غصہ آرہا ہے؟ نوپرابلم!

ہم پانچ دوستوں نے ایک چھوٹے سے کمرے میں ''ریسرچ روم‘‘ بنایا ہوا ہے۔ آپ اسے بحث مباحثے کی جگہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہم ہفتے میں ایک دن یہاں اکٹھے ہوتے ہیں اور کسی موضوع پر سیرحاصل بحث کرتے ہیں۔شروع شروع میں ہمیں بڑی پریشانی ہوتی تھی کہ جیسے ہی کسی موضوع پر بحث شروع ہوتی تھی‘ نہ چاہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی دوست کی آواز اونچی ہوجاتی تھی اور بحث ‘ دلیل کے دائرے سے نکل کر غصے کی شکل اختیار کر لیتی تھی۔
ہم پانچوں کو اس بات کا احسا س تھا ‘ ہم سب حتی المقدور کوشش کرتے تھے کہ آواز اونچی نہ ہونے پائے‘ لیکن کسی موضوع پر پُرجوش ہوتے ہی ہماری آواز خودبخود بلند ہونا شروع ہوجاتی تھی۔ہمیں بڑی مشکل پیش آتی تھی کہ ہم اپنے غصے پر کیسے کنٹرول کریں‘پھر ہم نے اس کا ایک سائنسی حل ڈھونڈ نکالا‘ ایک الیکٹریشن سے بات کی ‘اُس نے کمال مہارت سے ہمیں ایک ایسا ریکارڈنگ سسٹم تیار کر کے دیا کہ جیسے ہی کسی کی آواز بلند ہوتی ہے ‘ وہ ریکارڈنگ کرنا چھوڑ دیتاہے۔
طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ ہم پانچوں دوست مائیک والا ہیڈ فون لگا کر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ جاتے ہیں‘ جس موضوع پر بحث ہونا ہوتی ہے‘ اُس کی مکمل تیاری کرلی جاتی ہے اور موضوع بھی پہلے سے بتا دیا جاتاہے۔بحث والے روز سب ہیڈ فون پہن لیتے ہیں‘ ہمیں ایک دوسرے کی آواز صرف ہیڈ فون میں ہی سنائی دیتی ہے‘ ریکارڈنگ سسٹم آن کر دیا جاتاہے اور بحث کا آغاز ہوجاتاہے‘ جونہی کوئی دوست جذباتی ہوکر تھوڑا سا اونچا بولنے کی کوشش کرتاہے‘ ایک سرخ بتی جل اٹھتی ہے ‘جو اس بات کی نشانی ہے کہ اس کی آواز کی ریکارڈنگ بند ہوگئی ہے‘ جونہی اس کی ریکارڈنگ بند ہوتی ہے‘ ہمارے ہیڈ فونز میں بھی اس کی آواز آنا بند ہوجاتی ہے‘ مجبوراً وہ فوراًاپنی آواز دھیمی کرتاہے اور سلسلہ پھر سے شروع ہوجاتاہے۔آپ بھی تجربہ کرکے دیکھ لیجئے‘ اگر آپ دھیمی آواز میں غصہ کریں گے‘ تو وہ کسی صورت دوسرے کو غصہ محسوس ہی نہیں ہوتا۔ غصہ نام ہی اونچی آواز میں بولنے کا ہے۔ سو‘ ہم اب کم ازکم اپنے ''ریسرچ روم‘‘ کی حد تک غصے پر قابو پاچکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عملی زندگی میں اس مصیبت سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے؟آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمیں غصہ کیوں آتاہے؟ ہمارے ہر غصے کے پیچھے ایک محرک ہوتاہے‘یہ محرک جسمانی بھی ہوسکتا ہے اور ذہنی بھی‘ مثلاً: اگر میں بھوکا ہوں ‘ میری جیب میں کھانے کے پیسے بھی نہیں ہیں ‘تو لامحالہ میری ایک جسمانی ضروررت پوری نہیں ہوئی ‘لہٰذا جب تک یہ ضرورت پوری نہیں ہوجاتی‘ میں کسی بھی وقت غصے کی حالت میں آسکتا ہوں ‘ اسی طرح اگر میں نے گھر کا کرایہ دینا ہے اور کرائے کے پیسے پورے نہیں ہو پارہے ‘تو میں ایک ذہنی خلفشار کا شکار رہوں گا ‘ یہ ٹینشن بھی میرے لیے غصے کا باعث بن سکتی ہے۔دیر سے سونا‘ ے وقت کھانا‘بلاوجہ کھانا اورکام کا بوجھ بھی غصہ دلانے والی صورتحال پیدا کرسکتے ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ دوستوں کی محفل میں ہمارے دوست ہمیں بات بے بات گالیاں نکالتے ہیں ‘لیکن ہمیں غصہ نہیں آتا‘ لیکن سڑک پر اگر کوئی ہمیں گھور کر بھی دیکھے تو ہم لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں؛ حالانکہ غصہ ایک ایسا انتقام ہے‘ جو ہم خود سے ہی لیتے ہیں۔یاد رکھئے‘ غصہ صرف اپنے سے کمزور اور ناواقف پر ظاہر ہوتاہے‘ ہم میں سے کتنے ہیں ‘جو اپنے باس پر غصے میں برس پڑتے ہوں؟کسی خوبصورت چہرے کو دیکھ کر بھی ہمارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتاہے۔ کوئی ہم سے شرمندہ ہوکر معافی مانگ لے ‘تو بھی ہم یکدم نارمل ہوجاتے ہیں‘ ثابت ہوا کہ غصہ صرف وقتی ہوتا ہے اوراگر ہماری ضرورت پوری ہوجائے تو غصہ بھی ایک سیکنڈ میں ختم ہوجاتاہے۔
آپ نے اکثر اخباروں میں خبریں پڑھی ہوں گی کہ شقی القلب شوہر نے غصے میں آکر اپنے بیوی بچوں کو قتل کر دیا‘ ایسے لوگ جونہی قتل جیسا ارتکاب کرتے ہیں‘ فوراً ان کا غصہ شرمندگی یا خوف میں بدل جاتاہے ‘کیونکہ ان کی ضرورت پوری ہوچکی ہوتی ہے۔ہم دوستوں نے غصے پر کنٹرول کرنے کے چند دلچسپ طریقے سوچے ہیں‘ ہم اسے خود پر آزما بھی رہے ہیں اور کافی اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں‘ آپ بھی آزما کر دیکھئے اور بتائیے کہ کیسا محسوس کرتے ہیں۔
پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ جب بھی غصہ آئے‘ اُسے روکنے کی کوشش ہرگز نہ کیجئے‘ طے کرلیجئے کہ آپ کو جب بھی غصہ آئے گا آپ اس کا اظہار ضرور کریں گے‘ لیکن اُس سے پہلے اپنے سامنے والے کو ایک شعر ضرور سنائیں گے ‘ خواہ وہ غزل کا شعر ہو یا کسی فلمی گیت کا ٹکڑا۔اس میں ضروری نہیں کہ آپ موقع کی مناسبت سے ہی کوئی شعر سنائیں‘ یہ شعر یا فلمی گیت کوئی سا بھی ہوسکتاہے‘ مثلاً :آپ کی کسی گاڑی والے سے ٹکر ہوگئی ہے‘ وہ آپ پر گرم ہوگیا ہے‘ آپ کو کوئی شعر یاد نہیں آرہا‘ کوئی با ت نہیں‘ کسی گانے سے شروع کر دیں اور بلند آواز کہیں ''مائی نیم از شیلا...شیلا کی جوانی‘‘ اور پھر اگر غصہ آئے‘ تو سو بسم اللہ جو بولنا ہے بول دیں‘ لیکن پھر بولنے کے لیے کچھ بچے گا نہیں‘ تجربہ شرط ہے!!
دوسر ا طریقہ یہ ہے کہ جیسے ہی کسی بات پر غصہ آنے لگے‘ فوراً تصور کرلیں کہ آپ کسی ٹی وی چینل پر لائیوآرہے ہیںاورپوری دنیا آپ کو دیکھ رہی ہے‘ یہ تصور اگر آپ دل سے کریں گے ‘تو بالکل وہی صورتحال ہوگی ‘جیسی شادیوں میں کھانے کے وقت ہوتی ہے‘ جس نے اپنی پلیٹ میں ڈیڑھ سو بوٹیاں ڈالنی ہوتی ہیں‘ وہ بھی ویڈیو والوں کو دیکھ کر تھوڑا سا سالن ڈال کر مسکراتاہوا پرے ہٹ جاتاہے۔اگر آپ ساتھ میں یہ تصور بھی کریں کہ آپ کا لائیوپروگرام گرلز کالج میں بھی بڑے شوق سے دیکھا جارہا ہے‘ تو میرا دعویٰ ہے ‘ نہ صرف آپ غصہ نہیں کریں گے‘ بلکہ ہوسکتا ہے آپ مسکراہٹ کا عظیم مظاہرہ کرتے ہوئے دائیں ہاتھ سے بال بھی ٹھیک کرنے لگ جائیں۔
تیسرا طریقہ پہلے دونوں طریقوں سے بھی دلچسپ ہے‘ آپ نے طے کرنا ہے کہ آپ نے کسی بھی قسم کا غصہ کرنے سے پہلے ایک ٹھمکا ضرور لگانا ہے‘ اگر آپ کو ٹھمکا نہیں لگانا آتا تو کوئی بات نہیں‘ خواجہ سرائوں کی طرح کھلے ہاتھ سے تالی ضرور مارنی ہے۔میرا ایک دوست بہت موٹا ہے ‘لہٰذا ٹھمکا لگانے کی عیاشی سے محروم ہے‘ اُس نے اس فارمولے پر عمل شروع کر دیا ہے۔ موصوف کو یہ عمل اتنا اچھا لگا ہے کہ اب غصہ نہ بھی آئے‘ تو ''ٹھاہ ٹھاہ‘‘ لگے رہتے ہیں‘ جس کی وجہ سے سامنے والے کو غصہ آجاتاہے۔
چوتھا طریقہ یہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں مسکراہٹیں ڈھونڈیں‘ فرض کیا کہ آپ کے ملازم نے گلاس توڑ دیا ہے‘ اب ذرا غور سے ملازم کی طرف دیکھیں‘ اس کے سہمے ہوئے چہرے کو دیکھ کر خودبخود آپ کی ہنسی نکل جائے گی۔نامورماہر نفسیات فرائڈایک جگہ لکھتاہے کہ بچپن میں جب میری اور میری بہن کی لڑائی ہوجاتی تھی‘ تو میری ماں کبھی ہمیں آپس میں صلح کے لیے نہیں کہتی تھی‘ بلکہ ہم دونوں کو کرسیوں پر آمنے سامنے بٹھا دیتی تھی اور حکم دیتی تھی کہ ایک منٹ تک ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بیٹھے رہو۔ ہم ایسا ہی کرتے تھے اورچند سیکنڈ بعد ہی ہماری ہنسی نکل جاتی تھی۔
آئیے ہم بھی اپنے غصے کو مسکراہٹ سے شکست دیں‘ مسائل تو ہر جگہ ہیں‘ لیکن کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ جس مسئلے کا کوئی حل موجود ہو‘ اُس کے لیے کیا پریشان ہونا‘ اور جس مسئلے کا کوئی حل نہ ہو‘ اُس کے لیے کیا پریشان ہونا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں