بیوی ہو تو ایسی

نذیر صاحب نے جب مجھے بتایا کہ ان کی نئی شرٹ ان کی بیگم اُن کے لیے خرید کر لائی ہے تو میرے جسم سے گویا جان ہی نکل گئی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ''کیا آپ کی بیگم ہی آپ کی شاپنگ کرتی ہیں؟‘‘ انہوں نے کندھے اچکائے ''ہاں... شادی کے دن سے آج تک وہی میری شاپنگ کرتی ہے‘ بلکہ جو کپڑے میں پہنتا ہوں یہ بھی وہی سلیکٹ کرتی ہے اور استری کر کے ہینگر پہ لٹکا دیتی ہے۔‘‘ نذیر صاحب کی بات سن کر میرا دل چاہا کہ دھاڑیں مار مار کر روئوں۔ میں سروس سٹیشن پر گاڑی سروس کرانے آیا ہوا تھا۔ نذیر صاحب اس سروس سٹیشن کے مالک ہیں اور ہر دفعہ بڑی محبت سے ملتے ہیں۔ جتنی دیر گاڑی سروس ہوتی ہے میں نذیر صاحب سے گپ شپ بھی لگا لیتا ہوں اور بڑی عمدہ کافی بھی پینے کو مل جاتی ہے۔ نذیر صاحب انتہائی نفیس انسان ہیں‘ صاف ستھرے بے داغ کپڑے پہنتے ہیں‘ روزانہ شیو کرتے ہیں اور اتنی ہی نفاست سے بات بھی کرتے ہیں۔ سروس سٹیشن کے اندر ہی ان کا کمرہ ہے جہاں بڑا سا شیشہ لگا ہوا ہے‘ وہ وہیں بیٹھے بیٹھے کام کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ میری ان سے ملاقات دو سال پہلے ہوئی تھی۔ اُس روز میں حسبِ معمول گاڑی سروس کروا کے چلا گیا‘ بعد میں پتا چلا کہ میرا بیگ گاڑی میں موجود نہیں۔ میرے ہوش اڑ گئے۔ میری ساری دنیا میرے آفس بیگ میں بند ہوتی ہے‘ لہٰذا آفس بیگ نہ ہونے کا مطلب ہے ''دنیا اجڑ جانا‘‘۔ میں نے جلدی سے گاڑی واپس دوڑائی‘ سروس سٹیشن پہنچ کر بیگ کا پوچھا تو ایک لڑکے نے نذیر صاحب کے کمرے کی طرف اشارہ کر دیا۔ میں اُدھر کو لپکا۔ نذیر صاحب میری پریشانی بھانپ گئے تھے لہٰذا میرے بولنے سے پہلے ہی مسکراتے ہوئے میز کی سائیڈ سے بیگ اٹھایا اور میری طرف بڑھا دیا۔ پھر بولے ''میرے سروس سٹیشن پر کسی کا سامان کبھی گم نہیں ہوتا‘‘۔ مجھے ان کی یہ بات اچھی لگی اور پھر اس کے بعد میں ان کا مستقل گاہک بن گیا۔
نذیر صاحب دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہیں کیونکہ انہیں دنیا کی آئیڈیل بیوی ملی ہے۔ جب نذیر صاحب تھک کر گھر جاتے ہیں تو وہ خوبصورت لباس میں مسکراتے ہوئے اِنہیں ویلکم کرتی ہے‘ پھر پانی پلاتی ہے‘ پھر بوٹ اور جرابیں اتار کر اِن کے پائوں دباتی ہے۔ نذیر صاحب بتاتے ہیں کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی وہ کبھی پہلے خود نوالہ نہیں لیتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ پہلا نوالہ نذیر صاحب کے منہ میں ڈالتی ہے۔ یہ جوڑا اولاد کی نعمت سے محروم ہے لیکن اِن کی آپس میں محبت مثالی ہے۔ شادی کے دس سال بعد بھی نذیر صاحب کی بیوی ان کا ہر حکم بجا لاتی ہے۔ میں جب بھی گاڑی سروس کرانے جاتا ہوں‘ حسد کا شکار ہو کر واپس آتا ہوں۔ آج بھی میں نذیر صاحب سے کرید کرید کر ان کی باتیں پوچھ رہا تھا۔ میری بھرپور کوشش کے باوجود نذیر صاحب کی بیگم کی کوئی برائی سامنے نہیں آ رہی تھی۔ میں نے پھر سے حوصلہ کیا اور پوچھا ''یہ بتائیں کہ جب آپ کے سسرال میں کسی کی شادی ہوتی ہے تو آپ کی بیگم نئے کپڑے بنواتی ہیں؟‘‘ نذیر صاحب ہنس پڑے ''آپ نئے کپڑوں کی بات کرتے ہیں‘ میں تو اسے نئی جیولری بھی لے کر دینا چاہوں تو کہتی ہے مجھے جیولری کا شوق نہیں‘‘... میں نے دانت پیسے ''لیکن بھابی کو کبھی تو غصہ آتا ہو گا‘ کبھی تو دیر سے آنے پر آپ سے باز پرس کرتی ہوں گی؟‘‘ نذیر صاحب نے آہ بھری ''سچ پوچھیں تو مجھے حسرت ہے کہ میری بیوی مجھ پر غصہ کرے‘ لیکن وہ عجیب طبیعت کی ہے‘ دیر سے گھر آئوں تو بجائے غصہ ہونے کے پوچھنے لگتی ہے کہ سب خیریت تھی ناں... اسی طرح میں کئی دفعہ اسے بتائے بغیر دوستوں کے ساتھ سیر سپاٹے پر نکل جاتا ہوں‘ لیکن اس نے کبھی نہیں پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں‘ بس اتنا کہتی ہے کہ اپنا خیال رکھئے گا۔‘‘ میں نے ایک گہری سانس لی اور پوچھا ''نذیر صاحب! خود آپ کا اپنی بیگم کے ساتھ سلوک کیسا ہے؟‘‘۔ وہ پھر ہنسے ''بھئی میں ہر وقت اس کے حسن کی تعریف کرتا رہتا ہوں‘‘۔
یہ سنتے ہی میں چونک اٹھا‘ راز کھل گیا تھا‘ میں نے تہیہ کر لیا کہ اب یہی طریقہ میں بھی آزمائوں گا‘ ہو سکتا ہے میری قسمت بھی سنور جائے۔ رات کو ایک ریکارڈنگ کی وجہ سے لیٹ واپسی ہوئی‘ میں نے گھر میں داخل ہوتے ہی بیگم سے کہا ''آج تو تم بالکل کترینہ لگ رہی ہو‘‘۔ اس نے گھور کر میری طرف دیکھا ''موٹر کا پٹہ خراب ہو گیا ہے‘ ٹینکی میں ایک قطرہ بھی پانی نہیں آ رہا‘‘۔ میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں گھگھیایا ''رات کے اس وقت اب پٹہ کہاں سے ملے گا اور کل اتوار کی چھٹی ہے‘‘۔ اس نے قہر آلود نظروں سے میری طرف دیکھا اور دانت پیسے ''ساتھ والوں کے گھر سے ٹب بھر لائیے گا۔‘‘ میں کانپ اٹھا‘ ٹب خاصا بڑا تھا اور ایک دفعہ میں پہلے بھی اسے پانی سمیت اٹھانے کی حماقت کر چکا تھا۔ اس کے بعد مجھے تین دن تک رکوع کی حالت میں آفس آنا پڑا تھا۔ مجھے غصہ آنے لگا ''کم از کم مجھے فون ہی کر دیتیں میں کسی کو بھیج کے پٹہ منگوا لیتا‘‘۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ مجھے تو پیار سے بات کرنی ہے۔ میں نے جلدی سے موڈ بدلا اور رومانٹک ہوتے ہوئے کہا ''ڈارلنگ! ایک میسج ہی بھیج دیتیں‘‘۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرے رومانٹک ہونے کا اس پر فوراً اثر ہوا اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی‘ نہایت پیار سے کڑک کر بولی ''... تین دن سے کہہ رہی ہوں کارڈ لا دیں بیلنس ختم ہے‘‘۔
نذیر صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے شکوہ کیا کہ آپ کے فارمولے نے تو مجھے زیادہ ذلیل کروا دیا۔ انہوں نے پوری داستان سنی‘ پھر قریب ہوتے ہوئے رازدارانہ لہجے میں بولے ''ہر بیوی میری بیوی کی طرح اچھی نہیں ہوتی‘‘۔ میں نے رونی صورت بنا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس روز میں نے انہیں درخواست کی کہ وہ میرے گھر کھانے پر تشریف لائیں اور اپنی بیگم کو بھی ہمراہ لائیں‘ ہو سکتا ہے بیوی کو دیکھ کر بیوی رنگ پکڑ جائے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ضرور آئیں گے‘ لیکن ذرا کچھ مصروفیت کم ہو جائے۔ ایک ماہ بعد میں نے ان سے پھر فرمائش کی‘ لیکن وہ پھر ٹال گئے... تین چار دفعہ جب ایسا ہی ہوا تو مجھے شک گزرا کہ یقینا نذیر صاحب مجھ سے اپنی بیوی کے حوالے سے جھوٹ بول رہے ہیں‘ اسی لیے نہیں چاہتے کہ ان کی بیوی کا پول کھلے۔ ایک دن میں نے یہی شک نذیر صاحب کے سامنے بھی کھول دیا۔ میری بات سنتے ہی ان کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزر گیا اور نہایت کھسیانے لہجے میں تاویلیں پیش کرنے لگے۔ مجھے پختہ یقین ہو گیا کہ نذیر صاحب بھی ہر شوہر کی طرح ذلیل ہوتے ہیں‘ اور ہر شوہر کی طرح باہر آ کر جھوٹ بول دیتے ہیں۔ یہ سوچ کر ہی دل باغ باغ ہو گیا۔ تین چار ماہ بعد کی بات ہے‘ میں ایک دوست کے بھائی کی شادی میں ماڈل ٹائون گیا۔ وہاں نذیر صاحب بھی اپنی بیگم کے ہمراہ آئے ہوئے تھے۔ میں خوش ہو گیا اور تیزی سے ان کے قریب پہنچا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ سٹپٹا گئے۔ میں نے جلدی سے ان سے سلام لیا اور نہایت عقیدت سے ان کی بیگم کو بھی سلام کہا۔ انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے سلام کا جواب دیا اور نذیر صاحب سے مخاطب ہوئیں ''بھائی جان میں ذرا دلہن کو سلامی دے آئوں‘‘۔ میں اچھل پڑا‘ یہ تو نذیر صاحب کی ہمشیرہ تھیں۔ میں نے نذیر صاحب کے سنبھلنے سے پہلے ہی جلدی سے ہمشیرہ صاحبہ سے پوچھا '' بہن جی! نذیر صاحب کی بیگم نہیں آئیں؟‘‘ وہ ہنس پڑیں ''جس دن یہ شادی کے لیے ہاں کرے گا‘ آ جائے گی‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں