سلاؤ اور اس کے مکین

سفر نصیب آج (اگست 2012ء میں) سلاؤ میں ہے‘ جو لندن کا مضافاتی علاقہ اور پاکستانیوں کا مسکن ہے۔ سلاؤ میں حافظ محمد اصغر صاحب اور ان کے اہل و عیال کے ساتھ مختصر نشست ہوئی۔ حال احوال معلوم کیے اور پھر حافظ صاحب فرمانے لگے: اگلے پروگرام کے لیے کمرِ ہمت باندھ لیں۔ افطار کا پروگرام جناب محمد حسین (گنجہ ضلع گجرات) کے گھر تھا۔ ڈاکٹر محمد عارف صاحب (مقامی ناظم اور اب ناظم سائوتھ زون یو کے اسلامک مشن) مسلسل رابطہ رکھے ہوئے تھے۔ محمد حسین صاحب نے سلاؤ کے ایک پوش علاقے میں بہت بڑا گھر بنا رکھا ہے۔ اس محل نما گھر کے باہر کھلا احاطہ ہے جو کئی کنالوں پر محیط ہے۔ محمد حسین صاحب نے بتایا کہ بھلے وقتوں میں انھوں نے اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر دبئی میں کاروبار کیا، جس میں اللہ نے بڑی برکت دی۔ اسی دور میں یہ مکان بن گیا۔ بعد میں کاروبار مندے کا شکار ہوگیا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ گزارا بہت اچھا ہو رہا ہے۔ 
محمد حسین صاحب کے ساتھ کافی پرانا تعلق ہے۔ کئی سال قبل جب ایک مرتبہ میں لندن ایئر پورٹ پر اترا تو حافظ اصغر صاحب کے ساتھ انہوں نے میرا استقبال کیا اور انہی کی کار میں ہم سلاؤ آئے اور یہاں قیام کے دوران جہاں جانا ہوتا‘ وہ اپنی گاڑی کے ساتھ حاضر و موجود ہوتے۔ ان کا گاؤں گنجہ ہمارے گاؤں سے زیادہ دور نہیں۔ موصوف اسلامی سرگرمیوں میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور ان پر دولت کھلے دل سے خرچ کرتے ہیں۔ ایسے صاحبِ خیر لوگ اس امت کا اثاثہ ہیں۔ انہوں نے اپنے گاؤں میں بہت اچھی مسجد اور اسلامی مرکز تعمیر کیا ہے۔ ان کے گاؤں سے گزرنے والی دو سڑکوں میں سے ایک کھاریاں جاتی ہے اور دوسری لالہ موسیٰ کی طرف۔ یہ مرکز ان دونوں سڑکوں کے کارنر پر واقع ہے۔ جب وہ مسجد کی تعمیر کرا رہے تھے تو اس سڑک سے گزرتے ہوئے کئی مرتبہ ان سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ اس زمانے میں ہم نے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کی بنیاد رکھی تھی اور جگہ جگہ صوبے بھر میں دیہاتی سکول قائم کرنا شروع کیے تھے۔ گنجہ میں بھی غزالی سکول کا افتتاح کرنے کے لیے مجھے حاضری کا موقع ملا۔ 
انگلینڈ میں پہلی ملاقات کے موقع پر محمد حسین صاحب نے بہت دل چسپ واقعہ سنایا تھا۔ فرمانے لگے کہ جب میں برطانیہ آیا تو بالکل لڑکپن کی عمر تھی۔ اس زمانے میں ہم سب لوگ یہاں اجنبی تھے۔ نئی زندگی شروع کی تھی اور پُر مشقت محنت مزدوری کرتے تھے۔ رہائش کے لیے ایک آدھ کمرہ کرائے پر لیتے تھے اور اس میں کئی ساتھی اکٹھے رہتے تھے۔ ڈیوٹیاں مختلف شفٹوں میں ہوتیں تو ایک ہی بستر باری باری استعمال میں آتا۔ وہ ایام بڑی تگ ودو میں گزرے۔ انھی ایام کی بات ہے کہ ایک دن میرے ایک ساتھی کے ماموں‘ جو برطانیہ ہی میں کسی دوسرے شہر میں مقیم تھے، اس سے ملنے کے لیے تشریف لائے۔ جب وہ پہنچے تو ان کا بھانجا ڈیوٹی پر گیا ہوا تھا۔ میں کمرے میں موجود تھا۔ میں نے ان کا استقبال کیا، حال احوال معلوم کیا، جو خاطر تواضع ممکن تھی‘ اس کا اہتمام کیا۔ بڑے خوشگوار ماحول میں باہمی تعارف بھی ہوا۔ میں نے اپنا نام بتایا۔ انہوں نے پوچھا کہ پاکستان میں میرا کہاں سے تعلق ہے؟ تو میں نے مختصر جواب دیا ''جی میرا تعلق گنجہ سے ہے‘‘۔
سوئے اتفاق کہ وہ مہمان سر سے بالکل گنجے تھے‘ غالباً انھوں نے کبھی سنا بھی نہیں ہوگا کہ گنجہ نام کاکوئی گاؤں ہے۔ وہ تھے بھی بٹ صاحب‘ ان کا سرخ چہرہ مزید لال ہوگیا۔ وہ سمجھے کہ میں نے ان کا مذاق اڑایا ہے۔ مجھ پر بے تحاشا برسنے لگے کہ تمھیں بڑوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا حضور واقعی میرے گاؤں کا نام گنجہ ہے۔ اس پر وہ مزید غصے میں آگئے۔ آخر مجھے جان چھڑانے کے لیے ایک تجویز سوجھی۔ اسی روز مجھے گھر سے خط آیا تھا اور اس زمانے میں رابطے کی صورت خطوط ہی ہوا کرتے تھے۔ ٹیلی فون کی سہولت نہیں تھی۔ میں نے خط اٹھایا اور بڑے ادب کے ساتھ ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس پر میرے گھر کا پتا لکھا تھا۔ پتا پڑھ کر ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور انہوں نے اپنی ڈانٹ ڈپٹ پر مجھ سے معذرت کی۔ محمد حسین صاحب جب بھی ملتے ہیں، یہ واقعہ یاد آ جاتا ہے۔
آج یہاں محمد حسین صاحب کے گھر پر بہت سے پرانے احباب سے ملاقات ہوئی۔ عمر حیات وڑائچ اور ان کے بیٹے شوکت، نیز مدثر اقبال، ندیم صفدر، محمد آصف تارڑ اور راجہ نثار بھی متحرک تھے۔ کئی نئے احباب بھی افطار پر مدعو کیے گئے تھے۔ یہاں ڈاکٹر عارف صاحب نے گفتگو کا موضوع ماہِ رمضان اور اس کے فضائل رکھا ہوا تھا۔ مختصر گفتگو کے بعد سوال وجواب کی نشست ہوئی تو معلوم ہوا کہ لوگوں کو رمضان اور اس کے فضائل پہلے ہی سے معلوم تھے۔ انہیں پاکستان اور عالمی حالات اور مختلف جگہوں پر ابھرتی ہوئی تحریکوں کے حوالے سے کچھ جاننے کی پیاس تھی۔ سبھی احباب نے بہت اچھے اور دل چسپ سوال کیے۔ سوال و جواب کی محفل بہت پُرلطف رہی۔ کچھ نوجوانوں نے اپنے مقامی حالات کے بارے میں بھی بہت اچھا تجزیاتی اور معلوماتی لوازمہ فراہم کیا۔ بہت سارے نوجوان تعلیم کے مدارج طے کرنے کے بعد نمایاں مناصب پر فائز ہیں۔ ان مناصب میں پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر دونوں میدانوں میں مسلمان نوجوان آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب یہاں ہمارے لوگوں کی تیسری اور چوتھی نسل چل رہی ہے‘ جو آغاز میں آنے والے لوگوں سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ اور اچھے مناصب پر فائز ہے۔
ہمارے گاؤں کے قریب اتّووالہ (گنجہ والے نہیں) کے چودھری محمد حسین سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔ اسی طرح چودھری عمر حیات وڑائچ کے بیٹے سے بھی ملاقات ہوئی، جو بہت فعال نوجوان ہے۔ ان دونوں نوجوانوں نے بہت اچھی تجاویز بھی دیں جن کے ذریعے اسلامی تحریکوں کا کام آگے بڑھ سکتا ہے۔ افطار اور نمازِ مغرب محمد حسین صاحب کے گھر ادا کرنے کے بعد ہم لوگ سلاؤ مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ مسجد کے خطیب اور امام مولانا عبدالجبار کا تعلق ملہووالی ضلع اٹک سے ہے اور وہ مولانا عبدالمالک آف ملہووالی کے بھائی ہیں۔ سلاؤ مسجد میں پہنچے تو کئی نمازی آگے بڑھ کر ملے۔ مجھے تو یاد نہیں تھا مگر انہوں نے ماضی میں ہونے والی ان ملاقاتوں کا تذکرہ کیا اور پرانی مسجد میں ہونے والے بعض پروگراموں کے حوالے سے اپنی یادداشتیں پیش فرمائیں۔ سلاؤ کی موجودہ مسجد عرب حضرات کے تعاون سے تعمیر ہوئی ہے اور بہت بڑی اور خوب صورت مساجد میں سے ایک ہے۔
حافظ محمد اصغر صاحب کے پوتے حافظ اسماعیل ہارون بالکل نوعمر ہیں۔ انہوں نے نماز تراویح میں بہت اچھے انداز میں عربی لہجے میں قرآن مجید کی تلاوت کی۔ حافظ اسماعیل نے قرآن پاک عرب امارات میں یاد کیا ہے، جہاں ہارون صاحب بسلسلہ ملازمت مقیم ہیں۔ نماز تراویح کے بعد حافظ اصغر صاحب کی فرمائش پر مختصر وقت میں تلاوت شدہ منزل کا انگریزی میں خلاصہ مضامین پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مسجد میں بہت سے عرب دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان سے پہلے کوئی تعارف نہیں تھا۔ ایک عرب دوست کا تعلق الجزائر سے جب کہ ایک دوسرے دوست کا تیونس سے تعلق تھا۔ ان دونوں ملکوں کے حالات پر بھی تبادلۂ خیال ہوا۔ تیونس میں اسلامی انقلاب اور تبدیلی کے حوالے سے تیونسی بھائی یقین کی حد تک پُرامید تھے۔ بعد کے حالات و واقعات نے ثابت کر دیا کہ تیونس کے مسلمان طویل عرصہ تک اسلام دشمن حکمرانوں کے جبر و مظالم کے باوجود خود کو اسلام سے وابستہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بہت خوش آئند اور حوصلہ افزا بات ہے۔ اللہ تعالیٰ تیونس کی طرح دیگر ممالک میں بھی دینِ حق کے غلبے کی صورت پیدا فرمائے۔ نماز کے بعد گھر واپس آئے تو کافی رات بیت چکی تھی۔ ایک روز اور گزر گیا۔
تکان کی وجہ سے کمرے میں پہنچتے ہی میٹھی نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ الارم کی آواز پر سحری کے وقت اٹھ گیا تھا مگر الارم کو بند کیا تو پھر آنکھ لگ گئی۔ حافظ اصغر صاحب کی میٹھی آواز نے جگایا تو جلدی سے اٹھ کر وضو کیا اور ان کے ساتھ بیٹھ کر سحری کا لطف اٹھایا۔ سحری کے بعد مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ راستے میں ایک عرب دوست کو بھی ساتھ لینا ہے، چنانچہ وہ ہمارے منتظر تھے۔ جونہی گاڑی ان کے دروازے کے قریب پہنچی، وہ فوراً آکر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ مسجد تک ان سے خوب تبادلۂ خیال رہا۔ انہوں نے اپنا نام بھی بتایا تھا مگر اس وقت میرے ذہن میں نہیں آ رہا۔ عرب بھائی بڑی محبت کرتے ہیں اور ہر فقرے پر اتنی جامع دعائیں دیتے ہیں کہ طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔ یہ عربی زبان کا بھی کمال ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کی قرآن و حدیث پر گہری نظر ہوتی ہے۔ فجر کی نماز میں ماشاء اللہ نمازیوں کی بھرپور حاضری تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں