حضرت عمرؓ آغوشِ اسلام میں!

نبی اکرم ﷺ نے دعوت کا کام شروع کیا تو دشمنانِ اسلام آپ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے لگے۔ ہر آنے والے دن کے ساتھ اسلام بھی اپنی دعوت کے ذریعے قبولیت حاصل کررہا تھا اور دشمنانِ اسلام بھی اسی نسبت سے مخالفت میں تیز ہوتے جارہے تھے۔ صحابہ کرامؓ بلکہ بعض اوقات خود نبیٔ محترمؐ کو جسمانی اذیتیں پہنچانا معمول بن چکا تھا۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات غلام اور کنیزیں اسلام کی طرف راغب تھے، مگر قبول اسلام کے بعد ان پر جو قیامت ڈھائی جاتی اس کا حال پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بلالؓ، خبابؓ، عمارؓ،یاسرؓ، سمیہؓ، زنیرہؓ اور اسی طرح بے شمار صحابہ وصحابیات بدترین مظالم کا نشانہ بنائے گئے۔ حضرت سمیہؓ تو مکہ میں ظلم وستم سے شہید کردی گئیں۔ حضرت یاسرؓ بھی مظالم برداشت کرتے کرتے دنیا سے کوچ کرگئے۔ باقی مستضعفین صحابہؓ کو بھی مار ڈالنے کی کوششیں ہوئیں، مگر اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی۔ 
قریش کی مخالفت حد سے گزری تو ان بدبختوں نے نبی اکرمﷺ کے قتل کے منصوبے بنائے۔ دارالندوہ میں مشورہ ہوا کہ کوئی شیردل نوجوان جائے اور جاکر محمدؐ بن عبداللہ کا کام تمام کردے۔ کون یہ کام کرسکتا ہے؟ یہ سوال بڑا اہم تھا۔ کئی نوجوانوں نے خود کو پیش کیا، مگر سردارانِ قریش نے ہر ایک سے کہا کہ یہ کام اس کے بس میں نہیں ہے۔ آخر بنوعدی کا سجیلا جوان عمربن خطاب کھڑا ہوگیا۔ اس نے کہا سردارانِ قریش! میں ابھی یہ کام کرکے آپ کو خوش خبری سناتا ہوں۔ ابوجہل نے کہا: ''ہاں یہ نوجوان یقینا اس قابل ہے کہ اس کٹھن کام کو سرانجام دے سکے۔‘‘ فیصلہ ہوجانے کے بعد عمربن خطاب دارالندوہ سے نکلا۔ اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی، چہرے پر عجیب غصے کی کیفیت کے ساتھ خودکلامی کے انداز میں کچھ کہتا ہوا چلاجارہا تھا۔ اچانک راستے میں نعیم بن عبداللہ سے آمنا سامنا ہوگیا۔ 
نعیمؓ کا تعلق بھی بنوعدی سے تھا۔ وہ اسلام لاچکے تھے، مگر ابھی تک اپنے اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا۔ ابن حجرالعسقلانی کے مطابق قبول اسلام میں ان کا دسواں نمبر ہے۔ نعیمؓ نے پوچھا: ''عمر! کیا بات ہے؟ بڑے غصے میں نظر آرہے ہو۔‘‘ عمر نے کہا: '' ہاں میں آج اس شخص کو قتل کرنے جارہا ہوں جس نے باپ دادا کا دین بگاڑ دیا ہے۔‘‘ نعیمؓ بن عبداللہ نے بڑی حکمت کے ساتھ کہا: ''اچھا اگر یہ بات ہے تو پہلے اپنے گھر کی خبر لوتمھاری بہن فاطمہؓ بنت خطاب اور تمھارا بہنوئی سعیدؓ بن زید بھی آبائی دین کو چھوڑ کر صابی بن چکے ہیں۔‘‘ (الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ، لابن حجرالعسقلانی، ص567)
یہ سننا تھا کہ عمر کے غصے میں اور اضافہ ہوگیا۔ اب بہن کے گھر کی راہ لی وہاں پہنچ کر دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند ہے اور اندر سے کسی چیز کے پڑھنے کی آواز آرہی ہے۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو بہن نے دروازہ کھولا۔ نبی اکرم ﷺ پر انھی دنوں سورۂ طٰہ نازل ہوئی تھی۔ اسی کی تلاوت اور حفظ کی مشق جاری تھی۔ حضرت خباب بن ارتؓ بھی جو آنحضورﷺ سے قرآن سن کر یاد کرلیا کرتے تھے گھر میں موجود تھے۔ عمر کی آہٹ اور آواز سن کر ہی حضرت خبابؓ کو گھر میں چھپا لیا گیا۔ عمر نے بہن اور بہنوئی سے پوچھا: تم کیا پڑھ رہے تھے؟ انھوں نے کہا: کچھ بھی نہیں۔ اس پر عمر کا غصہ بھڑک اٹھا۔ بہنوئی کو زدوکوب کرنا شروع کیا، بہن بچانے کے لیے آئیں تو انھیں بھی خوب مارا پیٹا یہاں تک کہ وہ لہولہان ہوگئیں۔ اس موقع پر فاطمہ بنت خطاب نے اپنے جذبۂ ایمانی کی بلندی سے بڑی جرأت اور استقامت سے بولتے ہوئے کہا: ''عمرسن لو ہم مسلمان ہوچکے ہیں، ہم نے شرک اور بت پرستی سے برأت کا اظہار کردیا ہے۔ تم جو کچھ کرنا چاہو کرلو، ہماری ہڈیاں توڑ سکتے ہو، مگر اسلام سے برگشتہ ہرگز نہیں کرسکتے۔‘‘ (الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ، لابن حجرالعسقلانی، ص46)
بہن کی زبان سے یہ سننا تھا کہ عمر کے دل پر چوٹ لگی اور زمین پر بیٹھ گئے۔ پھر کہا مجھے وہ صحیفہ سناؤ جو تم پڑھتے ہو۔ انھوں نے فرمایا کہ ہم اس صحیفے کی توہین برداشت نہیں کرسکتے، نہ ہی کسی مشرک کو دے سکتے ہیں کیونکہ اسے صرف پاکیزہ لوگ ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا اچھا مجھے خود سناؤ، تو میں اس کی کوئی توہین نہیں کروں گا۔ اس وعدے کے بعد حضرت خبابؓ کو اندر سے باہر بلایا گیا اور انھوں نے سورۂ طٰہ کی آیات کی تلاوت کی۔ چھوٹی چھوٹی آیات میں اتنا موثر پیغام سمودیا گیا ہے کہ اعجازِ قرآنی پر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اہلِ ایمان کے ایمان میں بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ قرآن پڑھا جارہا تھا اور عمر کے دل کی دنیا میں عظیم الشان انقلاب برپا ہورہا تھا۔ آیات قرآنی سنیں اور پھر خاموشی سے گھر کا دروازہ کھول کر نکل گئے۔ اب بھی منزل دارِ ارقم ہی تھی، مگر ارادہ بدل چکا تھا۔ یہ وہ عمر نہیں تھا جو دارالندوہ سے نکلا تھا، یہ وہ عمر تھا جس کے حق میں نبیٔ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں قبول ہوچکی تھیں۔ 
جب عمربن خطاب دارِ ارقم پہنچے اور دروازے پر دستک دی تو ایک صحابی نے دروازے کے سوراخ میں سے ان کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ کر دروازہ کھولنے کی بجائے واپس آنحضورؐکے پاس آکر سرگوشی کے انداز میں کہا: یارسول اللہ ﷺ! عمربن خطاب دروازے پر کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہے۔‘‘ حضرت حمزہؓ جو صرف تین دن پہلے مسلمان ہوئے تھے انھوں نے بھی یہ بات سن لی اور فرمایا: اللہ کے بندے دروازہ کھول دو۔ اگر عمر نیک ارادے سے آیا ہے تو سرآنکھوں پر اور اس کا کوئی اور ارادہ ہے تو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں میں اس کا سر اسی کی تلوار سے قلم کردوں گا۔ دروازہ کھلا، عمراندر آئے، سیدھے آنحضورؐ کے پاس پہنچے۔ آپؐ نے ان کی چادر کو پکڑ کر کھینچا اور کہا عمر! کیسے آئے ہو؟ عرض کیا اسلام قبول کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ پھر کلمۂ شہادت پڑھا اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ آنحضورؐکی زبانِ مبارک سے تکبیر کا نعرہ بلند ہوا۔ سبھی صحابہؓ نے بھی آپ کی تقلید میں اللہ کی کبریائی کا اعلان کیا اور دارِارقم تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھا۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الثانی، ص346)
اس عرصے میں نبی اکرمؐ مسلسل دعا کرتے رہے تھے: اللہم انصرالاسلام باحد عمرین۔ یعنی اے اللہ مکے کے دوعمروں میں سے کسی ایک عمر کو اسلام کا مددگار بنادے۔ یعنی عمربن خطاب کو اسلام کی آغوش میں لے آ یا عمرو بن ہشام(ابوجہل) کو ایمان کی توفیق بخش دے۔ آپ کی دعا کے یہ الفاظ بھی نقل کیے گئے ہیں۔ اللہم أعز الاسلام باحب ہٰذَیْنِ الرجلین الیک بأبی جہل او بعمربن الخطاب۔ (صحیح بخاری، جامع ترمذی، ح3699) اللہ تبارک وتعالیٰ نے عمربن خطاب کے بارے میں دعائے نبویؐ کو شرف قبولیت بخشا۔ آپؐ کی اس دعا میں بڑی حکمت ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: خیارکم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الاسلام اذا فَقِہُوا۔ یعنی تم میں سے جو لوگ جاہلیت میں اگلی صفوں میں کام کرتے ہیں، قبولیت اسلام کی توفیق مل جائے تو خدمت اسلام میں بھی اگلی صفوں میں ہوں گے اگر دین کا صحیح فہم حاصل کرلیں۔ (متفق علیہ، روایت: عبدالرحمن بن صخر)
یہ دونوں شخصیات اپنی بہادری اور جرأت نیز فہم وفراست اور قیادت میں نمایاں تھیں۔ ابوجہل بدبخت وبدنصیب ہے، مگر اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے کفر پر اتنا مضبوط تھا کہ دنیا کا کوئی فرعون ونمرود مشکل ہی سے اس کی مثال پیش کرسکتا ہے۔ سیدناموسیٰؑ کے مقابلے پر جو فرعون: أَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلٰی۔ (النازعات79:24) یعنی میں تمھارا سب سے بڑا رب ہوں، کا نعرہ لگاتا تھا وہ سمندر کے پانی میں چند ڈبکیاں کھانے کے بعد پکار اٹھا: میں نے مان لیا کہ خداوندِحقیقی اس کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی سرِاطاعت جھکانے والوں میں سے ہوں۔ اس کے مقابلے میں ابوجہل جب میدان بدر میں قتل کیا جارہا تھا اس وقت بھی اپنے کفر پر پوری طرح قائم تھا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے جب اس کا سرکاٹا تو اس نے کہا: ارے تم کون ہو؟ انھوں نے جواب دیا: عبداللہ بن مسعود۔ اس پر ابوجہل نے کہا: اچھا وہ حقیر چرواہا جو بکریاں چرایا کرتا تھا؟ میری گردن نیچے سے رکھ کر کاٹنا میں سردارِ قریش ہوں۔ جب عبداللہ ابن مسعودؓ نے آنحضورﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: کان ابوجہل فرعون ہذہِ الامۃ۔ یعنی ابوجہل اس امت کے لیے فرعون تھا۔ 
حضرت عمرؓ نے قبول اسلام کے بعد آنحضورؐسے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: یقینا ہم حق پر ہیں۔ اس پر عرض کیا: پھر ہمیںدارِ ارقم کی بجائے بیت اللہ شریف میں جا کر نماز پڑھنی چاہیے۔ چنانچہ اس روز مسلمان دارِ ارقم سے دو صفیں بنا کر نکلے۔ ایک صف کے آگے آگے حمزہؓ بن عبدالمطلب اور دوسری صف کے آگے عمربن خطابؓ۔ مسلمان اس شان کے ساتھ حرم شریف میں آئے اور وہاں نماز پڑھی اور حضرت عمرؓ نے سردارانِ قریش کو متنبہ کردیا کہ وہ اسلام میں داخل ہوگئے ہیں۔ اس خبر سے قریش کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ یوں عمربن خطابؓ مرادِ رسول ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں