بدحواس لوگوں کی نشانیاں

بدحواس لوگوں کی کئی قسمیں ہیں‘ ایک تو وہ ہیں جن کو اگر سوتے میں اُٹھا دیا جائے تو ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ اُٹھانے والا خود بد حواس ہو جاتا ہے۔ میرے گھر کی پچھلی گلی میں شیروانی صاحب رہتے ہیں۔ اُنہیں بھی یہی بیماری ہے۔ ایک دفعہ ان کی بیگم کو سخت بخار تھا۔ رات کو پیاس لگی تو شیروانی صاحب کو ہلایا اور بولیں ''ایک گلاس پانی تو لا دیں‘‘۔ یہ سنتے ہی شیروانی صاحب ایک چیخ مار کر کھڑے ہو گئے‘ بوکھلا کر بیگم کی طرف دیکھا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے چلائے ''کون... کدھر سے... بارش... انڈے... قیمے والا نان... جون جولائی اگست‘‘۔ اُن کی یہ لیٹ نائٹ بکواس سن کر بیگم صاحبہ کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور جلدی سے بولیں ''اجی ہوش کریں... میں نے تو صرف پانی مانگا ہے...‘‘ یہ سنتے ہی شیروانی صاحب پھولی ہوئی سانس کے ساتھ چلائے ''فیس بک... ٹوئٹر... یوں تو پریمی پچھتر ہمارے... گوری گھونگٹ میں شرمائے...‘‘ اور جلدی سے بیگم کا گلا دبوچ لیا۔ سنا ہے بیگم نے ان کی گال پر نہایت عزت و احترام سے ڈیڑھ من وزنی چانٹا رسید کیا تھا۔ تب کہیں جا کر شیروانی صاحب کی واپسی ہوئی تھی۔
کچھ لوگ آدھی بات سن کر ہی بد حواس ہو جاتے ہیں۔ میرے ماموں کے لڑکے کو اگر صرف اتنا ہی کہہ دیا جائے کہ ''جاپان میں زلزلہ آیا ہے اور...‘‘ تو صرف اتنا سنتے ہی اُس کی چیخیں نکل جاتی ہیں‘ ننگے پائوں بھاگتا ہوا سڑک پر آ جاتا ہے اور چیخ چیخ کر ساری دنیا کو اکٹھا کر لیتا ہے۔ اسی قسم کے ایک صاحب آٹھ منزلہ بلڈنگ کی چھت پر کھڑے تازہ ہوا کا مزا لے رہے تھے کہ کوئی زور سے چیخا ''اوئے شریفے! تیری بیوی جنتے گھر سے بھاگ گئی ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی موصوف کے جسم میں بجلی سی بھر گئی۔ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو‘ غیرت کے مارے وہیں سے نیچے چھلانگ لگا دی‘ گرتے گرتے چھٹی منزل پر پہنچے تو یاد آیا کہ میری بیوی کا نام تو جنتے نہیں... چوتھی منزل پر پہنچے تو یاد آیا کہ میری تو ابھی شادی ہی نہیں ہوئی... اور زمین سے بیس فٹ کے فاصلے پر تھے جب یاد آیا کہ میرا نام تو امجد ہے...!!!
کچھ لوگ موسمی بد حواس ہوتے ہیں۔ زیادہ گرمی یا زیادہ سردی میں اِن کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ یہ گرمی میں ''آدھے بازوئوں والی‘‘ دھوتی بھی پہن لیں تو اِن کی گرمی نہیں جاتی۔ یہ ہر دو منٹ بعد گنے کا رس پیتے ہیں‘ کچی لسی کے گلاس حلق میں اتارتے ہیں‘ فریزر کھول کر اندر منہ رکھ دیتے ہیں‘ بالٹی میں بیٹھ جاتے ہیں‘ بنیان اتار کر فرش پر لیٹ جاتے ہیں لیکن گرمی سے تڑپتے ہی رہتے ہیں۔ ایسے لوگ ائیرکنڈیشنڈ بس میں بھی سفر کر رہے ہو تو اپنی گرمی پوری بس کو منتقل کر دیتے ہیں۔ سواریاں ڈرائیور کو کوسنے دے رہی ہوتی ہیں کہ تم نے اے سی بند کیا ہوا ہے۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ پچھلی سیٹوں پر کوئی گھٹیا انسان دو گھنٹے سے تازہ ہوا کے چکر میں کھڑکی کا شیشہ کھولے بیٹھا ہے۔ ایسے لوگ سردی کے موسم میں بھی مرنے والے ہوئے ہوتے ہیں۔ دو دو جرابیں پہن لیں گے۔ ٹائٹس‘ ہائی نیک‘ اوپر جرسی‘ اُس کے اوپر اوور کوٹ‘ اُس کے اوپر مفلر‘ سر پر اونی ٹوپی‘ ہاتھوں میں دستانے‘ تاہم یہ سب پہننے کے باوجود اِن کی سردی نہیں اترتی لہٰذا کھڑی موٹر سائیکل سٹارٹ کر کے اس کے سائلنسر پر ہاتھ سینکتے رہتے ہیں۔ اتنی بھرپور تیاریوں کے بعد یہ اطمینان سے کہہ دیتے ہیں ''ہُن او سردیاں ای نئیں رہیاں‘‘۔
کچھ لوگ بیماری کے معاملے میں بڑے بد حواس ہوتے ہیں۔ اِن کے گھٹنے میں بھی موچ آ جائے تو ان کو یقین ہو جاتا ہے کہ اِنہیں ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے۔ ایسے بد حواس لوگ آپ کو ہسپتالوں اور کلینکس میں بہت ملیں گے۔ تھوڑی سی بھی تکلیف ہو تو اِن کی ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔ ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اُسے بھی پاگل کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب... جلدی سے میرا کچھ کریں‘ میں مرنے والا ہوں... مجھے عجیب سی بیماری لگ گئی ہے... میرا پورا جسم درد کر رہا ہے... جہاں انگلی لگاتا ہوں درد کی لہر اٹھتی ہے... بعد میں پتا چلتا ہے موصوف کا سارا جسم ٹھیک تھا‘ صرف انگلی میں درد تھا۔ ان پڑھ خواتین اِس معاملے میں اور بھی دو ہاتھ آگے ہوتی ہیں۔ یہ ڈاکٹر کو صرف فیس دینے جاتی ہیں ورنہ بیماری اور علاج اِن کو خود پتا ہوتا ہے ''ڈاکٹر صاحب! مجھے کل سے سر میں درد ہے‘ بخار سر کو چڑھ گیا ہے اور گلا بھی خراب ہے‘ شیشی میں ساتھ لائی ہوں‘ لال دوائی دے دیں‘‘۔
کچھ لوگ فون سننے میں بلا کے بد حواس ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ یا خود بد حواسی کا شکار ہو جاتے ہیں یا دوسرے کو بد حواس کر دیتے ہیں‘ فون اٹھاتے ہی ان کی بد حواسی کا پریڈ شروع ہو جاتا ہے ''ہیلو... کون... ہیں؟... کون جمیل؟... اچھا آپ جمیل ہیں... کیا کہا؟... جمیل سے بات کرنی ہے... کروا دیتا ہوں... لیکن کون جمیل؟؟‘‘ اسی قسم کی صورتحال پرسوں میرے ساتھ بھی پیش آ چکی ہے۔ میرا نام ایسا ہے کہ اکثر لوگ ''گلریز‘‘ یا ''نوریز‘‘ سمجھتے ہیں‘ میں بھی کچھ نہیں کہتا‘ اب تو عادت سی ہو گئی ہے لیکن پرسوں میں نے زندگی کا عجیب و غریب جواب سنا جسے سن کر ڈیڑھ منٹ تک میرے ہوش و حواس گم رہے۔ میں نے ایک دوست کو لینڈ لائن پر فون کیا۔ اُس کے والد صاحب نے اٹھایا اور کہنے لگے کہ وہ تو گھر پر نہیں‘ آپ اپنا نام بتا دیں‘ میں نے کہا ''کوئی بات نہیں‘ جب وہ آئے تو بتا دیجئے گا کہ نوخیز کا فون تھا‘‘۔ یہ سنتے ہی وہ چونک کر بولے ''کیا نام بتایا؟ عبدالرشید قریشی؟؟؟‘‘
کچھ لوگ کھانے میں بڑے بد حواس ہوتے ہیں‘ یہ جتنے مرضی ڈیسنٹ بن کے بیٹھے ہوں‘ کھانا سامنے آتے ہی اِن کے پورے جسم پر دانت اُگ آتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نابینا حافظ صاحب اپنے شاگرد بچوں کے ہمراہ ایک گھر میں ختم پڑھنے کے لیے گئے اور اپنے سب سے قریبی شاگرد کو سمجھا دیا کہ پُتر! جیسے ہی کھانا کھلے‘ مجھے ہلکی سی کہنی مار دینا۔ شاگرد نے تسلی دی کہ فکر نہ کریں۔ جیسے ہی ختم ''ختم‘‘ ہوا‘ میزبان نے دستر خوان سجا دیا‘ سب لوگ دستر خوان کے ارد گرد بیٹھ گئے‘ حافظ صاحب بے چینی سے ''کہنی‘‘ کا انتظار کرنے لگے۔ میزبان نے کچھ اور مہمان بھی بلائے ہوئے تھے۔
بھنی ہوئے مرغی کی خوشبو سے ماحول معطر ہوا جا رہا تھا‘ کھانا ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ میزبان صاحب اندر سے پانی کا جگ لینے گئے اور اتنے میں دو تین اور مہمان آ گئے‘ لہٰذا سب کو تھوڑا تھوڑا اور سمٹ کر بیٹھنا پڑ گیا‘ اِسی سمٹا سمٹائی میں حافظ صاحب کے شاگرد کی کہنی غلطی سے حافظ صاحب سے ٹکرا گئی۔ حافظ صاحب نے چونک کر چہرہ اوپر کیا‘ آستینیں چڑھائیں اور بلند آواز سے بسم اللہ کہہ کر ڈونگے میں ہاتھ ڈالا اور ٹٹول ٹٹول کر لیگ پیس اٹھا لیا‘ شاگرد گھبرا گیا اور کھسیانا ہو کر حافظ صاحب کو دوبارہ کہنی ماری‘ حافظ صاحب سمجھے شاید سپیڈ تیز کرنے کا اشارہ ہے۔ انہوں نے جلدی سے دوسرا ہاتھ بھی ڈونگے کی طرف بڑھایا اور چیسٹ کی بوٹی دبوچ لی اور دیوانہ وار کھانے لگے۔ سب لوگ حیرت سے حافظ صاحب کو دیکھنے لگے۔ شاگرد نے گھبرا کر تین چار کہنیاں ماریں۔ حافظ صاحب بوکھلا کر چلائے ''اوئے کی ہو گیا اے‘ آہستہ کھائو‘ کیوں پاگل ہو گئے ہو؟؟؟‘‘

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں