سیرتِ طیبہ میں معاہدۂ حدیبیہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ معاہدے کی شرائط بظاہر کفار کے حق میں اور اہلِ اسلام کے خلاف نظر آتی تھیں۔ عمرہ کیے بغیر واپس چلے جانا صحابہ کرام کو ناگوار گزر رہا تھا۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ ابوجندلؓ جو مکہ میں قبولِ اسلام کی پاداش میں زنجیروں میں جکڑے گئے تھے‘ کسی نہ کسی طرح گرتے پڑتے حدیبیہ آ پہنچے اور آپﷺ کے قدموں میں گر گئے۔ اس وقت تک آپﷺ معاہدہ کر چکے تھے جس کے مطابق مکہ سے مدینہ آنے والوں کو واپس بھیجنے کی شرط طے پا گئی تھی۔ ابوجندلؓ کو جب واپس کیا جا رہا تھا تو صحابہ کرامؓ کے دلوں پر آرے چل رہے تھے مگر سوچیے کہ دشمنوں کی تکلیف پر بھی بے چین ہو جانے والے رحمۃ للعالمینﷺ کے دل کی کیا کیفیت ہو گی۔ اس کے باوجود آپﷺ نے معاہدے کی پابندی کی اور اپنے جاں نثار ابوجندلؓ کو شفقت و پیار کے ساتھ واپس بھیج دیا۔ اطاعت و وفا شعاری کا کمال دیکھیے کہ ظلم رسیدہ صحابی کوئی حرفِ شکایت زبان پر لائے بغیر خود کو کفار کے حوالے کر دیتے ہیں۔
بظاہر یہ نظر آ رہا تھا کہ مسلمانوں نے دب کر معاہدے کی شرائط مان لی ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے اسے فتحِ مبین قرار دیا تو واقعی یہ فتحِ مبین ثابت ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ قریش نے آنحضورﷺ کے ساتھ معاہدہ کرکے آپﷺ کی حیثیت اور اسلامی ریاست کے وجود کو عملاً تسلیم کر لیا۔ قریش سے جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو اسلامی ریاست کو جزیرہ نما عرب میں اپنے سب سے بڑے دشمن کی طرف سے امن میسر آ گیا اور مدینہ میں دشمن کے حملوں سے عام آبادی کو بھی امن و اطمینان نصیب ہوا۔ پھر نبی اکرمﷺ نے گرد و نواح کے ملوک و شاہان اور ان کے ذریعے ان کی اقوام کو اسلام کی دعوت کے لیے خطوط لکھے۔ آپﷺ پوری بشریت کی طرف ہادی بنا کر مبعوث کیے گئے تھے۔ اس عرصہ میں آپﷺ نے اپنا عالمگیر فریضۂ ابلاغ بطریق احسن ادا کیا۔ کئی بادشاہوں نے آپﷺ کی دعوت و شخصیت کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کیا اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے تو اسلام قبول کر کے آپﷺ کو اپنی مکمل وفاداری کا یقین بھی دلا دیا۔
اس تاریخی معاہدے کے نتیجے میں قریش نے مسلمانوں کو نہ صرف ایک سیاسی قوت مان لیا بلکہ مذہبی لحاظ سے بھی ان کے وجود کو ان معنوں میں تسلیم کر لیا کہ اگلے سال مسلمان اجتماعی طور پر خانہ کعبہ کا طواف اور مناسکِ عمرہ ادا کریں گے۔ تین دن اُن کا مکہ میں قیام رہے گا اور قریش اپنے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں پر چلے جائیں گے۔ اس معاہدے نے یہ بات پورے عرب میں تمام لوگوں کے دلوں میں ثبت کر دی کہ اگر مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بزورِ قوت نکالا گیا تھا تو قریش کو بھی اس معاہدے کی بدولت اپنے گھروں سے نکلتے ہی بنی۔ پھر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مکہ بھی فتح ہو گیا۔
کئی قبائل جو ابھی تک حالات کے انتظار میں گومگو میں تھے، اب سنجیدگی سے اسلام کی طرف مائل ہونے لگے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عرصے میں ان علاقوں پر فتوحات بھی حاصل کیں، جن کے نتیجے میں اسلامی ریاست اور اس کے شہری طویل عرصے کی معاشی تنگی اور فقر و فاقہ سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ فتح کے یہ اثرات تو بالکل ظاہر تھے اور سب لوگوں کو نظر آ رہے تھے لیکن اس کے علاوہ بھی قدم قدم پر اللہ نے یہ ثابت کیا کہ کفار کی قوت زوال پذیر ہوتی چلی گئی اور مسلمان سیاسی و عسکری پیش قدمی کے ساتھ نظریاتی و فکری میدان میں بھی مسلسل آگے بڑھتے چلے گئے۔
حضرت ابو جندلؓ اور ان کی طرح دیگر مسلمان نوجوانوں کی مدینہ آمد پر پابندی کو قریش اپنی بڑی کامیابی سمجھ رہے تھے لیکن یہی چیز ان کے لیے وبالِ جان بن گئی۔ ابوجندلؓ کو ان کے ساتھیوں نے بندی خانے سے نکال لیا اور یہ لوگ ایک پہاڑ پر مقیم ہوگئے۔ اسی طرح سے ابوبصیرؓ اور ان کے ساتھیوں نے بھی مکہ کے باہر ڈیرے ڈال لیے۔ یہ مدینہ کے شہری نہیں تھے اس لیے ان کے کسی عمل کی ذمہ داری بھی نبی اکرمﷺ یا ریاست مدینہ پر عاید نہیں ہوتی تھی۔ ان مسلمان نوجوانوں کا وجود قریش کے تجارتی قافلوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن گیا۔ چنانچہ قریش نے آنحضورﷺ سے درخواست کرکے اس شرط کو ختم کروایا اور یہ مسلمان باعزت اور آزادانہ مدینہ جانے میں کامیاب ہوگئے۔ اب سب کو معلوم ہوا کہ یہ شرط عملاً اہلِ ایمان کے حق میں اور کفار کے خلاف تھی۔ سب سے اہم بات اس وقت لوگوں کی سمجھ میں آئی جب مکہ سے مسلمان خواتین کسی نہ کسی طرح ہجرت کرکے مدینہ آ پہنچیں۔
جب حضرت اُمِّ کلثومؓ بنت عقبہ بن ابی معیط ہجرت کرکے مدینہ پہنچیں تو مکہ سے ان کے بھائی صلح حدیبیہ کے معاہدے کو بنیاد بنا کر انہیں واپس لینے کے لیے آگئے۔ سورۃ الممتحنہ اس عرصے میں نازل ہو چکی تھی اور اس میں ہجرت کرکے مدینہ آنے والی خواتین کو کافروں کے حوالے کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ ارشادِ ربانی ہے: ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب مومن عورتیں ہجرت کرکے تمھارے پاس آئیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ نہ وہ کفار کے لیے حلال ہیں اور نہ کفار اُن کے لیے حلال۔ یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تمھارے درمیان فیصلہ کرتا ہے اور وہ علیم و حکیم ہے۔‘‘ (سورۃ الممتحنہ 10:60)
اگر مسلمان انہیں یہ کہتے کہ ہمیں اللہ نے ان خواتین کو واپس کرنے سے روک دیا ہے تو کافروں کے لیے یہ دلیل کوئی حقیقت نہیں رکھتی تھی۔ اللہ رب العالمین نے سورۃ الفتح میں حدیبیہ کو فتحِ مبین قرار دیا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ قدم قدم پر اس سے فتوحات برآمد ہوتی چلی گئیں۔ آپﷺ نے حضرت ام کلثومؓ کے برادران سے فرمایا کہ جس معاہدے کا تم حوالہ دے رہے ہو، اس میں مردوں کا ذکر تو ہے، تمھارے سفیر نے عورتوں کا ذکر نہیں کیا تھا۔ جب معاہدے کے الفاظ دیکھے گئے تو اس میں مرد تو مذکور تھے، عورتیں نہیں۔ آپﷺ نے معاہدے کے الفاظ دہراتے ہوئے فرمایا: کَانَ الشّرْطُ فِی الرِّجَالِ دُوْنَ النِّسَآئِ یعنی شرط مردوں کے بارے میں تھی نہ کہ عورتوں کے بارے میں۔ پس سردارانِ قریش ناکام ہوئے اور فتحِ مبین یہاں بھی ظاہر ہوئی۔
حدیبیہ کا صلح نامہ طے ہونے کے بعد جب تحریر کیا جا رہا تھا تو اس وقت بھی بڑا دلچسپ بحث مباحثہ ہوا اور بڑی رد و کد ہوتی رہی۔ زبانی طور پر شرائط طے ہوجانے کے بعد جب معاہدہ تحریری شکل میں کاغذ پر منتقل کرنے کا مرحلہ آیا تو سب سے پہلے سوال یہ پیدا ہوا کہ کون لکھے۔ یہ کوئی اہم بات نہیں تھی البتہ سہیل بن عمرو نے کہا کہ اس معاہدے کو علیؓ بن ابی طالب لکھیں یا عثمانؓ بن عفان۔ یہ دونوں جید صحابہ لکھنے پڑھنے میں مہارت رکھتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو معاہدہ لکھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے معاہدے کے آغاز میں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھا تو سہیل بن عمرو نے ''رحمن‘‘ لفظ پر اعتراض کیا۔ قریش کے لوگ اللہ کے صفاتی نام رحمن کو نہ جانتے تھے نہ مانتے تھے۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے: ''ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں رحمن کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اُسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں؟ یہ دعوت ان کی نفرت میں اُلٹا اور اضافہ کر دیتی ہے‘‘۔ (الفرقان 60:25)
مسلمانوں کو سہیل بن عمرو کے اس اعتراض پر تعجب بھی ہوا اور غصہ بھی آیا مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل سے پوچھا کہ کیا لکھا جائے تو اس نے کہا: بِسْمِکَ اللّٰھُمَّ (اے اللہ تیرے نام سے ہم آغاز کر رہے ہیں) لکھیں۔ چنانچہ آپﷺ کے حکم سے یہی الفاظ لکھے گئے۔ اسی طرح جب یہ لکھا گیا کہ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ اور قریش کے درمیان طے پایا ہے تو سہیل بن عمرو نے اعتراض کیا کہ ہم تو ان کو رسول اللہ نہیں مانتے۔ ایک طرح سے اس کی بات درست تھی کہ اگر وہ آپﷺ کو اللہ کا رسول مان لیتے تو جھگڑا کاہے کو ہوتا؛ تاہم حضرت علیؓ کے لیے یہ بڑا مشکل مرحلہ تھا کہ وہ اپنے قلم سے ''رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کاٹ دیں۔ آنحضورﷺ نے خود قلم پکڑ کر ان الفاظ پر پھیر دیا اور فرمایا کہ لکھو یہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبد اللہ اور قریش کے درمیان طے پایا ہے۔
اللہ رب العالمین نے اس پورے واقعہ اور معاہدہ کا تذکرہ کرنے کے بعد خود اپنی گواہی اور شہادت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَھِیْدًا۔ سورۃ الفتح میں اللہ نے آپﷺ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ کی بھی تعریف و تائید کی ہے۔ صحابہ کرامؓ واقعی سیرت رسولﷺ کا عکس تھے۔ ہمارے لیے بھی وہی روشنی کے مینار ہیں۔ آج ہم فتح مبین کے متمنی تو ہیں مگر نہ وہ ایمان و ایقان ہے، نہ وہ اخلاص و اطاعت جو صحابہ کرامؓ کی پہچان تھی۔ پھر تمنا کیسے پوری ہو؟ اللہ ہمیں صحابہ کرامؓ کی روشن زندگیوں کو اپنانے کی توفیق بخشے۔ آمین!
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے