مفکرِ اسلام سیدمودودیؒ!

ماہِ ستمبر میں اپنے مرشد اور مربی سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کی یادیں دل میں عجیب جوت جگا دیتی ہیں۔ یوں تو سید کی تحریریں پڑھنے والے ہر روز ان کے حق میں دعائیں کرتے ہیں،مگر آج سے ۳۸سال قبل اس مہینے میں جب مرشد داغِ مفارقت دے گئے تو پوری دنیا میں ان کے لیے اہلِ ایمان نے غائبانہ نمازِ جنازہ کا اہتمام کیا اور کروڑوں انسانوں نے ان کے لیے اللہ سے دعائیں مانگیں۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب نیروبی میں ہمیں برطانیہ سے یہ خبر ملی۔ ایشیائی، عرب، افریقی کثیرتعداد میں اور گنے چنے یورپی مسلمان ایک دوسرے سے گلے لگ کے یوں رو رہے تھے جیسے کسی کے والدین کا انتقال ہوگیا ہو۔ 
سید مودودیؒ پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام کے لیے اللہ کا ایک عظیم احسان تھے۔ وہ ۳۸ سال قبل ۲۲؍ستمبر۱۹۷۹ء کو عالمِ جاودانی کو سدہار گئے مگر ان کی حسین یادیں آج بھی دل و دماغ میں تر و تازہ اور معطر ہیں۔ ان کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے۔ مرحوم کے کارنامے ہمہ پہلو، ہمہ جہت اور جامع ہیں۔ آپ کا اصل کام فکری رہنمائی اور قلم و قرطاس کا صحیح استعمال ہے۔ مولانا مودودیؒ کی تمام تصانیف، موثر، دل و دماغ کو اپیل کرنے والی اور ایک مخلص داعیٔ حق کا دردِ دل لیے ہوئے ہیں۔ ان کتابوں نے بلاشبہ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو تبدیل کیا ہے۔ ہر علاقے اور ہر زبان سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم ان کی تحریریں پڑھ کر اسلام سے روشناس ہوئے۔ اسی طرح مولانا مودودیؒ کی کتب کے مطالعے کی بدولت خود بے شمار مسلمانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا۔ مولانا مودودیؒ کا کمال تھا کہ جن علاقوں کا کبھی سفر نہ کیا تھا، وہاں کے حالات سے بھی باخبر تھے۔ 
۱۹۷۴ء کے آغاز میں مولانا مودودیؒ کے حکم پر مجھے اسلامک فائونڈیشن، نیروبی میں خدمات سر انجام دینے کے لیے کینیا جانے کا اتفاق ہوا اور ۱۲ برس تک وہاں رہا۔ اس دوران عموماً سال میں ایک یا دو مرتبہ مجھے پاکستان آنے کا موقع ملتا تھا۔ ۱۹۷۸ء تک ہر مرتبہ واپسی پر میں مولانا محترم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ وہاں سے رہنمائی کے لیے کبھی کبھار خطوط بھی ارسال کیے جاتے تھے۔ مولانا مرحوم، افریقہ کے بارے میں اس قدر معلومات رکھتے تھے کہ حیرانی ہوتی، حالانکہ مولانا نے کبھی افریقہ کا دورہ نہ کیا تھا۔ میں نے حبشہ کے ظالم شہنشاہ ہیل سلاسی کا تختہ الٹے جانے کے بعد اس کے مظالم کا تذکرہ کیا تو مولانا نے فرمایا: ''ہیل سلاسی بڑا ظالم اور متعصب عیسائی تھا۔ اس کے دل میں اسلام سے شدید بغض و عناد تھا، مگر نئے آنے والے کمیونسٹ فوجی افسران، مسلمانوں پر اس سے بھی زیادہ ظلم ڈھائیں گے، کیونکہ روس نے جہاں کہیں اپنے حامیوں کو کامیاب کرایا ہے، خوف و ہراس کی بدترین فضا پیدا کی ہے۔ اس کے باوجود ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ اریٹیریا کے مسلمانوں کی تحریک اب مضبوط ہو جائے گی، کیونکہ ہیل سلاسی پورے ملک میں اتحاد کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔ اس کے لیے پایا جانے والا نام نہاد تقدس موجودہ فوجی حکمرانوں کو حاصل نہ ہوگا۔‘‘ یہ بات مولانا مودودیؒ نے اکتوبر ۱۹۷۵ء کو فرمائی تھی۔ کس قدر درست تجزیہ اور کتنی سچی پیش بینی تھی۔ ۱۹۹۳ء میں مسلم علاقہ اریٹیریا حبشہ کی غلامی سے آزاد ہوگیا۔ 
۱۹۷۸ء میں مجھے اچانک اپنی والدہ مرحومہ کی شدید بیماری کی وجہ سے پاکستان آنا پڑا تو مولانا سے ملاقات ہوئی۔ یوگنڈا کے فوجی ڈکٹیٹر عیدی امین کی حکومت کے خلاف عیسائی باغیوں نے تنزانیہ کی افواج کے تعاون سے خانہ جنگی شروع کر دی تھی۔ باغی مسلسل پیش رفت کر رہے تھے۔ یوگنڈا میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ مولانا سے ملاقات ہوئی، ان کی طبیعت ناساز تھی مگر کمال شفقت و محبت سے انھوں نے مجھے کافی وقت دیا۔ میں نے اجازت چاہی تو فرمایا: ''نہیں ابھی ذرا بیٹھو۔‘‘ مولانا نے اس جنگ کے بارے میں فرمایا: ''عیدی امین کی حماقتوں کا خمیازہ مسلم عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ اس کے خلاف جس طرح ساری قوتیں سرگرم عمل ہیں، اس کی شکست اب بالکل نوشتۂ دیوار ہے۔ اسے تو کہیں نہ کہیں پناہ مل جائے گی مگر عام مسلمانوں پر سخت عذاب آ جائے گا۔‘‘ جولیس نیریرے (صدر تنزانیہ) کے بارے میں فرمایا: ''وہ زنجبار کی مسلم حیثیت اور اسلامی تشخص کو ختم کرنے کا پہلے ہی مجرم ہے، اب یوگنڈا میں بھی ایک تنگ دل عیسائی مشنری کی طرح اسلام کی بیخ کنی کرے گا۔‘‘ اس کے پانچ چھ ماہ بعد اپریل ۱۹۷۹ء میں یوگنڈا پر باغیوں کا قبضہ ہوگیا۔ عیدی امین کو تو سعودی عرب میں سیاسی پناہ مل گئی، مگر مسلمان آبادی ظلم کا نشانہ بنی۔ 
ایک مرتبہ میں نے مولانا کی خدمت میں افریقی مسلم معاشرے کی اس خرابی کا تذکرہ کیا کہ وہاں شادی کا تقدس تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ اس قدر طلاقیں واقع ہوتی ہیں کہ کثیر تعداد میں مطلقہ جوڑوں کے بچے بے یار و مددگار ہوکر عیسائی مشنریوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اس پر مولانا نے فرمایا: ''عربوں کے ہاں سے بہت ساری اچھی اور بری چیزیں افریقہ میں بھی پہنچی ہیں۔ نکاح کا تقدس اور طلاق حلال ہونے کے باوجود ابغض قرار پانے کا موضوع دھندلا گیا ہے۔ اسے اجاگر کرنے کے لیے اسلام کی بنیادی تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کتاب حقوق الزوجین کا انگریزی اور سواحلی ترجمہ کروا کر اسے عام پھیلانے سے بھی مفید نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔‘‘
افریقہ میں یورپی ممالک کی مشنری سرگرمیاں کافی عرصے سے منظم انداز میں چل رہی ہیں۔ مغربی دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ڈنمارک کی بعض تنظیموں نے بھی یہاں مشنری ادارے قائم کیے ہیں۔ ایسا ہی ایک ادارہ کینیا کے ایک ضلعی صدر مقام اسیولو میں تھا۔ یہ سنٹر ہمارے الفلاح اسلامک مرکز سے متصل تھا۔ یہاں کا انچارج ایک ڈینش نوجوان پریبن بوگارڈ (Preben Bundgaard) تھا۔ الفلاح مرکز کے انچارج جناب شیخ محمد سلفی تھے۔ مسٹر پریبن کے ساتھ ان کی مجلسیں ہوتی رہتی تھیں۔ اسیولیو نیروبی سے تقریباً دو سو کلو میٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔ شیخ صاحب نے ایک روز وہاں مسٹر پریبن سے ہمارا تعارف کروایا کہ ان کے ذہن میں اسلام کے بارے میں بہت سے سوالات ہیں۔ مسٹر پریبن نے پہلی ہی ملاقات میں کئی سوالات پوچھے۔ جس سے اندازہ ہوا کہ اسلام کے بارے میں ان کی معلومات کس قدر غلط ہیں۔ ان سے درخواست کی گئی کہ وہ سنجیدگی سے اسلام کی بنیادی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔ انھیں سب سے پہلے سلامتی کا راستہ دی گئی جو سواحلی اور انگریزی دونوں زبانوں میں دستیاب تھی۔ سواحلی زبان میں اس کا نام Njia ya Amani Na Uokofu ہے۔ انگریزی میں یہ (Road to Peace and Salvation) کے نام سے دستیاب ہے۔
پہلی کتاب مکمل طور پر پڑھ لینے کے بعد مسٹر پریبن نے کہا: ''اس کتاب نے میرے دل میں ایک آگ سی لگا دی ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے کیا کروں۔‘‘ انھیں بتایا گیا کہ وہ دینیات کا مطالعہ کریں اور اس کے نتیجے میں ذہن میں اٹھنے والے سوالات پیش کریں۔ چنانچہ دینیات کا مطالعہ مکمل کرنے کے بعد وہ اسیولو سے نیروبی آئے۔ جب وہ اسلامک فائونڈیشن کے دفتر قرآن ہائوس میں پہنچے تو میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا۔ چوکیدار نے دروازہ کھول دیا اور وہ ہال میں کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں نماز سے فارغ ہوا علیک سلیک کے بعد جب انھوں نے اپنے ڈینش لہجے میں پوری ثنا پڑھ دی تو مجھے خوش گوار تعجب ہوا۔ میں نے کہا: ''مسٹر پریبن کیا آپ مسلمان ہوچکے ہیں؟‘‘ کہنے لگے: ''ابھی نہیں، البتہ اس کی جانب پیش قدمی شروع کر دی ہے۔‘‘ میں نے پوچھا: ''پھر آپ نے یہ عربی عبارت کس طرح یاد کی ہے؟‘‘ کہنے لگے: ''دینیات کتاب میں اسلام کا بہت جامع تعارف کروایا گیا ہے۔ اس کتاب کے مطابق معلوم ہوا جو شخص مسلمان ہوتا ہے اس پر سب سے پہلے نماز فرض ہو جاتی ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اگر میں مسلمان ہو جائوں اور نماز پڑھنا نہ آتی ہو تو یہ ایک ناقص مسلمان کی صورت ہوگی۔ چنانچہ میں نے باقاعدہ مسلمان ہونے سے پہلے نماز یاد کرنا شروع کر دی ہے۔ اب میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ ۱۵ دن بعد اسیولو آئیں اور ہم اپنی اس ملاقات میں حتمی طور پر طے کرلیں کہ آیا مجھے مسلمان ہونا ہے یا اپنے سابقہ مذہب پر رہنا ہے۔‘‘ 
اگلے سفر میں جب ہم اسیولو پہنچے تو قافلہ ڈاکٹر محمد سعید صاحب مرحوم، خلیل ملک صاحب مرحوم، حاجی محمد لقمان صاحب، محمد اختر بھٹی صاحب (مرحوم) پر مشتمل تھا۔ شیخ محمد سلفی صاحب ہمارے میزبان تھے اور ہمیں اس بات کا انتظار تھا کہ مسٹر پریبن الفلاح مرکز میں کب آتے ہیں۔ شیخ سلفی بتانے لگے کہ پریبن نے صبح سے کئی مرتبہ پوچھا ہے کہ نیروبی سے مہمان کب آئیں گے۔ ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ مسٹر پریبن تشریف لے آئے اور آتے ہی کہا: ''السلام علیکم‘‘۔ ہم نے ان کا حال احوال معلوم کیا۔ میں نے کہا: ''کیا آپ مسلمان ہوچکے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا: ''ہاں، ان شاء اللہ آج مسلمان ہونے کا ارادہ کرکے آیا ہوں۔‘‘ اس مجلس میں سب لوگوں کی زبان پر اللہ اکبر، اللہ اکبر تھا اور بعض کی آنکھوں میں آنسو بھی۔ اسی مجلس میں مسٹر پریبن کو کلمہ پڑھایا گیا، جو انھوں نے پہلے سے یاد کیا ہوا تھا۔ اسی روز ان کا اسلامی نام عبدالرحمن رکھا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس انقلاب کا سب سے بڑا محرک سید مودودیؒ کی کتب ہی ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں