کیا بھارت آج بھی ایک جمہوریت ہے؟

ایک عمر گزری ہے بھارت کی جمہوری مثالیں سنتے ہوئے۔ یہ باتیں موازنہ کے طور پر کی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے اگر بھارت میں جمہوری نظام بغیر کسی رکاوٹ چل سکتا ہے تو ہمارے ہاں کیوں نہیں؟ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ جمہوریت سرے سے اچھی چیز ہی نہیں ہے۔ سو، ان کو تو بھارت اور پاکستا ن کے تقابلی جائزے میں کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ ہم مان لیتے ہیں کہ جمہوری نظام ہی کسی ملک کے نظام کی پختگی کو دوام بخش سکتا ہے اور یہ بھی کہ بھارت میں ترقی اور تنزلی دونوںکی صلاحیت ہے۔ جمہوریت کو ایک سافٹ پاور مانا جاتا ہے۔ عسکری طاقت تو کئی ممالک کے پاس ہوتی ہے مگر عموماً کامیاب وہی ہوتے ہیں جن کی ثقافت سے دنیا آشنا ہو، جس کے شہری دوسرے ممالک میں جا کر سینہ ٹھونک کر کہہ سکیں کہ وہ اپنے ملک کے نظام کا فعال حصہ ہیں، ان کی ریاست ہر فیصلہ ان کی مرضی یا مشاورت سے کرتی ہے۔ 
بھارت‘ جس کو روز اوّل سے تاج برطانیہ کی متروکہ بیوروکریسی، دولت اور انتظامی مشینری اور ڈھانچہ‘ میسر آئے‘ محلاتی سازشوں سے کسی حد تک پاک رہا اور اسے جمہوری نظام کو تہ و بالا کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ مسائل ہوں گے مگر ہمارے جتنے سنجیدہ نہ تھے۔ تواتر سے چلنے والے جمہوری نظام نے بھارت کا رتبہ دنیا بھر میں بڑھایا۔ آج دنیا میں بھارت کی جو ساکھ قائم ہے وہ اسی نظام کی مرہون منت ہے‘ لیکن آج یوں لگتا ہے کہ بھارت اس اہم بات کو فراموش کرتا جا رہا ہے۔ 
چین کی بے پناہ ترقی اور ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر اس کی پذیرائی نے بھارت کی سوچ کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ کہتے ہیں حسد بُری بلا ہے۔ کہاں چین میں اصلاحات کا ایک لامتناہی جاری و ساری سلسلہ اور کہاں بھارت‘ جو صرف لیبل تبدیل کرکے اصلاح احوال کی کسی سنجیدہ کوشش کے بغیر چین کا ہم پلہ بننا چاہتا ہے۔ ہندوستان کے چند بڑوں کو شاید یہ لگنے لگا ہے کہ ان کے پاس جمہوریت کے علاوہ بھی کئی سافٹ پاورز موجود ہیں۔ چین کے علاوہ صرف بھارت ہی واحد ملک ہے جس کی آبادی ایک ارب سے تجاوزکر چکی ہے۔ اس طاقت کو ڈیموگرافک ڈیویڈنٹ یا آبادیاتی نفع کہہ کر تشہیر کی گئی۔ دوسری طاقت بھارتی مارکیٹ کو قرار دیا گیا۔ جہاں آبادی زیادہ ہو اور صنعت عوام کی ضرورت کی اشیا بنانے سے قاصر ہو وہ مارکیٹ اچھی ثابت ہو سکتی ہے، یہ اور بات کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے دنوں سے لے کر آج تک ہندوستان کی یہ جہت کمزوری ہی رہی۔ ثقافتی تنوع ایک اور طاقت ہے جس کا بھارت بہت چرچا کرتا ہے‘ لیکن اس تنوع کی حقیقت ذات برادری، مذہبی اور لسانی تعصبات میں بٹا ہوا بھارتی معاشرہ ہے‘ جس سے اسے فائدہ کم ہی ہوتا ہے۔ پھر بھارتی میڈیا اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری ہے‘ جو پہلے ہی کافی مقبول ہیں۔
دوسری طرف یہ احساس غالب رہا ہو گا کہ اگر چین کا مقابلہ کرنا ہے تو نظام بھی کچھ ویسا ہی سخت گیر ہونا چاہیے‘ لیکن بھارت جیسی کثیر قومی ریاستوں میں جمہوری حکومتیں اکثر کمزور اور کم اعتمادی کا شکار رہتی ہیں۔ ادھر پاکستان کی آزادی کے وقت سے ہی بھارت ہندو انتہا پسندی سے متعلق خود فریبی میں مبتلا رہا ہے۔ اگرچہ جمہوری نظام کے ساتھ ساتھ آئین میں سیکولرازم کو بھی ایک ستون کے طور پر پیش کیا گیا‘ مگر بڑھتی ہوئی ہندو انتہاپسندی سے چشم پوشی بہتر سمجھی گئی۔ سیکولرازم کا عموماً فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ریاست فرقہ واریت، مذہبی تعصبات اور تنازعات میں فریق بننے سے بچی رہتی ہے اور اس طرح کے مخلوط معاشروں میں انصاف کا نظام قائم ہو سکتا ہے‘ مگر جب ریاست سیکولرازم کے نام پر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبائے رکھے تو نفرت کا ماحول زیر زمین پکتا رہتا ہے۔ بھارت میں نفرت کا یہ جوالامکھی نوے کی دہائی میں تب پھٹ پڑا‘ جب بھارتیہ جنتا پارٹی قومی سطح پر سیکولرازم کے چیلنجر کے طور پر ابھری۔ نفرت کی آندھی نے دیکھتے ہی دیکھتے صرف سیکولرازم کو ہی نہیں جمہوریت کو بھی آ دبوچا۔ اس وقت سے بھارت بہت بدل گیا ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں چار ایسے رجحانات سامنے آئے‘ جو بھارتی جمہوریت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوئے۔ پہلا‘ ہندو انتہا پسندی کا عروج ہے۔ آج اگر نریندر مودی بھارت کے سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہیں تو لوگ یہ بھولنا چاہتے ہیں کہ ان کی وجہ شہرت اور بی جے پی میں مقبولیت کی بنیاد ریاست گجرات میں ان کی زیر حکمرانی ہونے والے مسلم کش فسادات ہیں‘ جن میں ایک اندازے کے مطابق ہزار سے دو ہزار مسلمان قتل کر دیے گئے تھے۔ اگر آج نریندر مودی ایک قومی لیڈر کے طور پر کچھ برداشت کا مظاہرہ کرنا بھی چاہیں‘ تو شاید نہ کر سکیں اس لیے کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے لیڈروںکو علم ہو چکا ہے کہ پارٹی میں جلد کامیابی کا طریقہ نفرت کا کاروبار ہے، اس لیے وہ نفرت کی سیاست کو نئی حدود تک لے جانے سے نہیں کترائیں گے۔ 
دوسرا بُرا رجحان ہندوستان کی اسٹیبلشمنٹ کا ابھار ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں بھارت کی حکومتیں زیادہ تر کمزورکثیر جماعتی اتحادوںکی بنیاد پر بنتی رہی ہیں۔ ان حالات میں مذکورہ عوامل نے بھارتی فوج کے ہاتھ مضبوط کیے۔ اب فوجی سربراہان بھارت کی طرف سے اپنے روایتی حریفوں کی طرف کسی بھی رعایت کی صورت میں اپنے تحفظات کا برملا اظہار میڈیا پرکرتے ہیں۔ 
تقریباً اتنا ہی پریشان کن رجحان بھارت میں بڑے کاروباری حلقوںکا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ہے۔ اب کئی بھارتی دانشور اور شہری یہ ماننے لگے ہیں کہ گزشتہ بھارتی الیکشن میں امبانی اور اڈانی جیسے کاروباری گھرانوں نے مودی کو واحد قومی لیڈر کے طور پر پیش کرنے پر بہت پیسہ لگایا۔ ایسی ہی کاروباری شخصیتوں نے میڈیا کو بھی اپنے چنگل میں لے رکھا ہے۔ سو، میڈیا مسلسل نریندر مودی کو دیوتا بنائے رکھنے میں مصروف ہے۔
چوتھے اور آخری رجحان کا پہلے تین سے گہرا تعلق ہے۔ کسی بھی جمہوریت کی صحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس میں اختلاف رائے موجود ہو۔ بھارت میں مودی سرکار کے آ جانے کے بعد اختلاف رائے قومی تبصروں سے ناپید ہوتا جا رہا ہے اور ہندوتوا پرچارکوں کی سوچ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ ذرا غور کیجیے، حال ہی میں کن امور پر قومی بحث ہوئی۔۔۔۔۔ گائے کے گوشت کے استعمال کی ممانعت ہونی چاہیے، قدیم ہندوستان کے باسیوں نے آج کے جہازوں سے مماثلت رکھنے والے اڑن کھٹولے ایجادکر رکھے تھے، مسلمان ہندو عورتوں سے تو شادی کر لیتے ہیں مگر اپنی عورتوں کی ہندوئوں سے شادی نہ کر کے 'لَو‘ جہاد کر رہے ہیں جو ہندوستان کے خلاف سازش ہے، اور یہ بھی کہ بھارت پاکستان اور چین پر کیوں نہ چڑھ دوڑے۔
یہ چار رجحانات مل کر بھارتی جمہوریت کے لیے سنجیدہ خطرہ پیدا کر چکے ہیں۔کاش بھارت نے ہماری کوتاہیوں سے کچھ سیکھا ہوتا۔ آج جب پاکستان اصلاح احوال میں مصروف ہے، بھارت کافی بڑی غلطیاںکرنے کا شوق پالے بیٹھا ہے۔ تو کیا یہ مان لیا جائے کہ بھارت آج ایک جمہوریہ نہیں رہا؟ حال ہی میں ہونے والے ریاست دہلی کے الیکشن سے تو معلوم ہوتا ہے کہ جمہوریت میں تھوڑی بہت جان باقی ہے، مگر نفرت کی بھی اپنی ایک رفتار ہوتی ہے۔ جب یہ وبا تیزی سے پھیلتی ہے تو ایکا ایکی کئی برج الٹ جاتے ہیں۔ دیکھیے آگے کیا ہوتا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں