جنگ خندق خطرات اور ہولناکی کے نقطہ نظر سے بڑی سخت جنگ تھی۔اسی جنگ کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے تھے۔ پورا ایک مہینہ اہلِ مدینہ پر اتنا بھاری تھا کہ اس کا ایک ایک لمحہ پہاڑ معلوم ہوتا تھا۔ کئی اہل ِایمان شہید ہو گئے تھے۔ بھوک اور فقر و فاقہ کے ساتھ موسم کی شدت و حدت نے مشکلات کو دوچند کر دیا تھا۔ باہر کی جانب پورا عرب امنڈ آیا تھا اور مدینہ کے اندر بنو قریظہ مار آستین بنے خباثت اور شیطنت پر تلے کھڑے تھے۔ یہ سارے حالات قرآن کی سورہ الاحزاب‘ حدیث کے تمام مجموعوں اور سیرت کی کتب میں تفصیلاً بیان ہوئے ہیں۔
اتنے بڑے معرکے میں یہ بات تعجب انگیز ہے کہ فریقین کا جانی نقصان بہت کم ہوا۔ مسلمانوں میں سے آٹھ صحابہ نے جام شہادت نوش کیا‘ جبکہ کافروں میں سے چار جنگجو واصل جہنم ہوئے۔ دراصل خندق نے ایسا معجزہ کر دکھایا کہ اتنی بڑی جنگ کے باوجود انسانی جانوں کی حفاظت کا ایک بہترین انتظام میسر آ گیا۔
مسلمانوں کے تمام شہداء انصار میں سے تھے۔ اتفاق سے اس جنگ میں کسی مہاجر صحابی کی قسمت میں شہادت کا رتبہ نہیں لکھا گیا تھا۔ انصار میں سے جو لوگ شہید ہوئے ‘ان میں سب سے مشہور شخصیت حضرت سعد بن معاذؓ کی تھی۔ ہم ذیل میں ان کا مختصر تذکرہ نذر قارئین کر رہے ہیں:۔
۱۔ حضرت سعد بن معاذؓ:آپ قبیلہ اوس کے سردار اور بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی کوششوں سے مسلمان ہوئے اور قبول اسلام سے پہلے اپنے سارے قبیلے کے مرد و زن کو جمع کرکے ان سے پوچھا: ''میرے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘ انہوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا: آپ ہمارے سردار ہیں‘ ہمارے سردار کے بیٹے ہیں‘ ہم سب سے زیادہ سمجھدار اور ذہین ہیں۔‘‘
حضرت سعدؓ نے فرمایا : ''اگر میرے بارے میں تمہارا یہ خیال ہے تو پھر سن لو کہ میں اسلام میں داخل ہو چکا ہوں۔ جب تک تم بھی اﷲ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان نہیں لاؤ گے ‘میرا تم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
حضرت سعدؓ قبیلہ اوس کے درمیان اتنے معزز و محترم اور قابل اعتماد تھے کہ ان کی بات سن کر پورے کا پور اقبیلہ اوس اسلام میں داخل ہو گیا تھا۔ حضرت سعد بن معاذؓ نے اپنے اثرورسوخ کو دعوت اسلام کے لیے وقف کر دیا تھا۔ سیدنا مصعب بن عمیرؓ کو انہوں نے قبول اسلام کے بعد اپنا مہمان بنا لیا تھا اور ان کا گھر مدینہ میں اسلام کا مرکز بن گیا تھا۔ حضرت سعدؓ کا تذکرہ غزوہ بدر اور غزوہ احد دونوں جنگوں میں آتا ہے۔ ان کے کارنامے حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ نے دیکھے تھے اور ان کی تحسین فرمائی تھی۔ جنگ خندق میں بھی انہوں نے اپنے شایان شان حصہ لیا۔
خندق کی کھدائی سے لے کر دشمن کے مقابلے پر ڈٹ جانے تک اور احزاب کے مقابلے میں جرأت مندانہ اور حکیمانہ مشورہ دینے سے لے کر بنو قریظہ کے متعلق فیصلہ دینے تک ہر مقام پر وہ ممتاز اور منفرد نظر آتے ہیں۔ سعد جیسے سپوت واقعتاً مائیں کبھی کبھی ہی جنا کرتی ہیں۔ جب حضرت سعدؓ زرہ پہنے خندق کی طرف روانہ ہوئے‘ تو آپ کی والدہ نے بنو حارثہ کی حویلی میں سے جہاں مسلمان خواتین جمع تھیں‘ انہیں دیکھا۔ ان کی زرہ چھوٹی تھی‘ جس میں سے ان کا ہاتھ باہر نکلا ہوا تھا۔ حضرت سعد کی حقیقی والدہ کبثہؓ اور روحانی والدہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ دونوں نے انہیں دیکھا۔ حضرت سعدؓ اس وقت رجزیہ شعر پڑھتے ہوئے جا رہے تھے۔؎
لبث قلیلاً یشہد الہیجا حمل
لاباس بالموت اذا حان الاجل
(ترجمہ )''ذرا سا انتظار کرو‘ ابھی جنگ بھی حملے کا منظر دیکھ کر (اش اش کر اٹھے گی) موت سے کیا ڈرنا؟ موت تو اپنے وقت پر آ کر رہتی ہے‘‘۔
ان کی والدہ نے آواز دے کر کہا: ''بیٹے تم نے بڑی دیر کر دی ہے۔ جلد میدان جنگ میں پہنچو۔‘‘ ام المومنین نے فرمایا :''ام سعد‘ کاش سعد کی زرہ طویل ہوتی‘ اس کا ہاتھ زرہ سے باہر نکلا ہوا تھا۔‘‘ حضرت سعدؓ جب میدان میں پہنچے تو ایک مشرک ابن العرقہ نے تیر مارا جو ان کے ننگے ہاتھ میں پیوست ہو گیا۔ اس سے ہاتھ کی رگ ہفت اندام کٹ گئی۔ حضرت سعدؓ کی شہادت بالآخر اسی زخم کی وجہ سے ہوئی۔
زخم لگنے کے بعد حضور اکرمؐ نے حضرت سعدؓ کے لیے مسجد نبویؐ کے صحن میں ایک خیمہ نصب کرا دیا تھا۔ حضورؐ خود صبح شام ان کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ ایک صحابیہ حضرت رفیدہؓ کو جو قبیلہ اسلم سے تعلق رکھتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور علاج میں ماہر تھیں‘ حضرت سعدؓ کی دیکھ بھال اور علاج کے لیے مامور فرما دیا تھا۔ زخم سے خون بند نہیں ہوتا تھا جس پر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت سعدؓ کے زخم کو داغ دیا۔ داغے جانے کے بعد اگرچہ خون تو بند ہو گیا تھا‘ مگر ہاتھ سوج گیا تھا‘ جس کی وجہ سے حضرت سعدؓ کو خاصی تکلیف محسوس ہوتی تھی۔
تکلیف کے ان دنوں میں بھی حضرت سعدؓ کا حوصلہ کبھی پست نہیں ہوا۔ اپنے زخم کی شدت کو دیکھ کر انہیں تقریباً یقین ہو گیا تھا کہ وہ اس زخم سے جانبر نہیں ہو سکیں گے۔ ایک روز انہوں نے اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگی ‘جس کے ایک ایک لفظ میں ان کی اسلام کے ساتھ وابستگی اور تعلق باﷲ نمایاں طور پر جھلک رہا ہے۔ انہوں نے کہا: ''اے اﷲ! اگر قریش سے مزید کچھ جنگیں ہونا باقی ہیں تو مجھے بھی مزید مہلت دے دے۔ میں ان لوگوں سے لڑنے کی تمنا رکھتا ہوں‘ جنہوں نے تیرے سچے رسولؐ کو ایذائیں پہنچائیں‘ ان کو جھٹلایا اور پھر ان کے گھر سے انھیں نکال دیا۔ اگر ان لڑائیوں کا خاتمہ ہو گیا ہے تو پھر مجھے شہادت عطا فرما دے۔ ہاں میری یہ التجا ہے کہ بنو قریظہ کے معاملے میں میرا دل ٹھنڈا ہو جانے تک مجھے زندگی کی مہلت عطا فرما دے۔‘‘
بنو قریظہ نے جو بدعہدی کی تھی ‘اس کی سزا دینے کے لیے خود اﷲ تعالیٰ نے آنحضورؐ کو حکم دیا کہ بنو قریظہ کا معاملہ طے کرنے سے پہلے اپنے ہتھیار نہ کھولیں۔ آنحضورؐ نے اس حکم ربانی کے مطابق‘ بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ چند ہی دنوں کے اندر ان لوگوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیے کہ اس قضیہ میں حضرت سعد بن معاذؓ کو حکم مقرر کیا جائے اور وہ جو فیصلہ کریں اسے تسلیم کر لیا جائے۔ زمانہ جاہلیت میں اوس اور قریظہ کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم تھے۔ آنحضورؐ نے یہودیوں کی شرط قبول فرما لی اور حضرت سعدؓ کو بلا بھیجا۔ جب وہ تشریف لائے اور صورتحال سے واقف ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ''اللہ کے نبیؐ کی موجودگی میں کوئی دوسرا فیصلہ کرے یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ انہوں نے بنوقریظہ کو بھی بلندآواز سے کہا کہ وہ اپنا فیصلہ اللہ کے نبی سے کرائیں‘ مگر بنوقریظہ کی بدقسمتی کہ وہ اپنی ضد پر قائم رہے اور بار بار یہی کہا کہ ہمارا فیصلہ سعدبن معاذؓ کرے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: ''سعد تم فیصلہ کرو۔‘‘ اس پر انہوں نے فرمایا: ''میں ان کا فیصلہ تورات کے مطابق کرتا ہوں۔ ان کے لڑنے والے تمام مرد قتل کر دیے جائیں‘ عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے اور ان کی تمام املاک مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دی جائیں۔‘‘ یہ فیصلہ نافذ ہوا اور غدار اپنے انجام کو پہنچ گئے۔
حضرت سعدؓ کی دعا قبول ہو چکی تھی۔ بنو قریظہ کے بارے میں ان کا سینہ ٹھنڈا ہو گیا تھا اور قریش آئندہ کسی جنگ میں شریک ہونے کے دم خم سے محروم ہو چکے تھے۔ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قریش اب کبھی مدینہ پر حملہ نہ کرسکیں گے‘ بلکہ اب مدینہ کی طرف سے پیش قدمی ہوگی۔ جنگ خندق میں لگنے والے زخم کے نتیجے میں سیدنا سعدؓ شہید ہو گئے۔ ان کے پھولے ہوئے ہاتھ پر بکری کا کھر لگا ‘جس سے خون کا فوارہ پھوٹ نکلا‘ اسی سے ان کی شہادت واقع ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق ‘آنحضورؐ کو ان کی شہادت سے قبل اطلاع مل گئی‘ جبکہ دوسری روایت کا مفہوم یہ ہے کہ آپؐ کو شہادت کے بعد جبرائیل ؑ نے آ کر اس سانحے کی خبر پہنچائی۔ آنحضورؐ نے حضرت سعد کے بارے میں جو الفاظ کہے‘ وہ محدثین نے یوں روایت کیے ہیں: ''اے اﷲ سعد نے تیری راہ میں بڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں اس نے تیرے دین اور تیرے رسول کی خدمت کا حق ادا کیا ہے۔ اے اﷲ تو اس کے ساتھ ایسا معاملہ کر جیسا تو اپنے مکرم دوستوں کے ساتھ کرتا ہے۔‘‘
حضرت سعدؓ کی وفات پر مدینہ میں غم کے بادل چھا گئے تھے۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ ایک روایت کے مطابق ‘عرش عظیم کے حامل فرشتے بھی حضرت سعدؓ کی وفات پر کانپ گئے تھے۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ فرشتوں کی ایک بڑی جماعت نے بھی جنازے میں شرکت کی۔ سیدنا سعد کی والدہ نے ان کی وفات پر درد انگیز شعر کہے‘ جنہیں سن کر آنحضورؐ نے فرمایا: ''بین کرنے والیوں کے بین جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں‘ مگر ام سعد نے جو کچھ کہا ‘وہ سچ ہے۔‘‘