انتظار فرمائیے!

میرے ساتھ سکول میں جو دوست پڑھتے تھے ان میں سے کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا‘ کوئی انجینئراور کوئی پائلٹ۔ جو ڈاکٹر بننا چاہتا تھااس نے آرٹس رکھی ہوئی تھی‘ جو انجینئر بننا چاہتا تھاوہ آج کل 'انجیر‘ کا ہول سیل ڈیلر ہے اور جس نے پائلٹ بننا تھا وہ جہاز بن چکا ہے۔صرف ایک میں ہی ہوں جس نے پہلے دن سے ٹھان لی تھی کہ سائنسدان بننا ہے اور آج الحمدللہ میں کالم نگار ہوں۔ہمارے سکول میں کچھ ایسے لڑکے بھی پڑھتے تھے جن کا کام ہی اپنے سے کمزور کی ٹھکائی کرنا تھا‘ یہ لمبے تڑنگے لڑکے فٹ بال کے کھلاڑی تھے اور انہیں 'فٹ بالر‘ کہا جاتا تھا۔ سکول میں جب کسی لڑکے نے دوسرے کو دھمکی لگانی ہوتی تھی تو یہی کہتا تھا'‘میں ابھی لاتا ہوں فٹ بالر کو...‘‘ گویا فٹ بالر کا لفظ بدمعاش کے ہم معنی تھا۔یہ فٹ بالرلڑکے ہر وقت غیظ وغضب میں ڈوبے رہتے تھے۔ہماری کلاس میں باری باری ہرلڑکے کو کلاس کی صفائی کرنا ہوتی تھی تاہم جب کسی فٹ بالر کی باری آتی تو وہ بڑے دھڑلے سے کسی دوسرے لڑکے کی طرف گھور کر دیکھتا اور لڑکا فوراً جھاڑو پکڑ کر کام میں مشغول ہوجاتا۔اِن فٹ بالرز سے اساتذہ بھی ڈرتے تھے کیونکہ یہ کم بخت چھ چھ سال سے میٹرک میں پھنسے ہوئے تھے اور بیٹھے بٹھائے بڑے ہوگئے تھے۔ایک فٹ بالر کا نام 'سعید ‘ تھا۔ یہ بندہ مجھے اس لیے بھی نہیں بھولتا کہ ایک دفعہ اس کی صفائی کی باری تھی‘ اس نے اپنی بجائے مجھے صفائی کرنے کے لیے کہا‘ میں چونکہ انتہائی خوددار اور غیرت مند انسان تھا اس لیے فوراً انکار کر دیا۔ اس کے بعد سعید نے میری ناک پر اتنے زور سے مکا مارا کہ آدھے گھنٹے تک میرے کانوں میں ایسی آوازیں گونجتی رہیں جیسے ڈائل اپ انٹرنیٹ کنیکٹ ہوتے وقت آتی تھیں۔ہوش بحال ہوئے تو میں نے قہر آلود نظروں سے سعید کی طرف دیکھا...آہستہ آہستہ آگے بڑھا...سینہ پھلایا...آستینیں چڑھائیں...اور جھاڑو اٹھا کر صفائی شروع کر دی۔سعید کی بے اختیار ہنسی نکل گئی...!!!
پھر اس کے بعد سعید میرا بڑا اچھا دوست بن گیا‘ جب بھی میری صفائی کی باری ہوتی وہ کسی اور لڑکے سے یہ مشقت کروا لیتا۔ سعید کو پڑھائی لکھائی سے سخت نفرت تھی‘ ایک دفعہ اس نے مجھے بتایا کہ جب تک وہ کسی کی پھینٹی نہیں لگا لیتا اس کا دن نہیں گزرتا۔اس کی یہ بات سن کر میں سہم گیا۔یہ بات واقعی سچ تھی کیونکہ اکثر جب اسے کوئی پھینٹی لگانے کے لیے نہیں ملتا تھا تو وہ للچائی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھتا تھا اور میں ہانپتا کانپتا اس کے لیے کسی نہ کسی شکار کا انتظام کردیتا جس کے بعد وہ میرا نہایت شکر گزار ہوتا۔میٹرک کے بعد سعید سے میرا رابطہ کٹ گیا کیونکہ حسب روایت سعید اپنی کلاس اور سکول چھوڑنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ ہی نہیں ہوا۔پھر ایک دن پتا چلا کہ سعید نے میٹرک کلیئر کرلیا ہے اور اب کالج میں آیا چاہتا ہے۔ اس نے کالج بھی وہ جوائن کیا جو بدمعاشی کے اعتبار سے ملتان کا نمبرون کالج تھا۔یہاں بھی اس نے اپنی دھاک بٹھائے رکھی ۔ 
گزشتہ دنوں مجھے بتیس سال بعد سعید نظر آیا۔ پہلے تو میں اسے پہچان ہی نہیں سکا‘ لیکن پھر ایک پرانے دوست کو اس کی لاش کے قریب دیکھا تو چونک گیا۔ دوست نے بتایا کہ یہ ہمارا کلاس فیلو سعید ہے۔ سعید کی لاش پولیس کے ڈالے میں پڑی تھی‘ پورا جسم گولیوں سے چھلنی تھا اور کپڑے لہولہان ہورہے تھے۔میں نے دوست سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ پتا چلا کہ سعید باقاعدہ ڈاکو بن گیا تھا اورملتان کے نواحی علاقے میں اس نے اپنی دہشت پھیلا رکھی تھی۔ پولیس کافی عرصے سے اس کے پیچھے تھی۔ اس کی بدقسمتی کہ ایک ڈاکے کے دوران پولیس نے اسے دھر لیا اور بھاگنے سے پہلے ہی اس کے جسم میں دس پندرہ گولیاں اتار دیں۔ سچ پوچھیں تو سعید کے انجام کے بارے میں ہم سب دوستوں کو سکول کے دور ہی سے پتا تھا۔ سعید تب بھی غنڈہ تھا‘ بعد میں بھی غنڈہ بنا۔
ایک اور دوست فضل قادر تھا جسے موسیقی اچھی لگتی تھی‘ جسے آرٹ پسند تھا...یہ سیدھے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے میز بجایا کرتا تھا‘ ملتان سٹی ریلوے سٹیشن پر ہم دونوں اُس دور کے سستے سگریٹ خرید کر کسی پرانے سے بنچ پر بیٹھ جاتے اور گانے گایا کرتے تھے۔ فضل قادر گلوکار تو نہیں بن سکا لیکن اس کے اندر موسیقی والی لطافت ضرور در آئی‘ اسی لطافت نے اسے محبت اور نرم خو بنا دیا۔ آج سے بتیس سال پہلے کا فضل قادر فن و ثقافت سے پیار کرتا تھا‘ آج اس کی پوسٹس میں بھی پیار کے پھول جھڑتے ہیں‘ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے ماضی کے مقبول گیت شیئر کرتاہے اور اپنی سکول والی طبیعت کے مطابق مزید حلیم طبع بن چکا ہے۔
سکول کے دور میں بے شمار دوست ایسے ہوتے ہیں جن کے رویے ہی ان کے مستقبل کے عزائم کی خبردینے لگتے ہیں۔ہمارے بے شمار موجودہ مسائل آج سے بیس تیس سال پہلے پیدا ہوئے تھے جو پرورش پاتے پاتے آج تناور درخت بن چکے ہیں۔ہم سکولوں میں پڑھا کرتے تھے کہ ملک کے لیے ڈیم کتنے ضروری ہیں ‘ پانی کی کیا اہمیت ہے‘ اُس وقت تازہ تازہ فیملی پلاننگ کے اشتہارات چلنے شروع ہوئے تھے جن میں بتایا جاتا تھا کہ 'بچے دو ہی اچھے‘۔آج کے دہشت گردوں کی کیسٹ ریوائنڈ کیجئے تو یہ اُس دور میں بھی ایسے ہی رویوں کے حامل رہے ہوں گے‘ ان کی زندگی کے بے شمار کنکشن اِن کی گزشتہ زندگی سے جڑے ہوں گے جن کی جھلک آج سے پچیس تیس سال پہلے ہی نظر آنا شروع ہوگئی ہوگی لیکن ہمیں کبھی اندازہ نہیں ہوپاتا کہ یہ چیزیں آگے چل کے کیا قیامت ڈھاتی ہیں۔یقینا کئی دوست ایسے بھی ہوتے ہیں جو آگے چل کر اپنی طبیعت کے بالکل برخلاف نکلتے
ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ عموماً جس کی جس طرح کی تربیت ہوجاتی ہے وہ مستقبل میں اپنے شعبے میں بھی وہی انداز اپناتاہے۔ یاد کیجئے وہ دوست جو ہر وقت غصے میں رہتے تھے ‘ وہ اگر آج ڈاکٹر بھی بن گئے ہوں گے تو ان کے مزاج کی تلخی اب بھی برقرار ہوگی۔ جو بہت زیادہ بولتے ہوں گے وہ آج بھی بے تکان بولتے جاتے ہوں گے۔جو بچپن میںباقاعدگی سے چھوٹی موٹی چیزیں چرایا کرتے تھے وہ آج انتہائی صفائی سے بڑی بڑی چیزیں چرانے کا فن سیکھ چکے ہوں گے۔گندم کے بیج بوئے جائیں تو کپاس نہیں اُگتی...حادثے کی پرورش کرنے کے لیے وقت کو برسوں لگ جاتے ہیں‘ جو چیز آج بوئی جارہی ہے اس کے نتائج آنے میں کچھ برس تو لگیں گے۔یونیورسٹیوںں میں پڑھنے والے بہت سے نوجوان ڈاکٹر بنیں گے‘ انجینئر بنیںگے‘ جج بنیں گے ۔انہی میں سے کوئی سیاست کا میدان اختیار کرے گا اورکسی کے ہاتھ اقتدار کا ہما آئے گا۔ظاہری بات ہے جس کا جو مزاج ہوگا وہ اس کی ذاتی زندگی میں بھی ساتھ ساتھ چلے گا۔آپ کا دل کیا کہتاہے‘موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے آج سے بیس سال بعد کا منصف کیسا ہوگا‘ مسیحا کیسا ہوگا‘ عالم کیسا ہوگا‘ طالبعلم کیسا ہوگا‘ اُستاد کیسا ہوگا‘ تعلیمی اداروں کے سربراہ کیسے ہوں گے‘ لبرل کیسے ہوں گے‘ مذہبی کیسے ہوں گے‘قوت برداشت کا کیا عالم ہوگا؟انتظار فرمائیے‘ ہم میں سے بہت سے لوگ شائداپنی زندگی میں ہی یہ نتائج پائیں ۔تب ہم لوگ ایک بار پھر نئی نسل کو بتارہے ہوں گے کہ یہ جوسانحہ ہوا ہے اس کے ذمہ دار وں کا برسوں پہلے تعین ہوچکا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں