میرے مرشد و مربی: سید مودودی !

آج سے 39سال قبل سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ دنیا فانی سے کوچ کرکے عالم جاودانی کو سدھار گئے۔ سید مودودی‘ اس امت کے لیے اللہ کا ایک عظیم ہدیہ تھے۔ ان کی فکر آج بھی زندہ ہے‘ کیونکہ انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں ہر تحریر لکھی اور ہر تقریر کی۔ مجھے دورِ طالب علمی سے سید مودودی کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت ملی۔ میں تعلیم سے فارغ ہوا تو مرشد نے فرمایا ''میری خواہش ہے کہ تم کچھ عرصے کے لیے کینیا میں اسلامک فاؤنڈیشن میں جا کر خدمات سرانجام دو ‘‘۔1974ء کے آغاز میں یہ سفر شروع ہوگیا‘ جو 12سال پر محیط تھا۔ 1978ء تک ہر مرتبہ واپسی پر میں مولانا محترم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ وہاں سے رہنمائی کے لیے کبھی کبھار خطوط بھی ارسال کیے جاتے تھے۔ 
مولانا مرحوم‘ افریقا کے بارے میں اس قدر معلومات رکھتے تھے کہ حیرانی ہوتی؛ حالانکہ مولانا نے کبھی افریقاکا دورہ نہ کیا تھا۔ میں نے حبشہ کے ظالم شہنشاہ ہیل سلاسی کا تختہ الٹے جانے کے بعد اس کے مظالم کا تذکرہ کیا ‘تو مولانا نے فرمایا: ''ہیل سلاسی بڑا ظالم اور متعصب عیسائی تھا۔ اس کے دل میں اسلام سے شدید بغض و عناد تھا‘ مگر نئے آنے والے کمیونسٹ فوجی افسران‘ مسلمانوں پر اس سے بھی زیادہ ظلم ڈھائیں گے‘ کیونکہ روس نے جہاں کہیں اپنے حامیوں کو کامیاب کرایا ہے‘ خوف و ہراس کی بدترین فضا پیدا کی ہے۔ اس کے باوجود ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ اریٹیریا کے مسلمانوں کی تحریک اب مضبوط ہو جائے گی‘ کیونکہ ہیل سلاسی پورے ملک میں اتحاد کا مظہر سمجھا جاتا تھا۔ اس کے لیے پایا جانے والا نام نہاد تقدس موجودہ فوجی حکمرانوں کو حاصل نہ ہوگا۔‘‘ یہ بات مولانا مودودی نے اکتوبر 1975ء کو فرمائی تھی۔ کس قدر درست تجزیہ اور کتنی سچی پیش بینی تھی۔ 1993ء میں مسلم علاقہ اریٹیریا حبشہ کی غلامی سے آزاد ہوگیا۔ 
1978ء میں مجھے اچانک اپنی والدہ مرحومہ کی شدید بیماری کی وجہ سے پاکستان آنا پڑا تو مولانا سے ملاقات ہوئی۔ یوگنڈا کے فوجی ڈکٹیٹر عیدی امین کی حکومت کیخلاف عیسائی باغیوں نے تنزانیہ کی افواج کے تعاون سے خانہ جنگی شروع کر دی تھی۔ باغی مسلسل پیش رفت کر رہے تھے۔ یوگنڈا میں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ مولانا سے ملاقات ہوئی‘ ان کی طبیعت ناساز تھی ‘مگر کمال شفقت و محبت سے انہوں نے مجھے کافی وقت دیا۔ میں نے اجازت چاہی تو فرمایا: ''نہیں ابھی ذرا بیٹھو۔‘‘ مولانا نے اس جنگ کے بارے میں فرمایا: ''عیدی امین کی حماقتوں کا خمیازہ مسلم عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ اس کے خلاف جس طرح ساری قوتیں سرگرم عمل ہیں‘ اس کی شکست اب بالکل نوشتہ دیوار ہے‘ اسے تو کہیں نہ کہیں پناہ مل جائے گی‘ مگر عام مسلمانوں پر سخت عذاب آ جائے گا۔‘‘ جولیس نیریرے (صدر تنزانیہ) کے بارے میں فرمایا: ''وہ زنجبار کی مسلم حیثیت اور اسلامی تشخص کو ختم کرنے کا پہلے ہی مجرم ہے‘ اب یوگنڈا میں بھی ایک تنگ دل عیسائی مشنری کی طرح اسلام کی بیخ کنی کریگا۔‘‘ اس کے پانچ چھ ماہ بعد اپریل 1979ء میں یوگنڈا پر باغیوں کا قبضہ ہوگیا۔ عیدی امین کو تو سعودی عرب میں سیاسی پناہ مل گئی‘ مگر مسلمان آبادی ظلم کا نشانہ بنی۔ 
ایک مرتبہ میں نے مولانا کی خدمت میں افریقی مسلم معاشرے کی اس خرابی کا تذکرہ کیا کہ وہاں شادی کا تقدس تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ اس قدر طلاقیں واقع ہوتی ہیں کہ کثیر تعداد میں مطلقہ جوڑوں کے بچے بے یار و مددگار ہوکر عیسائی مشنریوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اس پر مولانا نے فرمایا: ''عربوں کے ہاں سے بہت ساری اچھی اور بری چیزیں افریقہ میں بھی پہنچی ہیں۔ نکاح کا تقدس اور طلاق حلال ہونے کے باوجود ابغض قرار پانے کا موضوع دھندلا گیا ہے۔ اسے اجاگر کرنے کے لیے اسلام کی بنیادی تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کتاب حقوق الزوجین کا انگریزی اور سواحلی ترجمہ کروا کر اسے عام پھیلانے سے بھی مفید نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔‘‘ 
افریقا میں یورپی ممالک کی مشنری سرگرمیاں کافی عرصے سے منظم انداز میں چل رہی ہیں۔ مغربی دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ڈنمارک کی بعض تنظیموں نے بھی یہاں مشنری ادارے قائم کیے ہیں۔ ایسا ہی ایک ادارہ کینیا کے ایک ضلعی صدر مقام اسیولو میں تھا۔ یہ سنٹر ہمارے الفلاح اسلامک مرکز سے متصل تھا۔ یہاں کا انچارج ایک ڈینش نوجوان پریبن بوگارڈ (Preben Bundgaard) تھا۔ الفلاح مرکز کے انچارج جناب شیخ محمد سلفی تھے۔ مسٹر پریبن کے ساتھ ان کی مجلسیں ہوتی رہتی تھیں۔ اسیولیو نیروبی سے تقریباً دو سو کلو میٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔ شیخ صاحب نے ایک روز وہاں مسٹر پریبن سے ہمارا تعارف کروایا کہ ان کے ذہن میں اسلام کے بارے میں بہت سے سوالات ہیں۔ مسٹر پریبن نے پہلی ہی ملاقات میں کئی سوالات پوچھے‘ جس سے اندازہ ہوا کہ اسلام کے بارے میں ان کی معلومات کس قدر غلط ہیں۔ ان سے درخواست کی گئی کہ وہ سنجیدگی سے اسلام کی بنیادی تعلیمات کا مطالعہ کریں۔ انہیں سب سے پہلے سلامتی کا راستہ دی گئی‘ جو سواحلی اور انگریزی دونوں زبانوں میں دستیاب تھی۔ سواحلی زبان میں اس کا نام Njia ya Amani Na Uokofu ہے۔ انگریزی میں یہ (Road to Peace and Salvation) کے نام سے دستیاب ہے۔ 
پہلی کتاب مکمل طور پر پڑھ لینے کے بعد مسٹر پریبن نے کہا: ''اس کتاب نے میرے دل میں ایک آگ سی لگا دی ہے‘ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے کیا کروں‘‘۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ دینیات کا مطالعہ کریں اور اس کے نتیجے میں ذہن میں اٹھنے والے سوالات پیش کریں‘ چنانچہ دینیات کا مطالعہ مکمل کرنے کے بعد وہ اسیولو سے نیروبی آئے۔ جب وہ اسلامک فائونڈیشن کے دفتر قرآن ہائوس میں پہنچے‘ تو میں اس وقت نماز پڑھ رہا تھا۔ چوکیدار نے دروازہ کھول دیا اور وہ ہال میں کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں نماز سے فارغ ہوا علیک سلیک کے بعد جب انہوں نے اپنے ڈینش لہجے میں پوری ثنا پڑھ دی‘ تو مجھے خوش گوار تعجب ہوا۔ میں نے کہا: ''مسٹر پریبن کیا آپ مسلمان ہوچکے ہیں؟‘‘ کہنے لگے: ''ابھی نہیں‘ البتہ اس کی جانب پیش قدمی شروع کر دی ہے۔‘‘ میں نے پوچھا: ''پھر آپ نے یہ عربی عبارت کس طرح یاد کی ہے؟‘‘ کہنے لگے: ''دینیات کتاب میں اسلام کا بہت جامع تعارف کروایا گیا ہے۔ اس کتاب کے مطابق معلوم ہوا ‘جو شخص مسلمان ہوتا ہے‘ اس پر سب سے پہلے نماز فرض ہو جاتی ہے جس سے فرار ممکن نہیں‘ اس لیے میں نے سوچا کہ اگر میں مسلمان ہو جائوں اور نماز پڑھنا نہ آتی ہو تو یہ ایک ناقص مسلمان کی صورت ہوگی‘اسی سوچ کے تحت میں نے باقاعدہ مسلمان ہونے سے پہلے نماز یاد کرنا شروع کر دی ہے۔ اب میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ 15 دن بعد اسیولو آئیں اور ہم اپنی اس ملاقات میں حتمی طور پر طے کرلیں کہ آیا مجھے مسلمان ہونا ہے یا اپنے سابقہ مذہب پر رہنا ہے۔‘‘
15دن بعد ہم اسیولو پہنچے‘ ہمارا موضوعِ سخن مسٹر پریبن ہی تھے۔ اس دوران اچانک مسٹر پریبن تشریف لے آئے اور آتے ہی کہا: ''السلام علیکم‘‘۔ ہم نے ان کا حال احوال معلوم کیا۔ میں نے کہا: ''کیا آپ مسلمان ہوچکے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا: ''ہاں‘ الحمد للہ آج مسلمان ہونے کا ارادہ کرکے آیا ہوں۔‘‘ اس مجلس میں سب لوگوں کی زبان پر اللہ اکبر‘ اللہ اکبر تھا اور بعض کی آنکھوں میں آنسو بھی۔ اسی مجلس میں مسٹر پریبن کو کلمہ پڑھایا گیا‘ جو انہوں نے پہلے سے یاد کیا ہوا تھا۔ اسی روز ان کا اسلامی نام عبدالرحمن رکھا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس انقلاب کا سب سے بڑا محرک سید مودودی کی کتب ہی ہیں۔ 
مسٹر پریبن جواب عبدالرحمن بن چکے تھے‘ اس سے قبل کینیا کی ایک مقامی لڑکی کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ وہ ایک عیسائی لڑکی تھی۔ عبدالرحمن کی کوششوں کے باوجود وہ مسلمان نہ ہوئی تو ان کے درمیان ایک خلیج حائل ہوگئی۔ اس واقعے کے بعد عبدالرحمن کو ان کے مشن نے ملازمت سے نکال دیا اور انہوں نے وطن واپسی کے لیے رخت سفر باندھا۔ قبل اس کے کہ وہ واپس جاتے‘ ان کی خواہش تھی کہ وہ عمرے کی سعادت حاصل کرلیں۔ اس دوران نام کی تبدیلی‘ قبولِ اسلام کی شہادت اور سرٹیفکیٹ تیار کرلیا گیا‘ اسی مجلس میں ان کے سامنے تجویز رکھی گئی کہ کیوں نہ عمرے کی ادایگی کے بعد اسلامک فائونڈیشن کے مرکز میں کچھ عرصہ کام کریں‘ چنانچہ وہ اس پر تیار ہوگئے۔ انہیں جو معاوضہ ڈنمارک حکومت کی طرف سے مل رہا تھا‘ ہم وہ تو نہ دے سکے‘ لیکن ہمارا معمولی سا معاوضہ بھی اس متلاشی حق نے قبول کرلیا۔ انہوں نے ہمارے ساتھ تقریباً دو سال تک کام کیا۔ دو سال بعد انہوں نے مستقل طور پر ڈنمارک جاکر اسلامک سنٹر کوپن ہیگن میں خدمات انجام دیں۔ ان کی شادی ایک پاکستانی لڑکی سے ہوگئی تھی اور وہ خوشگوار زندگی گزار رہے تھے‘ مگر ان کا کوئی بچہ نہیں تھا۔ وہ پاکستان بھی دو تین مرتبہ تشریف لائے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں