ماہِ رمضان ہم پر سایہ فگن ہو چکاہے۔ الحمد للہ زندگی میں ایک بار پھر یہ عظیم مہمان ہمارے نصیب میں لکھا گیا ہے۔ مہمان، جو دیتا بہت کچھ ہے، ہم سے لیتا کچھ بھی نہیں۔ یہ ماہِ مبارک از اول تا آخر خیر ہی خیر ہے۔اس کا پہلا عشرہ رحمت،دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرا عشرہ دوزخ کی آگ سے خلاصی کی نوید لے کر آتا ہے۔حضورنبی اکرمؐ ماہِ رجب اور شعبان ہی میں استقبال رمضان کے لیے کمرہمت باندھ لیا کرتے تھے۔ آپؐ کی مشہور دعا ہے ''اللھم بارک لنافی رجب و شعبان و بلغنا رمضان‘‘ (اے اللہ ہمیں رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچنے کی توفیق عطا فرما۔) آپ ؐ عام دنوں میں بھی نیکی کے کاموں میں مشغول رہتے‘ مگر رمضان میں بہت زیادہ عبادت الٰہی کا اہتمام فرماتے۔ہمیں بھی ماہِ شعبان کے آتے ہی اپنے تمام امور و معاملات کو اس نقطۂ نظر سے منضبط کر لینا چاہیے کہ رمضان المبارک کی ایک ایک گھڑی ہمارے لیے مفید اور با برکت ثابت ہو۔
٭روزے کی فرضیت:روزے کی فرضیت کا حکم ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد مدینہ منورہ میں وحی کے ذریعے آنحضور ؐ پر نازل ہوا۔''اے لوگو!جو ایمان لائے ہو،تم پر روزے فرض کر دیے گئے،جس طرح تم سے پہلے انبیاکے پیروکاروں پر فرض کیے گئے تھے۔ توقع ہے کہ ان سے تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔چند مقررہ دنوں کے روزے ہیں۔اگرتم میں سے کوئی بیمارہویا سفرپر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں (پھر نہ رکھیں)تو وہ فدیہ دے دیں۔ایک روزے کا فدیہ‘ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے‘تو یہ اُسی کے لیے بہترہے‘لیکن اگر تم سمجھو تو تمھارے حق میں اچھا یہی ہے کہ تم روزے رکھو‘‘۔(سورۃ البقرۃ، آیت نمبر183،184)
یہ حکم 2ہجری کا ہے۔ اس سے اگلی آیت نمبر185 میں، جو ایک سال بعد نازل ہوئی، حکم دے دیا گیا کہ روزے میں چھوٹ محض معذور ودائمی مریض لوگوں کے لیے ہے۔ تندرست وتوانا لوگوں کو روزہ ہی رکھنا ہوگا۔''رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ‘جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے ‘جو راہِ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لاز م ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمھیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیاہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘۔(سورۃ البقرۃ،آیت نمبر185)
٭تقویٰ کا معیار:روزہ،دین اسلام کا چوتھا رکن ہے۔عربی زبان میں روزے کو صوم کہا جاتا ہے،جس کی جمع صیام ہے۔ مندرجہ بالا آیات کے مطابق روزے کی فرضیت کی اصلی غایت اہل ایمان کے دلوں میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔بلاشبہ روزہ اس کا بہترین ذریعہ ہے۔نبی رحمتؐ کی حدیث کے مطابق ''تقویٰ کا منبع دل ہے‘‘اور روزے کی حالت میں واقعتاً دل کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ شدید بھوک اور پیاس کے باوجود مکمل تنہائی میں بھی کوئی روزہ دار کسی مشروب کا ایک قطرہ یا کسی غذا کا ایک ذرہ بھی اپنے حلق سے نیچے نہیں جانے دیتا۔یہی تصور بندے اور رب کے درمیان وہ تعلق قائم کرتاہے ،جسے تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔روزے کو حدیث میں ڈھال بھی قرار دیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ ڈھال دشمن کے مقابلے میں اپنے دفاع کے لیے استعمال ہوتی ہے۔نفس امارہ،فسق و فجور سے بھرا ہوا ماحول اور شیطان لعین ہر وقت انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ماہِ رمضان کے روزے مسلسل تربیت کا موثر کورس ہیں۔اس تربیت کے اثرات اگر باقی گیارہ مہینوںمیں نظر آئیں تو سمجھ لیجیے کہ روزہ اللہ کے ہاں مقبول ہو گیا ہے اور روزہ دار سرخرو ہے۔خدانخواستہ اگر ایسا نہ ہو تو روزہ محض بھوک پیاس بن کر رہ جاتا ہے۔ایسے روزے سے روزہ دار کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
٭نیکیوں کاموسم بہار:ماہِ رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے اور خوش قسمت ہیں‘ وہ لوگ جو اپنا دامن خیروبرکت سے بھرلیں۔ ماہِ رمضان کی آمد کے باوجود جن لوگوں کو نیکی کی جانب قدم بڑھانے کی توفیق نہیں ملتی،ان کی بدنصیبی اس سے عیاں ہے کہ جبریل امین ؑنے ان کے حق میں تباہی و بربادی کی دعا فرمائی اور اللہ کے رسولؐ نے اس پر آمین کہا۔اس مہینے کے فضائل بے شمار ہیں۔حدیث میں فرمایا گیاکہ اس مہینے میں نفل عبادات کااجر فرض کے برابر اور فرض کا اجر ستر گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ رمضان کو صبر کا مہینہ قرار دیاگیا ہے اور صبر کا بدلہ جنت بتایا گیا ہے۔روزہ محض معدے کا نہیں ہوتا بلکہ پورے اعضا ؛آنکھ،کان،ناک،زبان،ہاتھ، پائوں ،دل و دماغ،فکروسوچ،غرض ہرچیز پر محیط ہوتا ہے۔
٭روزہ اور جہاد:ماہِ رمضان ہر سال آتا ہے اور ایک پیغام دے کر چلا جاتا ہے۔ماہِ رمضان کے دوران جہاد اور مجاہدین سے مکمل وابستگی،ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے‘جس سال روزے فرض ہوئے ،اس سال ماہِ رمضان ہی میں کفرواسلام کا پہلا معرکہ بدر کے میدان میں برپا ہوا،جسے قرآن نے یوم الفرقان کہا ہے۔آنحضورؐ کو فیصلہ کن فتح 8ہجری میں رمضان ہی میں نصیب ہوئی، جب مکہ سرنگوں ہوا اور جزیرۂ نمائے عرب سے کفر کا خاتمہ ہوگیا۔ ہمیں پاکستان کی نعمت بھی اسی مہینے میں عطا کی گئی، جس کی قدر ہم نہ کرسکے۔ آج بھی اپنا جائزہ لینے اور محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ اسلام جہاد اور شہادت سے مزّین ہے۔ پہلی شہادت تومکہ میں ایک صحابیہ سیّدہ سمیّہؓ کے حصے میں آئی۔ پھر اس فہرست میں ایک ہی روز یعنی یوم بدر(17؍رمضان المبارک2ھ) کو چودہ عظیم المرتبت شہدا کا اضافہ ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن اس فہرست میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ جہاد جاری ہے اورقیامت کے دن تک جاری رہے گا۔ جہاد کے خلاف آج داخلی وخارجی ہر محاذ پر انتہائی گھناؤنی سازشوں کا جال بچھا دیا گیا ہے‘ مگر ہمیں بطور مسلمان اللہ اور اس کے رسول کا یہ حکم ہے کہ ہم ان سازشوں کا مقابلہ کریں اور جہاد میں حصہ لیں۔ جو شخص خود عملاً جہاد میں شریک نہ ہوسکے وہ کسی مجاہد کو زادِجہاد فراہم کردے یا اس کے پیچھے اس کے اہلِ وعیال کی خبر گیری میں لگ جائے یا شہدا کے خاندانوں کا کفیل بن جائے‘ تو وہ بھی عملاً جہاد میں شریک شمار ہوتا ہے۔ ایسے شخص کا اجر حدیث پاک میں مجاہدین کے برابر قرار دیا گیا ہے۔
٭رویتِ ہلال:ماہِ رمضان کا چاند دیکھنے کا اہتمام اسلام میں ضروری ہے۔ الحمد للہ اس مرتبہ بھی شعبان کے ایام مکمل ہونے کے بعد رمضان کا چاند نکلا تو اہل ایمان نے مسرت کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔ رمضان کی برکات و رحمتیں امتِ مسلمہ کے شامل حال ہوگئیں اور مخلص اہل ایمان ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگے۔ بعض لوگوں کے نزدیک خوشی اور مبارک باد محض عید کا چاند دیکھنے پر ضروری ہے، یہ درست نہیں۔ دونوں مواقع بندۂ مومن کے لیے بابرکت ہیں۔ رمضان کا چاند اس لیے کہ وہ رحمت، مغفرت اور دوزخ سے خلاصی کے تحائف لے کر آتا ہے اور شوال اس لیے کہ اس میں اللہ مخلص بندوں کو انعام دیتا ہے۔