ننھی سنبل کے نام ایک خط

پیاری بیٹی سنبل! میں گزشتہ دو دنوں سے عجیب و غریب اذیت میں ہوں۔میں نے بارہا قلم اٹھایا اور رکھ دیا۔ابھی تک کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ تمہیں کیا لکھا جائے۔شاید مجھ میں ہمت ہی نہیں ہے کہ میں تم سے مخاطب ہوسکوں۔ دکھ ، حزن ، ملال ، کرب ، رنج اور صدمے کی شدت میں لکھا بھی کیسے جاسکتا ہے۔ ہاں، آنسو رقم ہوسکتے ہیں، زاری کی جاسکتی ہے ، سوگ کاٹے جاسکتے ہیں،عزا داری ہوسکتی ہے۔ تمہارے ساتھ ہونے والے وحشیانہ سلوک کے بارے میں جب بھی سوچنا شروع کرتا ہوںدماغ پھٹنے کو آجاتا ہے، سوچیں جواب دے جاتی ہیں،وجود میں طوفان کے ایسے جھکڑ چلتے ہیں کہ ایک ایک ریشے میں شاں شاں کی آوازیں آنے لگتی ہیں ۔سوچتا ہوں ،اس ظلم پر قہر خداوندی کیوں نہ ٹوٹا، زمین کیوں نہ پھٹی ؟وہ کیسے لوگ تھے جو جسمانی وضع قطع اور شکل و صورت سے تو انسان لگتے تھے لیکن دراصل وہ بھیڑیے تھے۔ وہ کیا چیز تھی جس نے ان انسان نما درندوں کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال دیا تھا اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی کہ انہیں تمہاری فرشتہ صورت شکل نظر آئی نہ چیخیں سنائی دیں؟ وہ کیا چیز تھی جس نے ان کے دلوں پر بے حمیتی اور بے ضمیری کے قفل ڈال دیے تھے ، بے حسی کے ٹیکے لگادیے تھے ۔ ان کی بھی تو تم جیسی بیٹیاں اور بہنیں ہوں گی جن کے ناز نخرے اٹھاتے ہوں گے۔ بلائیں لیتے ہوں گے۔ ان کی عفت ، حیا اور آبرو کے تحفظ کے لیے سب کچھ کرتے ہوں گے۔ انہیں بھی اپنی گود میں اٹھا کر زمین اور آسمان اس کے حوالے کرنے کے خواب دیکھتے ہوں گے۔ جو انہیں کھیلنے کے لئے گڑیا ، جگنو، تتلیاں ، رنگ اور کھلونے مہیا کرتے ہوں گے۔ سوچتا ہوں اس شام کی ان گھڑیوں میں آسمان سے شانتی کی چاندنی کیسے اترتی رہی۔ ہوا معمول کے مطابق کیسے چلتی رہی ، لوگوں کو نیند کیسے آتی رہی۔ یہ کیسے لوگ تھے جن کا تہذیب ، تمدن ، رحم ، مذہب ، اخلاقیات ، عدل و انصاف ، خوف خدا ، مہربانی اور قانون سے کوئی تعلق اور نسبت نہ تھی ،جو سانس تو اکیسویں صدی میں لیتے تھے لیکن اپنے کردار اور سوچ کے اعتبار سے زمانہ جاہلیت اور جنگل کے قانون کے نمائندے تھے ،جن کے چہرے اس قدر مسخ ہوچکے تھے کہ ان پر عفریت کا سا گماں ہوتا تھا۔ تمہاری طبیعت اب بہتر ہورہی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ تمہارا کچا پکا ذہن اس واقعہ کے بارے میں جب تانے بانے بنے گا تو کس نتیجے پر پہنچے گا۔اس سماج کے بارے میں کیا سوچے گا۔ وہی سماج جس کا میں نمائندہ ہوں۔وہی سماج جس نے تمہیں زندگی کرنے کے لیے ایک بہتر ماحول فراہم کرنا تھا۔ تمہیں خواب دیکھنے کے لیے خوبصورت مناظر تخلیق کرنا تھے ۔ تمہارے ہاتھ میں گڑیا ، کھلونے ، جگنو اور کتابیں دیکھنے کے لیے تمہیں ایک خوبصورت دنیا میں رکھنا تھا۔ ہاں وہی سماج جس نے تمہارے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کرنا تھی۔ تمہاری تعلیم اور صحت کے لیے سہولتیں فراہم کرنا تھیں۔ جس نے تمہیں زمانے کے گرم و سرد سے بچانا تھا ۔ اس سماج کے خدوخال تمہارے ذہن نے کیسے بنائے ہوں گے۔ ہاں، یہ وہی سماج ہے جس کے بارے میں، میں نے بہت لکھا ہے۔ میں نے اس کے پوٹینشل اور اس کی مثبت چیزوں کو بہت سراہا ہے۔ سوچتا ہوں کیا یہ وہی سماج ہے جس میں محلے اور گلی میں رہنے والی بچیاں اور بچے سب کے سانجھے تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ وہی سماج ہے جس کے بڑے ایک دوسرے کی عزت اور ناموس کے رکھوالے ہوتے ہیں۔ جن کے نزدیک ایک گھر کا دکھ سب کا دکھ ہوتا ہے، جو بیٹیوں کی رخصتی اور خوشیوں کے وقت ساتھ ہوتے ہیں۔ سوچتا ہوں یہ سماج اس رسول ؐکی امت کہلاتا ہے جس نے فرمایا تھا کہ بیٹیاں خدا کی رحمت ہوتی ہیں۔ وہی رسول ؐجو بیٹی کا اٹھ کر استقبال کرتے اوربیٹیوں کی درست پرورش کرنے والوں کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ہاں اسی رسول ؐکی امت میں شامل یہ سماج اور ہم لوگ اپنے رسول ؐکو کیا منہ دکھائیں گے ؟ ہم نے رحمت کی بے حرمتی کی ہے ، ہم نے اس سماج کو رحمت سے محروم کردیا ہے۔ ہم نے اس دنیا کو انسانوں سے خالی کردیا ہے۔ یہ جنگل ہے اور اس میں جانور رہتے ہیں۔ ایسے جانور جو اپنی ضرورت اور ہوس کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے کو کھا جاتے ہیں اور استعمال کرتے رہتے ہیں، جہاں کسی قانون اور اخلاقی قدر کا گزر نہیں ہوتا۔ پیاری بیٹی ! یہ سماج میں ہی ہوں کہ میں اسی میں رہتا ہوں اور اسی کا نمائندہ ہوں۔ جب سے تمہارے ساتھ یہ بربریت والا واقعہ پیش آیا ہے ،میں نے آئینہ نہیں دیکھا کہ مجھ میں اپنا چہرہ دیکھنے کی تاب اور حوصلہ نہیں ہے۔ میرے چہرے کے خدوخال اس قدر مسخ اور بگڑ چکے ہیں کہ کوئی بھی دیکھے تو اس کی چیخیں نکل جائیں ۔ اس پر جگہ جگہ ہوس ، ظلم ، وحشت اور بربریت کے سینگ اُگ آئے ہیں۔ میری آنکھوں کی جگہ بھیڑیے کی آنکھیں اُگ آئی ہیں اور میرے دانتوں کی جگہ کسی خوفناک جانور کے دانت نظر آرہے ہیں۔ میں اپنے آپ کو کیسے پہچانوں ؟ میں تمہیں گڑیا ، پارک ، جھولے ، غبارے ، کتابیں ، بستہ ، فراک اور دودھ کیسے مہیا کرسکتا ہوں ، تمہیں کہانیاں کیسے سنا سکتا ہوں؟ میں نے تو یہ سب کچھ تم سے چھین لیا ہے حتیٰ کہ تمہاری معصومیت بھی ، تمہارا بچپنا اور تمہارے خواب بھی … میں تمہارا مجرم ہوں ۔ یہ سماج تمہارا مجرم ہے ، ہم سب تیرے مجرم ہیں۔ میری دعا ہے کہ تمہارے کچے پکے ذہن کی لوح سے یہ سب کچھ مٹ جائے ، دھل جائے۔ تمہاری خوبصورت آنکھوں کی پتلیوں پر جمے ہوئے یہ خوفناک مناظر وقت کے ساتھ مدھم پڑ جائیں لیکن اگر خدانخواستہ تم یہ اذیت ناک واقعہ اور سانحہ نہ بھلا سکو تو پھر ایک ہی استدعا ہے کہ مجھے معاف کردینا ۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر اس صورت میں تم نے معاف نہ کیا تو ہمارا کیا ہوگا؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں