یہ سچ بولنے کا وقت ہے۔ اپنے آپ سے بھی اور قوم سے بھی۔ خدارا!ہٹ دھرمی اور جھوٹی انائوں کے چکر سے نکل آیئے۔ مان لیجیے کہ حکومت نامی کوئی چیز کراچی میں موجودنہیں ہے۔ اعتراف کر لیجیے کہ رینجرز، پولیس اور سکیورٹی ایجنسیاں کراچی کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ مان لیجیے کہ کراچی اس وقت دہشت گردوں، بھتہ خوروں، اسلحہ، لینڈ اور سمگلنگ مافیا کے کنٹرول میں ہے۔ کراچی اس وقت طالبان کے مختلف گروہوں کے قبضے میں ہے۔ سچ مان لیجیے کہ سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ موجود ہیں۔ یہ بھی جان اور مان لیجیے کہ بعض جماعتیں خود تخریب کاروں کی وارداتوں کی سرپرستی کرتی ہیں۔ خود بھتہ خوری میں ملوث ہیں۔ یہ حقیقت بھی تسلیم کر لیجیے کہ اسلحہ خود بعض جماعتوں کی زیرپرستی اور زیرنگرانی کراچی میں آتا اور تقسیم ہوتا ہے۔ یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں کے بھتہ خوروں اور اسلحہ مافیا نے نوگو ایریاز بنائے ہوئے ہیں۔ کراچی کے اندر کئی سلطنتیں وجود میں آچکی ہیں جو محض دھونس، زور اور طاقت کی بنیاد پر قائم ہیں۔ اب وہاں زندہ رہنے کے لیے اور اپنی حفاظت کے لیے کسی نہ کسی سیاسی جماعت، مذہبی گروہ، بھتہ مافیا یا اسلحہ مافیا کے ساتھ وابستگی ضروری ہوگئی ہے۔ اس سچ کو بھی مان لیجیے کہ 50فیصد کاروبار ختم ہوچکا ہے۔ صنعت کار اپنی صنعتیں ملک کے دوسرے حصوں میں منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ کچھ منتقل ہوچکے ہیں۔ 20فیصد کاروبار بند ہوچکا ہے۔ باقی خطرے میں ہے۔ یہ بھی غلط نہیں ہے کہ ڈی جی رینجرز اور انٹیلی جنس رپورٹیں آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں اور اسلحہ غیر ملکی ایجنسیوں سے آرہا ہے۔ خدارا! یہ بھی مان لیجیے کہ عوام کو پولیس پر اعتماد نہیں رہا۔ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بعض اداروں کے لوگ مجرموں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ شہریوں کے بارے میں معلومات، ان کے بینک اکائونٹس اور کاروباری اثاثوں سے متعلق اطلاعات یہی لوگ فراہم کرتے ہیں اور پھران کا تحفظ کرکے ان سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ اس میں بینکوں کے افسران، بیورو کریسی اور سیاسی اشرافیہ سبھی شامل ہیں۔ یوں ہر طبقہ لوٹ مار کرکے پیسہ کھانے میں مصروف ہے۔ کراچی میں موجود تمام بڑی جماعتیں ہر دفعہ شریک اقتدار رہی ہیں لیکن کسی نے بھی اس شہر میں امن و امان اور شہریوں کے لیے بہتر سہولیات کے بارے میں نہیں سوچا۔ مصطفی کمال اور نعمت اللہ خان کا دور ناظمیت مستثنیات میں شامل ہے وگرنہ روشنیوں کے شہر اور عروس البلاد کا یہ عالم ہے کہ حکمران وہاں کے شہریوں کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات فراہم نہیں کرسکے۔ وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی حالت کو دیکھ کر خون کے آنسو رونے کو دل چاہتاہے، یوں لگتا ہے کہ صدیوں قبل کے کسی دور میں آگئے ہیں۔ کوڑے اور گندگی کے ڈھیر نے اس شہر کو تعفن میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ گورننس کا یہ عالم ہے کہ آج تک اس شہر کے لیے سیوریج کا کوئی منصوبہ بن سکا نہ اس پر عملدرآمد ہو پایا۔ لہٰذا جب بھی بارش ہوتی ہے پورا کراچی سیلاب زدہ ہو کر رہ جاتا ہے اور نظام زندگی معطل ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت کو مان لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ غیر ملکی اسلحہ ہماری بندرگاہوں کے ذریعے ملک میں آتا ہے۔ متعلقہ وزارت اور بندرگاہوں کی انتظامیہ اس میں ملوث ہوسکتی ہے ۔ میں گزشتہ دنوں کراچی میں تھا تو مجھے اپنے دوست افسر نے بتایا کہ ہم روزانہ سوچتے ہیں کہ دفتر کیسے پہنچیں گے اور دفتر سے گھر کس طرح جائیں گے۔ ویسے باہر نکلنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کیونکہ اس کے گھر کے دو افراد دو دو دفعہ سر عام لٹ چکے ہیں۔ وہیں بیٹھے ایک اور شخص نے بتایا کہ ان کا بیٹا اغوا ہوچکا ہے اور وہ اپنے طور پر کچھ کوششیں کررہے ہیں کیونکہ پولیس کو بتایا تو پولیس اغوا کے اس کھیل میں تاوان کے لیے اپنا حصہ بھی طلب کرلے گی یا اغوا کاروں کو اطلاع دے دے گی جس سے میرے بچے کی زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے گی یا تاوان اور بھتے کی رقم میں اضافہ کر دیاجائے گا۔ اگر اس عفریت زدہ ماحول میں متحدہ قومی موومنٹ نے فوج کو بلانے کا مطالبہ کیا ہے تو اس پر شدید ردعمل دینے کی کیا ضرورت ہے؟ سیاسی جماعتوں کے اندر حالات کو ٹھیک کرنے کی خواہش یا اہلیت ہوتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ جس شہر کی تہذیبی، تمدنی، علمی اور ادبی زندگی ختم ہو کر رہ جائے، وہاں جتنے چاہے پلازے بنائیں، فیکٹریاں کارخانے اور صنعتیں لگالیں، ہائوسنگ سوسائٹیاں کھڑی کرلیں، ترقی اور نمو نہیں ہوسکتی۔ شہر مکانوں، کوٹھیوں، درو دیوار، پلازوں اور کارخانوں کا نام نہیں ہوتے بلکہ تمدنی زندگی اور اقدار سے پہچانے جاتے ہیں۔ اس شہر کو تباہ کرنے میں ایک دن نہیں، ایک مہینہ نہیں، ایک سال نہیں بلکہ کئی سال لگے۔ بقول جون ایلیا ع خود کو تباہ کرلیا اور ملال بھی نہیں میرے ہی اشعار ہیں: اک عمر سے ہیں در پئے آزار اس کے ہم یہ شہر ایک دن میں بکھر تو نہیں گیا اس بار زخم اور ہی کچھ تھے سو اس لیے تجھ سے بھی مل کے رنج سفر تو نہیں گیا سو اگر ایسا ہی ہے تو پھر انائوں اور ضد کے خول سے نکل آئیے اور اگر آپ پولیس اور رینجرز کو مطلوبہ طاقت فراہم نہیں کرسکتے، انہیں مناسب اختیار، اعتماد اور اہلیت سے مسلح نہیں کرسکتے تو میرے خیال میں فوج کو بلانے میں کیا حرج ہے۔ فوج بھی تو اپنی ہی ہے۔ گاجر، مولی کی طرح کٹنے اور روزانہ کی بنیاد پر جینے مرنے والے شہریوں سے زیادہ تو کوئی چیز اہم نہیں ہوسکتی۔ نہ اقتدار نہ اختیار۔ ایک بے رحم آپریشن کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں یہ آپریشن صرف فوج ہی کرسکتی ہے، کیونکہ سیاسی جماعتیں کبھی غیر جانبداری سے یہ کام نہیں کر پائیں گی، رینجرز سے بھی کام لیا جاسکتا ہے اور اگر ایک دفعہ یہ کام شروع کردیا جائے تو پھر آنکھیں اور کان بند کرلیے جائیں کسی کی سفارش یا فون نہ سنا جائے۔ آخر نصیر اللہ بابر نے بھی تو امن قائم کیا ہی تھا۔ عزم چاہیے اور مکمل اختیار اور غیرجانبداری۔ وقت آگیا ہے کہ سروں کی فصل اگر کٹنی ہے تو کاٹ دی جا ئے کہ اگر آپ یہ کام نہیں کریں گے تو کوئی اور آکر کرلے گا۔