قربانی سنت ِ ابراہیمی ؑ!

قربانی ایک عبادت ہے۔ اس کے خلاف ایک طبقہ عرصے سے زہریلا پروپیگنڈا کرتا رہا ہے۔ اس سال کورونا کا بہانہ بھی اس میں شامل کرلیا گیا ہے۔ کورونا کو صرف عباداتِ اسلامی پر فٹ کر دینا ایک مریض ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ قربانی کا تصور تمام آسمانی مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے واقعہ میں ارشاد ربانی ہے: ''اور (اے محمد!) ان کو آدمؑ کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں)‘ پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے خدا (کی بارگاہ میں) کچھ نیازیں چڑھائیں تو ایک کی نیاز تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ (تب قابیل ہابیل سے) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کروںگا۔ اس نے کہا کہ خدا پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول فرمایا کرتا ہے۔‘‘(المائدۃ5:27) 
قرآن پاک کی اس آیت سے آج بھی آپ یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ قربانی کی قبولیت کا ربانی پیمانہ کیا ہے۔ جانور میں کوئی نَقص نہ ہو، یہ تو ہرمسلمان کو معلوم ہے، مگر نیت کا اخلاص، رزق روزی اور ذرائع آمدنی کا حلال ہونا اور سب سے بڑھ کر تقویٰ کی صفت‘ قبولیتِ قربانی کا اصل معیار ہے۔ قرآن پاک میں قربانی کا تفصیلی ذکر سورۃ الحج میں ہے اور وہاں اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے اسی مضمون پر پورے تذکرۂ قربانی کا اختتام فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اور ان (جانوروں) کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس نے ان کو تمھارے لیے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اس کی تکبیر بلند کرو۔ اور اے نبیؐ، بشارت دے دو نیکوکار لوگوں کو‘‘۔ (الحج۲۲:۳۷)قربانی کے لفظ سے واضح ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہے۔ قربانی کی مختلف صورتیں اور درجات ہیں۔ ان میں پہلا درجہ خواہشات کی قربانی ہے اور آخری درجہ جان کی قربانی ہے۔ اس کے درمیان میں مال، اوقات اور صلاحیتوں کی قربانی کے مراحل آتے ہیں، مگر لفظ قربانی جب مطلق یعنی اکیلا بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ قربانی ہوتی ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم قربانی کی یاد کے طور پر عید الاضحی میں جانور ذبح کرنے کی صورت میں دی جاتی ہے۔ابراہیم علیہ السلام کو اپنا لختِ جگر قربان کرنے کا حکم ملا تھا۔ اسماعیل ؑ کو ان کے والد ابراہیم ؑ خلیل اللہ نے اللہ کے حکم پر قربانی کے لیے پیش کردیا۔ اس وقت آپ کے یہی اکلوتے بیٹے تھے۔ اس پورے واقعہ کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اتنے پیار بھرے انداز میں کیا ہے کہ متعلقہ آیات پڑھ کر بندۂ مومن کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ جب خلیل اللہ ابراہیم ؑ نے اپنے اکلوتے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی اور اللہ کے حکم کو باپ بیٹے نے عملی جامہ پہنادیا تو اللہ تعالیٰ نے پکار کرکہا: ''اے ابراہیم ؑ تو نے خواب سچ کردکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمایش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا‘‘۔ (الصافات37: 104تا 107)یہ قربانی جنت سے بھیجا گیا‘ سینگوں والا ایک موٹا تازہ مینڈھا تھا جو جبریل لے کر آئے تھے۔ آنحضورﷺ بھی اونٹوں اور مینڈھوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔ 
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد اپنی مدنی زندگی میں ہرسال قربانی کا باقاعدگی سے اہتمام کیا۔ اس باب میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث صحاحِ ستہ کے اندر موجود ہیں۔ قربانی کی اہمیت اور ثواب واجر کے حوالے سے یہاں ایک حدیث ملاحظہ فرمائیے: حضرت زید بن ارقمؓ کی روایت ہے کہ صحابہ نے پوچھا: یارسول اللہﷺ قربانی کی حقیقت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ''یہ تمھارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت ہے‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسول اللہؐ اس سے ہمیں کیا ملتا ہے؟ آپ نے فرمایا: جانور کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملتی ہے۔ پوچھا: بھیڑ اور دنبے کے بالوں (صوف) کا کیا حکم ہے؟ تو فرمایا: اس کے بھی ہر بال کے بدلے میں نیکی لکھی جاتی ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الاضاحی)اس قربانی کے بارے میں دنیا کی ہر زبان میں مختلف چھوٹی بڑی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ یہ ایک عبادت ہے جس کے فضائل واحکام حدیث وفقہ کی کتابوں میں تفصیل سے ملتے ہیں۔ البتہ عصرِ حاضر میں مختلف قسم کے فاسد خیالات اور مخصوص عزائم رکھنے والے عناصر جو دین کا حقیقی تصور بدل دینے کے لیے حیلہ سازیاں اور چالیں چلتے ہیں، قربانی پر مختلف النوع اعتراضات کرتے رہتے ہیں۔ ان اعتراضات کا علمائے حق نے کافی وشافی جواب دیا ہے۔ اس موضوع پر سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا کتابچہ ''قربانی کی شرعی حیثیت‘‘ نام نہاد سکالرز کے روپ میں ان منحرفین کے تمام لغو اعتراضات کا مسکت جواب ہے۔ 
آج کل بھی بہت سے نام نہاد متجددین اپنی ذاتی رائے سے دین کی وہ تاویلات پیش کرتے ہیں جو قرآن وسنت سے بالکل متضاد ہیں۔ قربانی کے بارے میں بھی بہت غیر مناسب الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے جس زمانے میں یہ کتابچہ لکھا اس دور کے منحرفین اور موجودہ زمانے کے مغرب زدہ طبقات کی فکر ایک ہی ہے۔ مولانا مودودی نے منکرین حدیث کی تحریروں کا جواب دیتے ہوئے ان کے اقتباسات نقل فرمائے ہیں:''قربانی کی رسم تمام دنیا کی وحشی اور مَدَنی قوموں میں تھی۔ آج سوائے مسلمانوں کے کوئی اس کو ادا نہیں کرتا۔ یہ کیونکر ضروری ہوگیا کہ غیرحاجی خواہ مخواہ اس بے محل اور مسرفانہ رسم میں حصہ لیں۔ یہ روپیہ جو بکرے کی گردن پر چھری پھیرنے اور اسے زمین میں گاڑدینے کے لیے صرف کیا جاتا ہے، قومی اداروں کو ملنا چاہیے۔ وہ اس روپے سے ہر سال ایک عظیم الشان تجارتی بینک کھول سکتے ہیں، قرآن حکیم اور دوسرے علوم کی توسیع واشاعت کرسکتے ہیں، اعتقادات واخلاق کی اصلاح کرسکتے ہیں، بیواؤں اور ناداروں کی مدد کرسکتے ہیں، اور ہزاروں نیکی کے کام کرسکتے ہیں بشرطیکہ تقلید کے جال سے آزاد ہوجائیں اور فضول بلکہ مضر رسوم کو چھوڑ دیں‘‘۔
اندازہ کیجیے کہ قرآن وسنت کے محکم اور مسلّمہ احکام کی موجودگی میں قربانی جیسی عبادت کے خلاف کس قدر بدبودار زبان استعمال کی گئی ہے۔ اس کے جواب میں مولانا تحریر فرماتے ہیں: یہ قرآن سے کھلا ہوا معارضہ نہیں تو اور کیا ہے؟ قرآن حکیم ایک چیز کا حکم دیتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ پہلے اس کے عقلی وتجربی فوائد پر روشنی ڈالی جائے۔ قرآن ایک چیز کے متعلق کہتا ہے کہ لَکُمْ فِیْہَا خَیْرٌ (تمھارے لیے اس میں بھلائی ہے) اور آپ اسے ایک فضول مسرفانہ رسم قرار دیتے ہیں۔ قرآن ایک چیز کو شعائراللہ میں شمار کرتا ہے اور خبردیتا ہے کہ اللہ نے اس کو مقرر کیا ہے، مگر آپ اس کے مقابلے میں مغربی مستشرقین کی یہ تحقیق پیش فرماتے ہیں کہ یہ عہدِ جاہلیت کی ایک رسم تھی۔ ع
بسوخت دیدہ ز حیرت کہ ایں چہ بوالعجبیست
قرآن پر ایمان رکھنے کا دعویٰ اور پھر قرآن کے مقابلے میں یہ جرأت!... آج آپ کے اپنے ملک میں لاکھوں اللہ کے بندے ایسے ہیں جنہیں ہفتوں اور مہینوں اچھی اور قوت بخش غذا نصیب نہیں ہوتی۔ کیا ان کو یہ صدقہ اور ہدیٰ اور نُسک کے ذریعے سے گوشت بہم پہنچانا آپ کی رائے میں اصولِ معیشت کے خلاف ہے؟ لاکھوں انسان اور گلہ بان ہیں جو سال بھر تک جانور پالتے ہیں اور بقر عید کے موقع پر ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیا ان کی روزی کا دروازہ بندکرنا آپ کے نزدیک بیروزگاروں کو روزگار مہیا کرنا ہے؟ ... پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ کو تمام قومی ضروریات اور سارے فوائد ومنافع صرف اسی وقت یاد آتے ہیں جب خدا کے کسی حکم کی پابندی میں روپیہ صرف ہورہا ہو؟ گویا کہ بینکوں کا قیام اور قومی ادارات کا فروغ اور اعتقاد واخلاق کی اصلاح اور یتیموں اور بیواؤں کی پرورش کا سارا کام صرف قربانی ہی کی وجہ سے رُکا پڑا ہے۔ ادھر یہ بند ہوئی اور اُدھر قومی اداروں پر روپیہ برسنا شروع ہوجائے گا۔‘‘......(قربانی کی شرعی حیثیت، صفحہ17تا 18)
الحمدللہ ان منحرفین کی ریشہ دوانیاں دم توڑ چکی ہیں۔ آج کورونا کی دہائی دے کر قربانی روکنے کی باتوں پر بھی مسلمان کان نہیں دھریں گے۔ مسلمان اس بات پر یکسو ہیں کہ سنتِ مطہرہ کے مطابق قربانی کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس موقع پر ہر غریب وناتواں بھی گوشت کھانے کے قابل ہوجاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں