مذاکرات اور امریکہ کی خاموشی

اس سے پہلے جب بھی طالبان کے حوالے سے کوئی پالیسی سامنے آتی یا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی مقتدرہ کوئی حکمتِ عملی تشکیل دینے لگتی یا عملی طور پر کوئی اقدام کرنے لگتی تو اچانک امریکہ کسی نہ کسی صورت میں ایک بڑے سٹیک ہولڈر (شراکت دار) کے طور پر سامنے آ جاتا۔ یہ کسی بیان کی صورت میں ہوتا‘ سرکاری بریفنگ کی شکل اختیار کرتا‘ پاکستان میں امریکی سفیر کا میڈیا کو بیان جاری کیا جاتا یا اہتمام کے ساتھ انٹرویو دے دیا جاتا تھا۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو ڈرون حملے ہو جاتے‘ خودکش حملوں میں اضافہ ہو جاتا‘ پاک افغان سرحد یا قبائلی علاقوں میں کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا جو پورے عمل پر اس طرح اثرانداز ہوتا کہ سب دیکھتے رہ جاتے یا بنی بنائی عمارت دھڑام سے نیچے آ گرتی اور بات وہیں آ کر رُک جاتی جہاں سے شروع ہوئی تھی۔ ماضی قریب میں جب گزشتہ سال نومبر میں امن مذاکرات شروع ہونے لگے تھے تو اچانک ڈرون حملوں کے نتیجے میں حکیم اللہ محسود مارا گیا اور امریکہ کا سرکاری ردعمل بھی سامنے آیا۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد کی صورت حال ہو یا پاکستان کا خطے میں کردار کا تذکرہ ہو‘ امریکہ سائے کی صورت منڈلاتا رہتا ہے۔ کتنی ہی مثالیں دی جا سکتی 
ہیں لیکن اس بار صورت حال مختلف ہے۔ پاکستانی حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا اعلان کیا‘ مذاکراتی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں‘ کوئی ردعمل نہیں آیا۔ دونوں طرف سے رابطے ہوئے‘ سلسلہ آگے بڑھا۔ امریکہ کی طرف سے صرف ایک بیان آیا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ شرائط سامنے آتی رہیں۔ ادھر سے مکمل خاموشی رہی۔ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی پھر ایک واقعہ ہو گیا اور مہمند ایجنسی میں 23 ایف سی اہلکاروں کو شہید کردیا گیا۔ یوں مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے اور ابھی تک یہ سلسلہ اسی طرح معطل ہی ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود ابھی تک واشنگٹن سے کوئی بیان سامنے آیا نہ کسی حکومتی اہلکار کا انٹرویو۔ یہ مکمل خاموشی کی دبیز چادر ہے جو بہت سارے معاملات کو چھپا رہی ہے‘ ان پر پردہ ڈال رہی ہے۔ بہت سے ابہام اور وسوسوں کو جنم دے رہی ہے۔ امریکہ میں موجود میڈیا‘ صحافتی حلقے اور تجزیہ نگار اس وقت دو مکاتبِ فکر میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک کا کہنا یہ ہے کہ امریکہ 
کسی صورت مذاکرات کامیاب ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا‘ لہٰذا جب بھی مذاکرات ہونے لگتے ہیں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے جس سے ساری فضا خراب ہو جاتی ہے۔ اس دفعہ پھر وہی ہوا۔ مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہو گئے اور شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کر دیئے گئے ہیں۔ اس مکتب فکر کے پاس بہت ساری دلیلیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اس خطے سے جنگ ختم نہیں کرنا چاہتا۔ وہ پاکستان پر مسلسل ایسے عناصر کا اثر دیکھنا چاہتا ہے جس سے یہ ملک اندر سے کمزور ہو جائے۔ ایک پُرامن پاکستان کسی بھی طرح امریکہ کے مفاد میں نہیں۔ دوسرا وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ چونکہ پاکستانی عوام اور فوج کے اندر طالبان کے حامی گروپ موجود ہیں لہٰذا مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں پاکستانی سماج اور فوج کے اندر انتہا پسند رجحانات میں اضافہ ہو جائے گا جو وہ کبھی نہیں چاہتا۔ اسلامی رجحانات کی حامل فوج کا وجود کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ سو اس وقت کی صورت حال امریکہ کی مرضی کے مطابق ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ مہمند ایجنسی میں طالبان کے جس عمر خراسانی گروپ نے ایف سی کے جوانوں کو شہید کر کے مذاکرات کے عمل کو ختم کردیا‘ اسے خفیہ طور پر ایک عالمی طاقت کی حمایت حاصل ہے۔
دوسرا نقطۂ نظر رکھنے والا گروپ یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ مذاکرات کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتا ہے اور اسی لیے اس نے اس مرتبہ کسی بھی مرحلے پر کوئی مداخلت نہیں کی۔ امریکہ کی خاموشی دراصل اس عمل کی مکمل حمایت ہے‘ اس نے پاکستانی سرکار کو درپردہ اپنی حمایت کا یقین دلا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کی اس فضا میں پاکستان کی درخواست پر امریکہ نے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی اور ابھی تک کوئی ایسا حملہ نہیں ہوا جس سے مذاکرات کی فضا خراب ہو جاتی۔ اب جبکہ مذاکرات کی فضا مہمند ایجنسی کے واقعے کی وجہ سے خراب ہو چکی ہے‘ امریکہ خاموشی سے اس عمل کی حمایت کر رہا ہے اور چاہ رہا ہے کہ پاکستان اپنی سکیورٹی ترجیحات کے پیش نظر اس مسئلے کو دیکھے اور حل کرنے کی کوشش کرے۔ ان کے خیال میں امریکہ نے نوازشریف حکومت پر اعتماد کر کے گیند ان کے کورٹ میں ڈال رکھی ہے اور ہر قیمت پر ان کا ساتھ دینا چاہتا ہے لیکن صورت حال کو خاموشی اور احتیاط سے دیکھ رہا ہے اور پاکستانی مقتدرہ کو موقع دے رہا ہے کہ وہ خود اس مسئلے کو حل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایک خاموش انڈر سٹینڈنگ کے تحت پاکستانی فوج شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں پر حملے کر رہی ہے۔ یہ خاموش انڈر سٹینڈنگ فی الحال جاری ہے اور کوئی بیان بازی بھی نہیں ہو رہی۔ اس خاموش انڈر سٹینڈنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا یہ تو وقت بتائے گا لیکن قرائن اور تجزیے بتا رہے ہیں کہ یہ انڈر سٹینڈنگ شدت پسندوں کے ساتھ جنگ اور آپریشن کے لیے ہے اور ا س آپریشن کے لیے نوازشریف کو امریکہ کا پورا اعتماد حاصل ہے۔ نیشنل سکیورٹی پالیسی کوئی بھی ہو‘ یہ جنگ مکمل جیت تک جاری رہے گی۔ باقی سب فروعی باتیں ہیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں