مجھے یوں لگتا ہے کہ عوامی حکومت کے اس ’’سنہرے دور‘‘ میں بڑھتے ہوئے مہنگائی کے طوفان، روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر، معیشت کی زبوں حالی اور یوٹیلٹی بلز میں ہوشربا اضافے خصوصاً بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ مجھ جیسے لکھنے والوں یا ٹی وی چینلز کے اینکر پرسنز کا مسئلہ نہیں رہا۔ ملک کا استحصالی طبقہ عام آدمی کی زندگی کو جس قدر چاہے اجیرن بنا دے، اُسے جیتے جی موت کے کنویں میں دھکیل دے‘ ان کی کمروں کو کوزہ بنا دے، انہیں خودکشیوں اور خودسوزی پر مجبور کردے‘ ان کا قلم حرکت میں آتا ہے نہ زبان۔ ان کے قلم حکمرانوں کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے تو نظر آئیں گے مگر مجال ہے کہ ان کے قلم سے استحصالی طبقے اور اشرافیہ کے خلاف کوئی بات نکلتی ہو۔ کوئی وزیراعظم کے امریکی دورے میں وزیراعظم کے تدبر پر رطب اللسان ہے تو کسی کے پاس پاکستان‘ بھارت مذاکرات کا موضوع ہے۔ کسی کا کالم شروع بھی اپنے ممدوح حکمرانوں سے ہوتا ہے اور ختم بھی۔ کوئی ایک جماعت کے لیے لکھتا ہے تو دوسرا کسی اور کے لیے۔ یہی حال بیشتر ٹی وی اینکر پرسنز کا ہے‘ انہیں سیاستدانوں اور استحصالی طبقے کو فائدہ پہنچانے والے موضوعات کے سوا اور کچھ نہیں سوجھتا۔ وہ سرشام ایک گفتگو کی بساط بچھاتے ہیں۔ لوگوں کو دکھانے کے لیے مخصوص سوالات پوچھتے ہیں، سیاستدان بھی پروگرام کی ریٹنگ بڑھانے کے لیے آپس میں جھوٹ موٹ الجھتے ہیں، لڑتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سوکنوں کی طرح کوسنے دیتے ہیں، وقفوں میں پوچھتے ہیں کہ ان کی کارکردگی کیسی جارہی ہے اور جونہی پروگرام ختم ہوتا ہے وہ آپس میں گلے ملتے ہیں اور کسی اور پروگرام کی طرف چل پڑتے ہیں۔ اگر میڈیا استحصالی طبقے کے ساتھ اپنا رویہ نرم رکھے تو عام آدمی مسائل کا شکار رہتا ہے۔ اگر میڈیا کسی موضوع پر بات نہیں کرتا، لکھنے والا نہیں لکھتا تو اس کا واضح مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ اسے کوئی اہم مسئلہ نہیں سمجھتا۔ پوری دنیا میں ہی ایسا ہے۔ میڈیا ایک کارپوریٹ بن چکا ہے۔ بڑے میڈیا گروپس نے چھوٹے گروپوں کو خرید لیا ہے۔ سیٹیلائٹس بھی انہی کی ملکیت ہیں اور میڈیا پر چلنے والا مواد بھی۔ محسوس ہوتا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں‘ جو ان کی ضروریات کا خیال رکھتی ہیں‘ وہی اصل میں طے کرتی ہیں کہ اصل موضوع کون سا ہے۔ اس وقت کون سی بحث ان کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ کون سی خبر، کون سا آرٹیکل، کون سا کالم، کون سا اداریہ، کون سا ٹی وی ٹاک شو کس وقت مفید ہوسکتا ہے۔ عالمی سطح پر اگر کساد بازاری کرانی ہے، معیشتیں زوال پذیر کرنی ہیں، سٹاک مارکیٹ میں تیزی مندی لانی ہے‘ جنگیں شروع یا بند کرانی ہیں‘ اسلحہ مارکیٹ کو فائدہ پہنچانا ہے‘ نئی پروڈکٹس کے لیے مارکیٹ تلاش کرنی ہے‘ یہ سب کچھ چند بین الاقوامی کمپنیاں طے کررہی ہوتی ہیں۔ وہ ٹائمنگ بھی طے کرتی ہیں۔ یہ ادارے، مختلف ملکوں میں اپنے ایجنٹ ادارے اور کمپنیاں رکھتے ہیں جو ان کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔ مفادات کا خیال رکھنے والوں میں حکمران، سیاستدان، بزنس مین، افسر شاہی، مذہبی گروہ، ماہرین اور مقامی چھوٹی کمپنیاں شامل ہوتی ہیں۔ اب اس بالادست اور طاقتور گروہ میں میڈیا بھی شامل ہوگیا ہے بلکہ میڈیا ایک طاقتور سٹیک ہولڈر کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جتنا زیادہ فائدہ اور طاقت میڈیا استحصالی طبقے کو پہنچا سکتا ہے اور کوئی نہیں پہنچا سکتا۔ دراصل میڈیا کی حیثیت اب اس ادارے کی سی ہے جو بالادست طبقات اور عالمی سٹیک ہولڈرز سے براہ راست رابطے میں رہتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کسی ملک کا استحصالی طبقہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اور اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سب سے پہلے میڈیا کو ساتھ ملاتا ہے تاکہ ہر طرف سے ’’ستے خیراں‘‘ کی آوازیں آئیں۔ ان کے اس ایجنڈے کی بعض اوقات حکمران طبقے کو بھی خبر ہوتی ہے اور میڈیا کو بھی۔ لگتا ہے کہ عوام کو ذہنی، شعوری اور مالی طور پر مفلوج کرنے کے اس ایجنڈے میں حکمران، سیاستدان، بیورو کریٹس، عالمی طاقتیں اور ادارے شامل ہیں اور برابر کے سٹیک ہولڈر ہیں۔ آپ دیکھ لیں کہ حکومت نے آتے ہی آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان کر قرضہ لیا اور اب وہ شرائط آہستہ آہستہ پوری کررہی ہیں۔ یہ تمام شرائط عوام دشمن ہیں۔ ٹیکس نادہندگان اور حکومتی عیاشیوں کا سارا ملبہ پٹرول کی قیمت، یوٹیلٹی بلز میں اضافے، روپے کی قدر میں کمی، بجلی، گیس اور اشیائے ضروریہ مہنگی کرنے کی شکل میں عوام پر ڈالنا تھا۔ جب سے حکومت برسراقتدار آئی ہے‘ بے تحاشا مہنگائی کر چکی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر چکی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں 60فیصد اضافہ کر چکی ہے۔ ہر چیز کی قیمت دوگنا ہوچکی ہے۔ کرایوں سے لے کر اشیائے خورو نوش تک، سکول کی فیسوں سے لے کر یوٹیلٹی بلز تک‘ حکومت یہ کام نہایت اطمینان اور خاموشی کے ساتھ کام کررہی ہے۔ کبھی ایسا ہوا ہے کہ عوام کو ریلیف دینے والے اقدامات کی منظوری بھی اس خاموشی کے ساتھ ہوجائے، ملازمین کی تنخواہیں بڑھانی ہوں یا اور کوئی ریلیف دینا ہو، حکومت اور سرکاری بابو کمیٹیاں بنا دیتے ہیں۔ معاملے کو لٹکا دیتے ہیں‘ لیکن گیس، پٹرول اور بجلی مہنگی کرنی ہو تو رات کی تاریکی میں وزارت خزانہ کے افسران اس کی منظوری دے دیتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ سیاستدان، سیاسی جماعتیں، حکمران، میڈیا، لکھاری اور اینکر پرسن خاموش رہتے ہیں یا دوسری صورت میں اپوزیشن جماعتیں تھوڑا بہت احتجاج کرتی ہیں اور پھر اسی ایجنڈے کا حصہ بن جاتی ہیں۔ میڈیا تھوڑا بہت بولتا ہے پھر کسی اور ایجنڈے کی طرف چل پڑتا ہے۔ لکھنے والے یہ بھی نہیں بتا رہے کہ پڑوسی ملک بھارت نے پٹرول کی قیمت میں 3.66 روپے فی لٹر کمی کا اعلان کیا ہے اور اب بھارت میں پٹرول 40.72 روپے فی لٹر ملے گا۔ انہوں نے جواز دیا ہے کہ چونکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 117 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 113 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے لہٰذا اس کا فائدہ صارفین کو پہنچنا چاہیے۔ لیکن یہاں پٹرول اب عملاً 115 روپے فی لٹر ہوگیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ خاموشی بے حسی ہے یا بے بسی۔ سب سے بڑا قتل معاشی قتل ہوتا ہے اور ہم لوگ نہ جانے کب سے اس معاشی قتل کی زد پر ہیں۔ روز ایک نئی ضرب پڑتی ہے۔ روز ایک عضو کاٹ لیا جاتا ہے۔ روز ایک آنکھ اور امید بجھ جاتی ہے۔ اور ہم؟ ہم ایسے لکھنے والے، بولنے والے جانتے بوجھتے ہوئے اس بڑے کھیل میں پوری طرح شریک ہیں اور حیرت ہے کہ پھر بھی اندر سے مطمئن ہیں۔ ہمیں کچھ بھی نہیں ہوتا۔