ایک زمانے میں اسلام آباد کی ہر مارکیٹ میں کوئی نہ کوئی اولڈ بک شاپ ہوتی تھی۔ پرانی کتابوں کی ان دکانوں میں کچھ تو ایسی تھیں کہ وہاں کتابوں کو نوادرات کے طور پر بیچا جاتاتھا۔ جتنی پرانی کتاب اتنی ہی قیمتی۔ ایسی دکانیں تو خیرایک طالب علم کی جیب اور طبیعت پر گراںہی گزرتیں مگر کچھ تھیں جہاں من پسند کتب معقول قیمت میں دستیاب ہوتیں۔ ایسی ہی ایک دکان سے میں نے بھی اپنا رشتہ جوڑ لیا۔ جب بھی یونیورسٹی سے کچھ فارغ وقت نکلتایا جیب کچھ بھاری ہوتی تو وہیں چلا جاتا۔ جب آپ کو چرچل،جان اسٹیورٹ مل، کارل مارکس اور ایڈم اسمتھ کی کتابیں ارزاں داموں دستیاب ہوں تو آپ کو اور کیا چاہئے؟
ایک دن میں اس دکان پر موجود تھا اور دکاندا ر کتب بینی میں عوام کی عدم دلچسپی کا دُکھڑارو رہا تھا کہ باہر ایک مرسڈیز کار آ کر رکی اور اس میں سے ایک انتہائی خوبرو خاتون بر آمد ہوئی۔ پرانی کتابوں کی دکان میں ایک امیر زادی کیا لینے آئے گی ، میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ قیاس تھا کہ شاید رستے سے بھٹک گئی ہوگی ، پتہ پوچھ کر چلی جائے گی۔ مگر یہ کیا صاحب۔ وہ بغیر وقت ضائع کئے اپلائیڈ میتھس یا اطلاقی ریاضی کے شیلف تک پہنچی۔ ایک موٹی سی کتاب وہاں سے اٹھائی، پھر فلسفے کی ایک کتاب چنی۔ پھر شاعری کی تین کتابیں۔ تاریخ اور دیومالائی داستانوں سے بھی شغف معلوم ہوتا تھا۔ کچھ کتابیں اس ڈھیر سے بھی لیں۔ یہ سلسلہ کچھ دیر تک جاری رہا۔ وہ کتابیں چنتی جاتی تھی اور میں اس کے حسن انتخاب کا قائل ہوتا جاتا تھا۔ دکاندار کا بھی کچھ یہی حال لگتا تھا۔ حیرانی کی کیفیت صاف ظاہر تھی۔ ایسے میں وہ خاتون اس سے مخاطب ہوئی اور بولیــ ـ، بھائی نیلے رنگ کے کور والی کوئی اور کتاب بھی ہے تو دے دیں۔ میں نے نئی ڈیکوریشن کرائی ہے میچنگ رنگ کی کتابیں چاہئیں۔ اور ان الفاظ کے ساتھ ہی تمام تر رومانیت ہوا ہوئی۔
خیر یہ پرانی بات ہے۔ اب اس اولڈ بک شاپ کی جگہ ایک یخنی کی دکان نے لے لی ہے۔ تازہ سوپ پیجئے اور جسم توانا کیجئے۔ دماغ کو تو گھاس پھونس بھی ڈال دیجئے تو بیچارہ کیا شکوہ کرے گا۔
کہتے ہیں کسی بھی قوم کی روشن خیالی کا جائزہ لینا ہو تو یہ دیکھو کہ وہاں کیسی کتابیں لکھی جاتی ہیں، کتنی کاپیاں چھپتی ہیں اور کتنی بک جاتی ہیں۔ میں نے اسی مقصد سے کچھ کامیاب امریکی اور برطانوی پبلشر ز سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ کسی اچھی کتاب کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہو جانا کوئی مشکل بات نہیں۔ یہی حال بھارت اور کئی اور ممالک کا بھی دیکھا۔ جب میں نے یہی سوال چند پاکستانی کتب خانوں سے پوچھا تو اوسان خطا ہو گئے۔لاکھوں تو کیا ہزاروں کی تعداد میں بھی بہت کم کتابیں بکتی ہیں۔ مصنفوں سے پوچھئے تو وہ کہتے ہیں کہ اکثر ناشر تو مصنف ہی سے اشاعت کے پیسے لیتے ہیں ورنہ چھاپتے ہی نہیں۔ دیگر ممالک میں قصہ اس سے بالکل الٹ ہے۔ اچھے مسودوں کو حاصل کرنے کے لئے ناشرحضرات ایک دوسرے سے لڑ پڑتے ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں کتاب نہ بکنے کی وجہ قارئین میں شوق کی کمی ہے۔ بہت سارے افراد تو فقط اخبار پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔ کچھ اور ہیں جو جریدوں اور ڈائجسٹوں سے فیضیاب ہو کر خود کو قاری گردانتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جن کو نثر سے کوئی شغف نہیں‘ شاعری چاہے جتنی مرضی پڑھا دیجیے۔ ایسے بھی صاحبان سے سلام دعا ہوئی جو سمجھتے ہیں کہ مذہبی کتب کے علاوہ کچھ پڑھنا جرم ہے۔
پھر دیکھئے کہ اردو کے ساتھ بھی ہم نے سوکن والا سلوک روا رکھا ہے۔ نئی نسل کے کئی لڑکے لڑکیاں تو اُردو کتاب کو ہاتھ لگانا بھی معیوب سمجھتے ہیں۔ میں نے کئی والدین کو دیکھا ہے کہ اپنے بچوں سے صرف اس لئے خفا ہیں کہ انہیں کوئی اردو کی کتاب کیوں پسند آگئی۔ اردو کتب کی تشہیر بھی اس طرح نہیں ہوتی۔ پھر پاکستان میں یوں بھی کتاب شائع کرنا کوئی سستا کام نہیں۔ مہنگی کتاب پھر خریدے گا کون۔ پھر ایک مسئلہ ہماری نااہلی کا بھی ہے۔ آج کل ای بکس کا دور دورہ ہے۔ ای بک ریڈر (برقی کتب بین) ایک ایسی تختی کی طرح ہوتا ہے جس میں آپ جو کتاب چاہیں ڈال کر پڑھ لیں۔ عام کتب کے مقابلے میں نہ جگہ گھیرنے کی پریشانی نہ دیمک لگنے کا ڈر۔ کتاب پڑھی‘ ڈیلیٹ کی اور اس کی جگہ اور کتابیں ڈال لیں۔ یہ کتابیں نسبتاً سستی ملتی ہیں۔ مگر حد دیکھئے کہ جس فارمیٹ میں یہ کتابیں ای بک ریڈر کے لئے تیا ر کی جاتی ہیں وہ شاید ہماری سمجھ سے ہی باہر ہے۔ اس طرح یہ سہولت بھی ہم سے کوسوں دور ہے۔
اسی طرح دنیا میں آڈیو بکس یا صوتی کتب کا بھی رواج عام ہے۔ کسی خوبصورت آواز والے سے کتاب پڑھوا لی، ریکارڈ کی ، اور ویب سائٹ پر بیچنے کے لئے رکھ چھوڑی۔ قاری نے یہ ویب سائٹ سے خریدی، اپنے موبائل فون میں ڈائون لوڈ کی اور موسیقی کی طرح سن ڈالی۔ نہ آنکھوں کی تھکن، نہ کتاب کو ہاتھ میں اٹھائے پھرنے کی مجبوری، اندھیرے میں سنئے ‘ سفر میں بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ جن دنوں کام کاج کی وجہ سے مجھے وقت نہ مل رہا ہو کہ میں توجہ سے کتاب پڑھ سکوں تو یہی طریقہ اپنا لیتا ہوں۔ مگر ہائے مجبوری کہ اردو میں تو اتنی محنت بھی کوئی نہیں کرتا۔ ایک دن انٹرنیٹ پر تلاش کرنے پر ایک ویب سائٹ ملی جس پر دو تین اردو آڈیو بکس نظر آئیں۔ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ میں نے شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ایک صاحب نے شوق سے ریکارڈ تو کر ڈالیں مگر ڈرامائی انداز ایسا تھا کہ جیسے کسی بچے کو ڈرانے کی کوشش کی جارہی ہو۔ اور چونکہ یہ کام شوقیہ کیا جارہا تھا تو ادھورا بھی چھوڑ دیا گیا تھا۔ آدھی ادھوری کتا ب کا میں کیا کرتا۔آپ بھی کہیں گے کہ کیا کتب بینی کی گردان لگا رکھی ہے۔ اس مصروف زمانے میں کالم پڑھ کر ہی کام چل جاتا ہے۔ کتاب پڑھنے کا وقت کس کے پاس ہے۔ تو قبلہ آپ جتنے بھی مصروف ہوں دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی اقوام سے تو زیادہ مصروف نہیں ہو سکتے۔ جب وہ وقت نکال لیتے ہیں تو ہم آپ کیوں نخرے کررہے ہیں۔ اور پھر کوئی تو وجہ ہے کہ کتابیں دیگر مواد سے زیادہ کامیاب سمجھی جاتی ہیں۔ ہر ایک کی اپنی جگہ ہے۔ کالم اس شخص کے لئے تو بہت فائدہ مند ہیں جس کا مطالعہ کافی وسیع ہو اور اس کو روزانہ نئے تبصرے چاہئیں۔ مگر جس کو کتاب پڑھنے کا شوق ہی نہ ہو وہ کسی اخبار جریدے سے کیونکر فائدہ حاصل کر پائے گا۔کالم میں الفاظ کی قید ہوتی ہے۔ اس لئے کسی بات کو اختصار سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس بات کا پس منظر جاننا ہو تو کتاب ہی کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔
کالمسٹ حضرات سے بھی ایک گلہ ہے۔ ایک مدت دراز لگتی ہے اتنا مشاہدہ، تجربہ اور علم حاصل کرنے میں۔کالم لکھنا نسبتاً سہل ہے ۔ اسی لئے بہت سے مصنفین کتاب لکھنے کی بجائے کالم نویسی سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ملک کی تاریخ کا ایک اہم حصہ سے آج کی نسل لا علم ہے اور ملک میںوہ مربوط بیانیہ بھی شاید اسی وجہ سے نہ بن پایا کہ جس سے قوم کی کردار سازی ہو سکے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے میں نے تو ایسی کتابیں بہت کم دیکھی ہیں۔ براہ کرم ملک میں کتب بینی کو بھی فروغ دیجئے کہ کتابوں کو معمولی سمجھنے والی قوموں کا مستقبل کبھی روشن نہیں ہوتا۔