ڈاکٹر نذید احمد شہیدؒ

میں اس وقت رحیم یار خان میں تھا‘ جب (اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن)برادرم اعجاز ہاشمی صاحب نے اچانک یہ خبر سنائی ۔ ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی شہادت کی خبر!میرے منہ سے بے ساختہ نکلا ''ڈاکٹر صاحب!ابھی تو ہمارے پہلے زخم بھی مندمل نہیں ہوئے تھے۔‘‘(میرا اشارہ سانحہ مشرقی پاکستان کی طرف تھا۔وہاں ہمارے بہت سے قیمتی ساتھی ہم سے بچھڑ گئے تھے۔)میں8جون کو بعد دوپہر رحیم یار خان پہنچا تھا۔رات کو کافی دیر تک برادرم قاری صغیر حسین اور عبدالرزاق بھائی کے ساتھ تحریک اسلامی کے مستقبل کے بارے میں گفتگو کرتا رہا۔ہماری گفتگو میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کا ذکر بار بار آتا رہا۔ڈاکٹر صاحب چند روز قبل صادق آباد کی ایک تربیت گاہ میں تشریف لائے تھے۔رحیم یار خان کے ساتھیوں نے بھی ڈاکٹر نذیر صاحب سے آٹھ جون کی تاریخ لے رکھی تھی‘تمام کارکن اس دن کے منتظر تھے۔ ہم میں سے کسی کو علم نہ تھا کہ جس وقت ہم اپنے اس عظیم ساتھی کے بارے میں رات کو ستاروں کی چھائوں میں کھلے صحن اور گرم موسم میں بیٹھے یہ باتیں کر رہے تھے‘ وہ ہم سے رخصت ہو کر دور وادیٔ امن و سکون میں گہری نیند سو رہے تھے۔
ڈاکٹر صاحب سے میرا باقاعدہ تعارف1968ء میں ہوا۔ میں ان دنوں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم تھا۔مجھے وہ منظر اب تک یاد ہے‘ جب مرکز جماعت اچھرہ میں مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس ہورہا تھا۔ میں ڈاکٹر صاحب کو اسلامی جمعیت طلبہ کی شب بیداری کے ایک پروگرام میں شمولیت کی دعوت کے لیے ان کی خدمت میں اچھرہ حاضر ہوا تو وہ بیمار تھے۔اس وقت ان کے پاس مولانا معین الدین (خٹک) صاحب اور کچھ دوسرے احباب بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے اپنا تعارف کرایا اور اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔ڈاکٹر صاحب کے تمام دوستوں نے ان کی بیماری کا حوالہ دیا ۔ناتجربہ کاری اور کم علمی کی وجہ سے میں نے 
اصرار کیا اور پھر فیصلے کے لیے ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے انہوں نے میرے شانے پر اپنا ہاتھ رکھا اور مسکراتے ہوئے آنے کا وعدہ کرلیا۔وہ آئے اور ان کی آمد سے ہماری وہ تربیتی نشست یادگار بن گئی۔ان کا ایک ایک لفظ درد میں ڈوبا ہوا ‘اخلاص سے دھلا ہوا اور عمل پر ابھارنے کیلئے تیر بہدف بنا ہوا تھا۔اسی تربیتی نشست میں مولانا معین الدین صاحب کا درس حدیث تھا۔طے پایا کہ ڈاکٹر صاحب مولانا معین الدین صاحب کے درس حدیث کے بعد خطاب فرمائیں گے۔پروگرام کے مطابق مولانا معین الدین صاحب کا درس حدیث رات گیارہ بجے ختم ہوا۔ڈاکٹر صاحب اس سے پانچ منٹ پہلے پروگرام کے مطابق معتمد ِجمعیت لاہور عبدالوحید سلیمانی کے ہمراہ وہاں پہنچ چکے تھے۔ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی تقریر کا موضوع تھا ''فریضہ اقامت دین اور ہم‘‘۔مولانا معین الدین صاحب ان کی تقریر سننے کے لیے وہیں رک گئے۔تقریر رات بارہ بج کر دس منٹ تک جاری رہی۔پھر ڈاکٹر صاحب نے سوالات کے جوابات دیے۔یہ سلسلہ ایک بجے تک جاری رہا۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب سے کارکنوں نے فرمائش کی کہ وہ اپنا تعارف کرائیں۔انہوں نے محض اپنا نام‘رہائش اور جماعت میں ذمہ داری تک اپنا تعارف محدود رکھا‘پھر جب وہ مولانا معین الدین صاحب کے ہمراہ رخصت ہونے لگے تو ہم نے ایک کارکن کو ان کے ساتھ بھیجنا چاہا ‘لیکن ڈاکٹر صاحب نے فرمایا بھئی کسی کو تکلیف نہ دیجیے ہم چلے جائیں گے اور ڈاکٹر صاحب چلے گئے۔آج وہ بہت دور جا چکے ہیں‘ لیکن آج بھی جاتے ہوئے انہوں نے کسی دوسرے کو کوئی زحمت نہیں اٹھانے دی۔ان کے پاس چند کارکن موجود تھے‘لیکن انہوں نے ہر گولی اپنے سینے پر روکی اور خاموشی سے چلے گئے۔ ؎
راہ دشوار اور دوریٔ منزل
آہی پہنچے افتاں‘ خیزاں
1970ء کے آخر میں ‘میں ساہیوال جیل سے ایک سال کی قید کاٹ کر رہا ہوا۔ملتان میں ڈاکٹر نذیر احمدصاحب سے ایک پروگرام میں ملاقات ہوئی تو اجتماع کے بعد وہ مجھے اپنے دوستوں سے ملانے کے لیے لے گئے۔میں اس شام ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ملتان میں ان کے کئی دوستوں سے ملنے گیا۔ہم جہاں بھی گئے وہاں میں نے دیکھا کہ ان کی آمد کی خبر سن کر گھر کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی دوڑتے ہوئے آتے اور آ کر ان سے لپٹ جاتے۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اس شہید رہنما نے ہر جگہ پیار اور خلوص کے دیپ جلائے ہیں۔اس نے ضلع ڈیرہ غازی خان کے جاگیردارانہ نظام میں جکڑے ہوئے لوگوں کے اندر عزت کی زندگی کا حساس پیدا کیا‘پروانوں کو دوردراز کے ریگزاروں سے اپنے گرد جمع کیا۔وہ شمع محفل تھا اور پروانے اس کے گرد منڈلاتے رہتے تھے۔تحریک اسلامی کا پیغام اس بنجر زمین میں اس محنت سے پہنچایا کہ یہی سنگ لاخ ضلع پنجاب کا سب سے زرخیز خطہ بن گیا۔پہاڑوں اور جنگلوں میں رہنے والوں نے اس مومن صادق کو اپنے دکھ دردمیں شریک پایا۔شہر کے باسیوں نے اسے ہر حال میں اپنا غم گسار قائد پایا۔بچوں نے اسے دیکھا تو خوشی سے ان کے چہرے دمک اٹھے کیوں کہ اس کا دستِ شفقت ایک باپ کی طرح ان کے سروں پر رہتا ۔بوڑھوں سے وہ ملا تو اس طرح جیسے ایک سعادت مند نوجوان اپنے بزرگوں سے ملتا ہے۔ نوجوانوں نے اسے دیکھا تو مصائب اور مشکلات میں جینے کا حوصلہ پایا۔یہ انسان زندگی بھر روشنی کا پیغام بن کر جیا اور جب رخصت ہوا تو اس کی موت بھی قابل ِ رشک بن گئی۔
میں مارچ1970ء میں کیمپ جیل لاہور سے سنٹرل جیل ساہیوال منتقل کیا گیا۔یہ ایک بڑی جیل ہے۔یہاں بلوچ قیدیوں کی بہت بڑی تعداد مقیدتھی۔یہ تمام قیدی نماز روزے کے پابند اور متشرع تھے۔ان کا قائد ایک ستر سالہ بوڑھا بلوچ منگن خان تھا‘ جس کی قید48 برس تھی۔منگن خان کو اس بڑھاپے میں بھی خطرناک قیدی سمجھ کر''چھ چکی‘‘ میں بند کیا گیا تھا(اس جگہ خطرناک قیدیوں کی خصوصی نگرانی کا اہتمام ہوتا ہے)۔میں بھی نامعلوم کیوں''خطرناک‘‘ قیدیوں کے زمرے میں لکھ دیا گیا اور اس وارڈ کی ایک کوٹھڑی میں مجھے بند کر دیا گیا۔منگن خان سے نماز کے وقت ملاقات ہوجاتی تھی۔ ظہر‘عصراور مغرب کی نمازیں ہم سب قیدیوں نے باجماعت ادا کرنی شروع کردی تھیں۔ایک روز اخبار میں میں ڈاکٹر نذیر احمدصاحب کا بیان پڑھ کر قیدیوں کو سنا رہا تھا کہ منگن خان وہاں آیا ۔وہ ڈاکٹر صاحب کا نام سن کر خوشی سے اچھل پڑا اور کہنے لگا ''میں نے زندگی میں اس سے زیادہ دلیر اور جرأت مند شخص کوئی نہیں دیکھا‘ ماں نے شیر جنا ہے‘‘۔منگن خان نے بتایا ''میں نے ڈاکٹر کی جیل کی زندگی دیکھی ہے۔کئی مرتبہ مختلف جیلوں میں وہ ہمارے ساتھ مقید رہا۔وہ راتوں کو تہجد اور نوافل اور قرآن خوانی میں جیل کی کال کوٹھڑیوں کو آباد کیا کرتا تھااور دن کے وقت وہ قیدیوں کے حقوق کے لیے افسرانِ بالا کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا تھا۔وہ اکثر ہمارے ساتھ سی کلاس میں رکھا جاتا۔کبھی کبھار ڈاکٹر کو بی کلاس بھی مل جاتی تو عملاً ہمارے ساتھ سی کلاس میں ہی رہتا۔وہ اپنا کھانا لے کر عام قیدیوں کے درمیان آجا تا اور سب کے ساتھ مل کر کھاتا۔‘‘
رحیم یار خان سے رات ڈیرہ غازی خان کا سفر ممکن نہ تھا۔صبح سویرے ہم عازمِ ڈیرہ ہوئے۔کبھی باہمی گفت گو‘کبھی خاموشی اور غم‘سوچوں کا سفر اور ماضی کے جھروکے!عجیب سفر تھا۔ اب‘ ہم بس میں بیٹھے رحیم یار خان سے ظاہر پیر اور چاچڑاں کے راستے ڈیرہ غازی خان جا رہے تھے۔ہم وہاں وقت پر نہیں پہنچ سکے؛اگرچہ ڈرائیور نے یہ معلوم ہوتے ہی بس چلا دی تھی کہ ہم ڈیرہ غازی خان جا رہے ہیں۔اسے بس چلاتے ہوئے دیکھ کر کنڈیکٹر لپک کر اس کے پاس آیا اور کہنے لگا ''بس کیوں چلا دی‘ابھی بس خالی ہے۔‘‘ ڈرائیور کا جواب تھا ''پیسے تو روز کماتے ہیں۔آج پیسے کمانے کا دن نہیں۔ان لوگوں کو ڈاکٹر نذیر احمد شہید کے جنازے میں شریک ہونا ہے‘‘۔لیکن ہم پیچھے رہ گئے اور ڈاکٹر صاحب آگے نکل گئے۔وہ ہمیشہ ہم سے بہت آگے رہتے تھے۔
کون کہتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہمارے درمیان موجود نہیں ؟ ع
جس سمت قدم اٹھ جاتے ہیں‘ خود منزل آگے آتی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں