڑتے ہیں؟ ہماری ریاست بھی یہ کام کرسکتی ہے۔
مگر یہاں تو مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ہمیں یہی نہیں پتہ کہ کل آبادی کتنی ہے۔ گزشتہ دورِحکومت میں میرا مشاہدہ تھا کہ وزیر اعظم صاحب سے ملنے جاتے تو وہ اٹھارہ کروڑ عوام کی بات کرتے، جب کہ صدر صاحب بیس کروڑ عوام کی بات کرتے، یوں دو کروڑ عوام وزیراعظم ہائوس اور صدارتی محل کے درمیان ہی کہیں گم ہوجاتے۔ اب سوچیے کہ اس ریاست کے بارے میں جس کو یہی علم نہیں کہ دوکروڑ لوگ، جو کل آبادی کا دس فیصد بنے ،وجود بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟مردم شماری جب دو دہائیوں سے نہ ہوئی ہوتو حالات تو ایسے ہی ہوں گے ناں۔
خیر یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہماری ریاست اس سلسلے میں کوئی پیش رفت کرے نہ کرے ،ایک عالمی انڈیکس موجود ہے جو ان تمام چیزوں کا مطالعہ کرتا ہے۔ 2012 ء میں پاکستان پچاسیویں نمبر پر تھا،2013ء میں ترقی پاکر اکاسیویں پر آگیا۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ بدلا جاسکتا ہے۔ اگر ریاست کے پاس شماریاتی ڈیٹا موجود ہو تو ایسی پالیسیاں با آسانی بنائی جاسکتی ہیں جن سے عوام زیادہ آسودگی کی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
شماریاتی جمع خرچ اور تخمینے تو چلتے رہیں گے ،اصل مشکل ان اجتماعی اہداف کی ہے جن پر کوئی غور ہی نہیں کرتا۔ وہ جو مشتاق یوسفی نے کبھی کہا تھا کہ ایشین ڈرامے کا اصل ولن ماضی ہے ،وہ بات ہم پر صادق آتی ہے۔
ترقی کے لئے ہر قوم کو ایک اجتماعی خواب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب یہ تو واضح ہے کہ اس دور میں ،کسی مملکت کو وجود میں آنے کے لئے کسی نظریے یا مفروضے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر اس نظریہ اور اجتماعی خواب میں بڑا فرق ہے۔ نظریہ کا کام وہاں تمام ہوجاتا ہے جہاں آزادی مل جائے۔ اس کے بعد اس خواب کی باری آتی ہے جو لاکھوں کروڑوں دلوں کو ایک ساتھ دھڑکاتا اور گرماتا ہے ۔ اسی خواب کی تعبیر کی حسرت میں بے شمار لوگ نیم تاریک راہوں میں مارے جانے پربھی تیار رہتے ہیں۔اگر بغور جائزہ لیا جائے تو لوگ آنے والی نسلوں کے لئے ایک ایسا منصف معاشرہ چاہتے ہیں ،جہاں سب کے لیے برابر مواقع، شہری آزادیاں اور کامیابی کے امکانات موجود ہوں۔ دہائیوں پہلے پیپلز پارٹی نے روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر ایک ایسا ہی خواب دکھا نے کی کوشش کی تھی، مگر پارٹی کی حکومتی کارکردگی ابھی تک اتنی مایوس کن رہی ہے کہ وہ بھی محض ایک کھوکھلا نعرہ بن کر رہ گیا اور دوسرا یہ کہ اس نعرے میں بھی صحت ، امن اور تعلیم جیسی اہم ضروریات کونظر اندازکردیا گیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جو بھی اپنے آپ کو عوام کا سچا لیڈر سمجھتا ہو ،وہ پاکستانی قوم کو ایسا خواب دے جس میں تمام خصوصاً متوسط اور غریب طبقے کے مسائل کا حل ہو ۔ منزل کا تعین آپ کر لیجیے، اس کی طرف بڑھتے ہوئے ہر قدم پر آسودگی خود بخود نصیب ہونے لگے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں