صدق و سچائی، مومن کی پہچان!

انسانی اخلاق وکردار کا تعین انسان کے گفتار ومعاملات سے ہوتاہے۔ جو انسان ہمیشہ سچ بولتا ہے، وہ فاتح اور کامیاب رہتا ہے۔ وقتی مشکلات کے باوجود صدق وسچائی، انسان کو نجات و عافیت کی منزل پہ لے جاتی ہے۔ جھوٹا آدمی وقتی طور پر کچھ فوائد حاصل کر بھی لے تواس کا جھوٹ بالآخر اسے ہلاکت کے گڑھے میں لے ڈوبتا ہے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ''اَلصِّدْقُ یُنْجِیْ وَالْکِذبُ یُہْلِک‘‘ یعنی صدق نجات کا ذریعہ اور جھوٹ باعث ہلاکت ہے۔آج عجیب افراتفری کا عالم ہے۔ ہر شخص جھوٹ کا عادی اور سچائی سے عاری ہے۔ جس معاشرے میں جھوٹ کا چلن عام ہوجائے اور سچائی دم توڑ جائے، اس میں جرائم کی کثرت لازمی امر ہے۔ باہمی احترام اور محبت جھوٹ کی آگ میں خاکستر ہوجاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سچائی جرائم کو کنٹرول کرنے اور امن و امان کے قیام کے لیے بہترین اکسیر ہے۔ سچا انسان دوسروں کا احترام کرتا ہے اور اُسے خود بھی احترام ملتا ہے۔ جو شخص جھوٹ کا عادی ہوجائے، اس کی شخصیت گندگی کا ڈھیر بن جاتی ہے۔ 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہرلحاظ سے انسانِ کامل تھے۔ آپؐ کی حیات طیبہ سراسر نوروہدایت اور حسن وجمال کا مرقع تھی۔ آپؐ نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا؛ حالانکہ جس معاشرے میں آپؐ نے آنکھ کھولی، اس کی بنیاد ہی جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ دہی پرتھی۔ جھوٹ کو اگرچہ عیب جانا جاتا تھا مگر اس کا چلن اس قدر عام تھا کہ معیوب ہونے کے باوجود اسے انسان کی ذہانت و فطانت اور ہوشیاری وپرکاری تصور کیا جانے لگا تھا۔ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے معاشرے میں آنکھ کھولنے کے باوجود اپنے دامن کو ہمیشہ اس آلودگی سے پاک صاف رکھا۔ بچپن اور لڑکپن میں بھی آپؐ کی یہ صفت اتنی معروف اور نمایاں ہو کر ضیا پاش ہوئی کہ معاشرے کا کوئی فرد نہ اس سے بے خبر رہا، نہ کبھی اس کا انکار اور نفی کرسکا۔ پوری قوم کے درمیان آپؐ عنفوان شباب ہی میں الصادق (یعنی سچا اور راست گو) کے لقب سے معروف ہوگئے تھے۔ آپؐ کی اس صفت کی بدولت بدترین مخالفتوں کے ادوار میں بھی آپؐ کا ستارہ چمکتا رہا۔ 
چالیس سال کی عمر تک آپ ؐ پوری قوم کے درمیان بلااستثنا، سب سے معزز ومحترم شخصیت تھے۔ جب آپؐ نے چالیس سال کی عمر میں اللہ کی طرف سے حکم ملنے پر اعلان نبوت کیا تو حالات یک سر بدل گئے۔ پوری قوم آپؐ کی مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہر قسم کا حربہ آپؐ کے خلاف استعمال کیا جانے لگا۔ کفار، جان کے دشمن بن گئے لیکن اس سارے عرصے میں آپؐ کی صداقت کا انکار کوئی نہ کرسکا۔کوہِ صفا کے مشہور خطبے میں آپؐ نے اپنا اصلی خطاب شروع کرنے سے پہلے لوگوں سے گواہی لی: ''ھَلْ وَجَدْتُّمُوْنِیْ صَادِقًا اَمْ کَاذِبًا‘‘ (کیا تم لوگوں نے مجھے سچا پایا ہے یا جھوٹا) تو مجمع بہ یک زبان پکار اٹھا کہ ہم نے آپ کو ہمیشہ راست گو پایا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس گواہی کے باوجود اسی مجلس میں ابولہب اور دیگر لوگوں نے بعد میں دعوتِ حق سے انکار کیا، رسول اللہ ؐ کو جھٹلایا اور نت نئے الزامات تراشے لیکن داعیِ حقؐ کے بارے میں ان کی وہ پہلی گواہی قولِ فیصل بن کر تاریخ کا حصہ بھی بن گئی اور لوگوں کے ذہن میں ہمیشہ پیوست بھی رہی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے تفہیم القرآن، ج 3،سورۃ الشعراء، حاشیہ 135)
قریش مکہ میں آپؐ کا سب سے بڑا مخالف ابوجہل سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھی آپؐ کو جھوٹا کہنے کی ہمت نہ کرسکا۔ ایک مرتبہ عرب کی ایک دوسری معروف شخصیت اخنس بن شریق نے ابوجہل سے پوچھا کہ تم جو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کو جھٹلاتے ہوتو کیا واقعی اسے جھوٹا سمجھتے بھی ہو؟ جواب میں اس نے کہا: بخدا، میں نہیں سمجھتا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) جھوٹ بولتا ہے لیکن تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بنوہاشم میں سے ہے اور ہم بنومخزوم ہیں۔ ہم ہمیشہ سے ان کے روایتی حریف اور مدِّمقابل ہیں۔ مہمان نوازی سے لے کر جنگ آرائی اور جو دوسخاسے لے کر شعروخطابت تک ہر میدان میں ہم نے ان کا مقابلہ کیا ہے، اب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو کیا ہم اسے نبی مان کر اپنی برتری سے دست بردار ہوجائیں۔ بخدا، ایسا نہیں ہوسکتا۔اللہ رب العالمین نے اسی واقعے کی جانب قرآن مجید میں کئی مقامات پر اشارہ کرکے آنحضورؐ کو حوصلہ دیا ہے۔ ارشاد باری ہے ''اے نبی(صلی اللہ علیہ وسلم)! ہمیں معلوم ہے کہ جوباتیں یہ لوگ بناتے ہیں، ان سے تمھیں رنج ہوتا ہے لیکن یہ لوگ تمھیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کررہے ہیں‘‘(سورۃ الانعام6:آیت33)۔ حضرت علیؓ نے ایک روایت میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوجہل کے ایک براہِ راست مکالمے کا بھی ذکر کیا ہے، جس میں اس نے کہا تھا:اے محمدؐ !ہم تمھیں جھوٹا نہیں کہتے البتہ تم جوچیز [قرآن] ہمارے پاس لائے ہو، ہم اسے جھٹلاتے ہیں‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج1،سورۃ الانعام،حاشیہ21 میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں)
آپؐ کے حق میں صداقت وامانت کی گواہی محض ابوجہل ہی نے نہیں دی بلکہ پوری قوم اس کی گواہ تھی۔ آپؐ کے بدترین دشمنوں میں جن لوگوں کے نام آتے ہیں، ان میں عتبہ بن ربیعہ اور نضربن حارث، دومعروف، زیرک اور بااثر سردار تھے۔ عتبہ نے دارالندوہ میں اپنی تقاریر میں کئی مرتبہ اس بات کا اظہار کیا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) جھوٹا آدمی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس نے یہ بھی کہا کہ جو کلام وہ پیش کرتا ہے، اس جیسا کلام کسی انسان کے بس میں نہیں۔نضربن حارث، وہ شخص ہے کہ جس نے اسلام کا راستہ روکنے کے لیے گانے بجانے اور رقص وموسیقی کی محفلیں منعقد کیں، رستم وسہراب کے قصے کہانیوں پر مشتمل واقعات واشعار کے ذریعے محفلیں سجائیں اورقرآن کی آواز کو لوگوں کے کانوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے شیطانی کلچر کے ذریعے شوروہنگامہ کھڑا کیا، اس نے بھی ایک مرتبہ قریش کی مجلس میں خطاب کرتے ہوئے برملا کہا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم سب سے زیادہ سچا انسان ہے، نہ وہ ساحرہے نہ کاہن، نہ شاعر ہے نہ مجنون، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی تدبیر سوچنی چاہیے، محض الزامات سے بات نہیں بنے گی۔ گویا یہ ایسا اعتراف تھا جو بدترین مخالف کی زبان سے برملا کیاگیا۔(رحمۃ للعالمین، ج1، ص59-60، مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو جو ہدایات دیں، ان میں راست بازی سب سے نمایاں ہے۔ خود آپؐ چونکہ اس کی بہترین مثال تھے، اس لیے اللہ رب العالمین نے آپؐ کو ایسا رعب عطا فرمایاتھا کہ بدترین دشمن بھی آپؐ کے سامنے آنکھیں جھکانے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ سیرت کا مشہور واقعہ ہے کہ ابوجہل نے کسی شخص سے اونٹ خریدے تھے اور طے شدہ سودے کے مطابق وہ ان کی قیمت ادا کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہا تھا۔ لوگوں نے ازراہِ مذاق اس شخص سے کہا کہ اپنی دادرسی کے لیے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس چلے جاؤ۔کفار کا خیال یہ تھا کہ ابوجہل آپ(صلی اللہ علیہ وسلم ) کو خوب جلی کٹی سنائے گا لیکن چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جب آنحضورؐ اس اجنبی کو ساتھ لے کر رئیسِ قریش کے پاس پہنچے اور فرمایاکہ اس کی رقم اسے ادا کردو تو ابوجہل نے بلاحیل وحجت اس کی پوری رقم ادا کردی۔ سنتِ رسول ؐ کے مطابق ہمیشہ سچ بولنے والے بندوں کو بھی اللہ کی طرف سے ایک خاص برہان حاصل ہوجاتی ہے، جو بدترین مخالفین پر بھی ان کا رعب اور دھاک قائم کردیتی ہے۔(سیرت ابن ہشام، ج1 میں تفصیلات موجود ہیں)
صدق وسچائی ایک اعلیٰ صفت ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، سیدھی اور سچی بات کیا کرو، اللہ تمھارے اعمال درست کردے گا اور تمھارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، بس وہی عظیم کامیابی کا مستحق ہے‘‘۔ (سورۃالاحزاب 33: آیات 70-71)ایک دوسرے مقام پر تمام اہلِ ایمان کو تقویٰ کی تلقین فرماتے ہوئے حکم دیا گیا: ''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتھی بن جاؤ‘‘۔ (سورۃ التوبہ9:آیت119)
ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں، جس نے سچائی کی تعلیم دی اور سچا بن کر ہر دوست اور دشمن سے اپنا سکہ منوایا۔ کسی کلمہ گو کے لیے جھوٹ بولنا ہرگز جائز نہیں۔ سچ بولنا اور اس پر قائم رہنا شیوۂ ایمانی بھی ہے اور سچے رسولؐ کا سچا پیروکار ہونے کا ثبوت بھی۔ آئیے ہم عہد کریں کہ ہمیشہ سچ بولیں گے۔ اس سے قبل ہم سے جو کوتاہیاں ہوئیں، آئیے ہم سب اس پر اللہ سے توبہ کریں۔ خود سچ پر قائم رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اہل وعیال ووابستگان کو بھی اس کی تعلیم دینا، اس کی برکات سے آگاہ کرنا اور جھوٹ کی تباہ کاریوں سے متعارف کراکے اس سے اجتناب پر آمادہ وکاربند کرنا ہمارا فرض ہے۔ ان شاء اللہ ہمیں اس کے نتیجے میں خیراور بھلائی ملے گی اور اللہ ہمیں ہر نقصان سے پناہ دے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں