خاموش رہنا ہی بہتر ہے!

شہزاد خاموش ہوگیا ...مجھے لگا جیسے میرے پاس بھی الفاظ ختم ہوچکے ہیں!!
لاہور کے علاقہ اچھرہ میں ایک پرانا شاپنگ سنٹر ہے جس کے اندر رہائشی فلیٹس بھی ہیں۔ آج سے بیس سال پہلے مجھے وہاں ایک فلیٹ میں رہنے کا موقع ملا۔ یہاں ایک حاجی صاحب تھے جنہوں نے یہ فلیٹ 12 سو روپے کرائے پر لیا ہوا تھا اور اُس میں آگے دس لڑکے رکھے ہوئے تھے جن سے موصوف پانچ پانچ سو روپے کرایہ لیتے تھے۔ گویا 12 سوروپے کرایہ دینے کے بعد بھی حاجی صاحب کے پاس 38سو روپے بچ جاتے تھے جو اُس دور میں اچھی خاصی رقم تھی۔ مجھے بھی پانچ سو روپے میں یہاں رہنے کی جگہ ملی۔ اس فلیٹ کے دو کمرے تھے اور عین چھڑوں کے مطابق تھے یعنی پہلا کمرہ کاٹھ کباڑ سے بھرا ہوا تھا اور دوسرے کمرے میں 10 لڑکے بمشکل سمٹ کر سوتے تھے۔ گرمیوں میں ہم سب شاپنگ سنٹر کی چھت پر چلے جاتے جہاں پورے پلازہ کے رہائشی لوگ کھلی فضا میںسوتے تھے‘ ایک طرف خواتین کے لیے مخصوص تھی اور دوسری طرف مرد حضرات چٹائیاں بچھا کر گپ شپ لگاتے ہوئے سو جاتے۔ پلازہ کی بڑی سی ٹینکی پر بھی ایک منڈلی جمتی تھی جہاں ایک لڑکا منہ سے طبلہ بجاتا تھا اور باقی انتہائی بھونڈی آواز میں گانا گاتے تھے۔ صبح جونہی سورج کی پہلی کرن نمودار ہوتی، سب اپنا اپنا بوریا بسترا سمیٹ کر اپنے اپنے فلیٹ میں آکر پھر سے سوجاتے۔ ایک دن اسی ترتیب سے میری آنکھ کھلی تو مجھے لگا جیسے میری ٹانگ کے اوپر کوئی بھاری شہتیر پڑا ہوا ہے۔ بمشکل گرد ن گھما کر دیکھا تو شدید غصہ آیا‘ ایک انجان ‘ موٹا سا لڑکا اطمینان سے ٹانگیں پھیلا کر سویا ہوا تھا اور اس کی بائیں ٹانگ
میری ٹانگ کے اوپر تھی۔ میں نے اسے ہلایا جلایا لیکن کم بخت ہڑبڑا کر پھر سوجاتا تھا۔ میں نے بڑی تگ و دو کے بعد اپنی ٹانگ اُس کی ٹانگ سے آزاد کرایااور اسے جھنجوڑ کر اٹھایا۔ وہ اُٹھ تو گیا لیکن شدید غصے میں تھا۔ اس سے پہلے کہ ہماری لڑائی ہوجاتی‘ حاجی صاحب بھی اٹھ گئے اور انہوں نے سمجھایا کہ یہ لڑکا بھی اب ہمارے فلیٹ میں ہی رہے گا۔ میں حاجی صاحب سے الجھ پڑا کہ پہلے ہی ضرورت سے زیادہ لڑکے آپ نے بھرے ہوئے ہیں اوپر سے ایک اور لڑکا کیسے یہاں ایڈجسٹ ہوگا۔ یہ سنتے ہی موٹے لڑکے نے گھور کرمیری طرف دیکھا اور بولا'تینوں تکلیف اے تے توں ایتھوں نکل جا‘۔ اللہ جانتا ہے مجھے بڑا وٹ چڑھا ‘لیکن اس کی صحت دیکھ کر میں نے اسے منہ لگانا مناسب نہیں سمجھا۔ کچھ دنوں بعد انکشاف ہوا کہ یہ موٹا لڑکا مفت میں رہ رہا ہے‘ میں نے ایک دن اس سے وجہ پوچھی تو پہلی دفعہ یہ انکشاف ہوا کہ فلیٹ کے مالک حاجی صاحب نہیں بلکہ کوئی اور ہیں اور حاجی صاحب ان کے علم میں لائے بغیر دس کرائے دار رکھ کر نئی طرز کا بزنس کر رہے ہیں۔چونکہ موٹے کو اس بات کا پتا ہے اس لیے حاجی صاحب اسے رکھنے پر مجبور ہیں۔ میں نے حاجی صاحب سے ذکر کیا تو وہ یکدم بوکھلا گئے اور درخواست کی کہ کسی اور کرائے دار کو اس بات کی خبر نہ ہونے پائے ۔ اس کے بدلے حاجی صاحب نے میرا بھی پانچ سو روپے کرایہ انتہائی سخی دل سے معاف کر دیا۔
اس موٹے لڑکے کا نام شہزاد تھا‘ بعد میں یہی میرا جگری دوست بنا...اور اب تک ہے۔ شہزاد نے زندگی کی بہت سی تلخیاں میرے ساتھ دیکھی ہیں۔ اسے کمپیوٹر کا جنون کی حد تک شوق تھا‘ آئی ٹی اس کی رگ رگ میں بھری ہوئی تھی۔ پھر اس کے ساتھ وہی ہوا جو ہر محنتی انسان کے ساتھ ہوتاہے‘ ترقی نے اس کے قدم چومے اور اس کی ایمانداری اور کشادہ دلی نے اسے آج اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں یہ خود ایک آئی ٹی کمپنی کا مالک ہے۔ پہلے ہماری بڑی ملاقاتیں رہتی تھیں‘ اب وقفہ آگیا ہے۔ دونوں مصروف ہوگئے ہیں‘ اس کے باوجود دو تین ماہ بعد جب بھی ملاقات ہوتی ہے‘ نئی نئی باتیں ڈسکس ہوتی ہیں۔ شہزاد کی کمپنی غیر ملکی ویب سائٹس بناتی ہے جس میں امریکہ سرفہرست ہے۔ پچھلے سال رمضان میں اسے ایک امریکی کلائنٹ نے امریکہ بلایا تھا۔ شہزاد ہمیشہ سے روزے رکھتاآیا ہے۔ امریکہ میں بھی اس کی یہ عادت برقرار رہی...آگے کی کہانی اب شہزاد کی زبانی سنئے...!!!
''میرا کلائنٹ ایک نوجوان امریکی ''گریگ‘ تھا‘ مجھے اس نے اپنے گھر میں ٹھہرایا تھا جہاں وہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک شام اس نے اپنی ماں سے کہا کہ مجھے سخت بھوک لگی ہے ‘ میرے اور شہزاد کے لیے کھانا بنا دیں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ میرا روزہ ہے لہٰذا میں سورج غروب ہونے سے پہلے کچھ نہیں کھاسکتا۔ یہ سن کر گریگ نے ہنستے ہوئے میری طرف دیکھا اور بولاکہ مجھے تو سخت بھوک لگی ہے ۔ میں نے خوشدلی سے اسے کہا کہ تم بلاتکلف کھانا کھائو۔ یہ سن کر گریگ نے اپنی ماں سے کہا کہ کیوں نہ آج ہوٹل میںکھانا کھائیں؟ اس کی ماں نے بھی ہاں میں ہاں ملائی ۔ کچھ دیر بعد میں‘ گریگ اور اس کی ماں گاڑی میں بیٹھے ہوٹل جارہے تھے۔ گریگ واشنگٹن کی سڑکوں پر گاڑی دوڑارہا تھا لیکن اسے کوئی ہوٹل پسند نہیں آرہا تھا۔ میں حیران تھا کہ یہ تو پیدا ہی واشنگٹن میں ہوا ہے‘ پھر اسے کوئی مطلوبہ ہوٹل کیوں نہیں مل رہا‘ پھر خیال آیا کہ آخر وہ کوئی خاص ہوٹل ڈھونڈ رہا ہے تو اس کی وجہ بھی ہوگی۔ ایک گھنٹے تک گاڑی ادھر ادھر گھمانے کے بعد آخر اس نے ایک ہوٹل پسند کر ہی لیا‘ حالانکہ اس ہوٹل کے سامنے سے ہم چھ سات بار گزر ے تھے۔ ویٹر نے مینو پیش کیا تو گریگ اور اس کی ماں میں نئی بحث شروع ہوگئی۔ جوکھانا گریگ پسند کرتا‘ ماں اسے مسترد کر دیتی اور جوچیز ماں کو پسند آتی اس پر گریگ ناک بھوں چڑھانا شروع کر دیتا۔ میں حیرت اور دلچسپی سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ان کی یہ جنگ آدھے گھنٹے تک جاری رہی‘ بالآخر دونوں نے مجھ سے فیصلہ لیا...میں نے ہنس کر کہا کہ میں توافطاری میں کوئی فش وغیرہ ہی کھائوں گا‘ باقی آپ لوگ جو بھی کھانا چاہتے ہیں منگوا لیں۔دونوں نے اپنے اپنے لیے آرڈر دے دیا اور میرے لیے فش منگوا ئی۔ویٹر آرڈر لے کر چلا گیا تو گریگ کی ماں مجھ سے پوچھنے لگی کہ کیا تمہیں روزے میں بھوک نہیں لگتی؟ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ لگتی تو ہے لیکن برداشت کرنا پڑتی ہے۔گریگ یکدم بولا'مجھ سے تو ایک منٹ بھی بھوک برداشت نہیں ہوتی‘۔ میں نے قہقہہ لگایا‘ لیکن تم پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے شدیدبھوکے ہو اور ابھی تک کچھ نہیں کھایا۔ گریگ نے بھی جوابی قہقہہ لگایا اور ویٹر کی طرف اشارہ کرکے بولا'وہ دیکھو...بس کھانا آنے ہی والا ہے‘ تم کب کھائو گے؟ میں نے اپنے موبائل کی طرف اشارہ کیا‘ جب اس کا الارم بولے گا تب کھائوں گا ۔ پندرہ بیس منٹ بعد ویٹر نے کھانا میز پر چن دیا۔ گرما گرم کھانا ان کے سامنے تھا لیکن وہ کھا نہیں رہے تھے‘ میں نے وجہ پوچھی تو گریگ نے کہا کہ 'مسٹر شہزاد! تمہارا روزہ کب کھلے گا؟‘‘۔ میں نے چونک کر موبائل کی طرف دیکھااور بتایا کہ ابھی دو منٹ رہتے ہیں۔ گریگ اور اس کی ماں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اوریک زبان ہوکر بولے'تو پھر دو منٹ بعد ہی کھانا شروع کرتے ہیں...!!!‘‘
شہزاد خاموش ہوگیا اور مجھے لگاجیسے میرے پاس بھی الفاظ ختم ہوچکے ہیں...!!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں