چیریٹی اور فنڈ ریزنگ

امریکہ میں اس وقت تقریباً 1.3ملین پاکستانی آباد ہیں۔ یہ لوگ 50ء اور 60ء کی دہائی میں ملک چھوڑ کر آئے اور اپنی آنکھوں میں نئی دنیائوں اور خوشحالی کے خواب سجائے انجانی جدوجہد میں مگن ہو کر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ یہ لوگ مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے تھے۔ کوئی ڈاکٹر تھا تو کوئی انجینئر، کوئی بزنس مین تھا تو کسی کا تعلق تعلیم و تعلّم سے تھا۔ ان لوگوں نے خوب محنت کی۔ دو دو تین تین جگہ کام کیا اور پھر اپنی محنت کے بل بوتے پر نہ صرف اپنے اپنے شعبے میں نام کمایا بلکہ امیر ترین لوگوں میں بھی شمار ہوئے۔ اس وقت وہاں دو نسلیں آباد ہیں۔ ایک تو وہ جو گزشتہ 40,35سال سے اس ملک میں رہ رہے ہیں اور دوسری ان کی اگلی نسل۔ یہ اگلی نسل بھی ان سے پیچھے نہیں ہے۔ ان میں سے بھی کتنے ہی آج نامور وکیل ہیں، ڈاکٹر ہیں، آئی ٹی کے ماہرین ہیں اور پٹرولیم انجینئر ہیں۔ نیویارک، ٹیکساس اور کیلیفورنیا میں موجود بیشتر پاکستانی ڈاکٹرز، انجینئر، آئی ٹی ماہرین اور وکلا کا شمار امیر ترین اور مؤثر افراد میں ہوتا ہے۔ یہ لوگ بزنس میں بھی نمایاں ہیں۔ کمیونٹی کے کاموں میں بھی آگے آگے ہیں اور امریکہ کی مقامی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ کوئی مقامی انتخابات میں حصہ لیتا ہے تو کوئی جسٹس آف پیس (Peace)منتخب ہوتا ہے۔ کوئی Lobbiestہے تو کوئی وائٹ ہائوس کا ایڈوائزر۔ ان پاکستانیوں کی اکثریت اپنے وطن اور ہم وطنوں کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتی ہے۔ ان کے اندر بظاہر اپنے ملک کے لیے درد ہے۔ اسے خوشحال، پر امن اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کچھ تنظیموں نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کئی قسم کے منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے چھوٹے پیمانے پر یہ کام آغاز کیا ہوا ہے اور کوشش کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کی قسمت بدلنے کے لیے غریب اور دیہی علاقوں میں کام کریں اور وہاں کے بچوں اور لوگوں کو تعلیم اور صحت کے میدان میں بنیادی ضروریات فراہم کریں۔
ان لوگوں میں ایک قسم ایسے افراد کی ہے جو اپنی زندگی میں اعلیٰ مقام پر پہنچ چکے ہیں اور اب وہ چاہتے ہیں کہ اپنے لوگوں اور ملک کے لیے کچھ کریں۔ وہ اس مقصد کے لیے فنڈز دینے یاچیریٹی کا سہارا لیتے ہیں۔ اس وقت امریکہ دنیا بھر میںچیریٹی جمع کرنے اور دوسرے ممالک میں بھیجنے کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔ اس وقت امریکہ میں موجود 13لاکھ پاکستانی کئی ملین ڈالرز پاکستان بھیج رہے ہیں۔ اس میں زیادہ تر پیسہ چیریٹی اور فنڈ ریزنگ کی مدد سے بھیجا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ تیس چالیس سال سے مسلسل جاری ہے۔ اس کے علاوہ امریکی حکومت نے بھی مختلف شعبوں میں پاکستان کی مدد کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ وہ لاکھوں ڈالرز ہر سال مختلف شعبوں میں خرچ کر رہا ہے لیکن اگر ہم اپنے گوشوارے کا جائزہ لیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ امریکی حکومت کے فنڈز،پراجیکٹس،چیریٹی کی فنڈنگ اور دوسرے بڑے منصوبوں کے لیے ڈونیشن اورفنڈ ریزنگ کے باوجود پاکستانی سماج کی مجموعی صورتِ حال ویسی کی ویسی ہی ہے۔ وہی بھوک، ننگ، بیماریاں، قحط، سیلاب، ناخواندگی، توانائی کا بحران، بے روزگاری، بُری حکمرانی، خراب انفراسٹرکچر، دہشت گردی، بد امنی، کرپشن، لاقانونیت، مسائل کا انبار، حادثوں اور سانحوں کا ایک نا مختتم سلسلہ، وہی مایوسی، وہی ٹوٹتے آدرش اور وہی قدم قدم پر شکستہ خواب۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ کن مقاصد کے لیے خرچ ہو رہا ہے؟ کون لوگ اس پیسے کو بھیج رہے ہیں اور کون سی تنظیمیں اس پیسے کو خرچ کرنے کی ذمہ دار ہیں۔کیا یہ پیسہ درست لوگوں تک پہنچ رہا ہے؟ کیا کوئی اس پیسے کی نگرانی کر رہا ہے؟ کیا یہ پیسہ شفاف انداز میں تقسیم ہو رہا ہے؟ حکومت پاکستان کے پاس ایسا کوئی نظام موجود ہے، نہ پیسہ بھیجنے والوں کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ یہ سب کچھ دیکھ سکیں۔ یہاں کے رہنے والے پیسہ اکٹھا کرنے میں بہت ماہر ہیں اور وہ بہت شوق سے یہ کام کرتے ہیں۔ مذہبی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ شاہد آفریدی آ جائے یا عمران خان، شہزاد رائے آجائے یا اخوت، یہ لوگ عطیہ دینے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں۔ تصویر کھنچواتے ہیں اور سکون سے گھر میں بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کی طرف سے فرض پورا ہو گیا۔ نام و نمود اور نمائس کا یہ سلسلہ جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا لیکن ان لوگوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ ان کا پیسہ کدھر گیا۔ یہ اس حوالے سے کبھی فکر مند بھی نہیں ہوتے۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ہم پوچھ لیں کہ ہمارا دیا ہوا پیسہ کدھر گیا۔ کہاں خرچ ہوا۔ خرچ ہوا بھی یا نہیں۔ یہ ایک عجیب و غریب رویہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس مجموعی پیسے کا صرف 5فی صد قابل حساب ہوتا ہے، باقی پیسے کا کوئی پتہ نہیں چلتا۔ میں نے کتنی تنظیموں کے نمائندوں اور صاحب ثروت افراد سے پوچھا کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ کا دیا ہوا پیسہ صحیح جگہ پر خرچ ہو رہا ہے؟ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
اس رویے اور صورت حال کا ایک اور منفی اثر یہ پڑا ہے کہ اس طرح کے کاموں نے اس قوم کے اندر پیسے مانگتے رہنے کی ایسی عادت پیدا کر دی ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ انفرادی سطح ہو یا تنظیمی، سماج کا معاملہ ہو یا قومی، ہم مجموعی طور پر بھیک مانگنے والا ایسا گروہ بن چکے ہیں جس کے پاس یہ کام کرنے کے لیے مختلف طریقے بھی ہیں اور حیلے بہانے بھی۔ اگر حکومت کا اس میں کردار بنتا ہے تو امریکہ میں رہنے والے پاکستانی بھی اپنی قوم کا یہ امیج بنانے میں پیچھے نہیں رہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں