مظلوم کی آہ اور عرشِ عظیم!

مظلوم کی آہ عرشِ عظیم تک پہنچتی ہے۔ مظلومینِ پشاور کی آہوں کا نتیجہ ان شاء اللہ نکلے گا، مگر ہم بحیثیت قوم اپنا فرض کب ادا کریں گے؟ اعجاز رحمانی مرحوم نے کتنی خوب صورت بات کہی تھی:
اب رسمِ مصلحت کو اٹھا دینا چاہیے
سولی پہ قاتلوں کو چڑھا دینا چاہیے
اللہ کی زمین پہ جو برپا کریں فساد
ان کو اسی زمین میں دبا دینا چاہیے
چھ سال بیت گئے‘ دلوں کے زخم ہنوز تازہ ہیں۔ پشاور میں 16 دسمبر 2014ء کو جو قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی اس کے اثرات اب تک دلوں میں غم کی لہریں اٹھارہے ہیں اور یہ مستقبل میں بھی ہمیشہ محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ جن خاندانوں کے چشم و چراغ، پھول اور کلیاں اس ظلم و سفا کی کی بھینٹ چڑھے وہ تو اس واقعہ کو کبھی نہیں بھول سکیں گے۔ ان کی آنے والی نسلیں بھی اسے ایک سوگ اور اندوہ کے ساتھ یاد کیا کریں گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں بہت بڑے آپریشن جاری ہوں اور دو درجن سے زائد سکیورٹی ادارے بھی ملک میں سرگرم عمل ہوں تو ایسی غفلت، بے خبری اور لاپروائی کا کیا جواز ہے؟ یہ سکول جس میں قیامت گزری کسی دور دراز ویران جگہ پر نہیں بلکہ پشاور جیسے اہم ترین صوبائی صدر مقام کے پُررونق علاقے میں واقع ہے۔ سکول کا نام (آرمی پبلک سکول) بذاتِ خود اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ اس سکول میں سویلین آبادی کے بچے بھی پڑھتے ہوں گے مگر زیادہ تر مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے نونہال یہاں زیرِ تعلیم ہوں گے۔ فوج خود دفاعی ادارہ ہے اور اس کے 
حفاظتی انتظامات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فول پروف ہیں؛تاہم دہشت گردی کے اس سانحے نے پوری قوم میں بددلی اور مایوسی کی کیفیت پیدا کر دی تھی۔جب یہ واقعہ رونما ہوا تھا تو ملک ہی نہیں پورا عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا سکتے میں آگئی تھی۔ واقعہ قابل مذمت بھی تھا اور رہے گا، مگر لمحۂ فکریہ بھی ہے کہ ہم کیسے معاشرے اور کیسی حکومتوں کے تحت زندگی بسر کررہے ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو حادثے کے پہلے ہی دن بہت واضح الفاظ میں کہا گیا تھا کہ دہشت گرد پہچان لیے گئے ہیں، ان کی اصلیت ظاہر ہوگئی ہے، کہاں سے انہیں ہدایات مل رہی تھیں اور کون لوگ ان کے ساتھ رابطے میں تھے، سب کچھ معلوم ہوچکا ہے۔ جاری کردہ اطلاعات کے مطابق یہ سارے دہشت گرد قتل ہوگئے تھے۔ چھ سال گزر گئے، آج تک پوری تفصیلات معلوم نہیں ہو سکیں۔ یہ معلوم نہیں کہ ان میں سے کوئی دہشت گرد وہاں سے نکل کر بھاگنے میں بھی کامیاب ہوا تھا یا نہیں، کیا قتل ہونے والے دہشت گردوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے گئے تھے‘ ان کا رزلٹ کیا تھا؟ قوم آج تک اندھیرے میں ہے۔
اصل حقائق قوم تک پہنچانا حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے، جس کا ہمارے ہاں ہمیشہ فقدان رہا۔ اگر مجرم معلوم ہو جائیں اور ان کے تانے بانے اور ڈانڈوں کو طشت ازبام کر دیا جائے تو آئندہ کی پیش بندی اور احتیاطی تدابیر آسان ہو جاتی ہیں۔ نیز عوام الناس بھی مطمئن ہوتے ہیں کہ ہمارے سرکاری ادارے بیدار اور فرض شناس ہیں اور اپنا اپنا کام ٹھیک انداز میں کر رہے ہیں۔ اب تک ہماری پالیسی یہ رہی کہ حادثہ ہونے کے وقت اعلانات تو کیے جاتے ہیں مگر بعد میں نتیجہ صفر برآمد ہوتا ہے۔ پھر جو مجرم پکڑے بھی جائیں اُن کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ اُن کا انجام کیا ہوا؟ کیا ہماری سرزمین پر ریمنڈ ڈیوس کے قبیح جرم اور پھر اُس کے بغیر کسی تادیب و سزا کے ملک سے بھگا دیے جانے کو قوم بھول سکتی ہے؟ 
اسی طرح ہمارے بدترین دشمن انڈیا کے وہ ایجنٹ جنہوں نے یہاں دھماکے کیے، پھر پکڑے گئے، کئی انسانی جانوں کے قاتل ثابت ہوگئے اور عدالتوں نے اُنہیں سزا بھی دے دی مگر حکمرانوں نے کمال غیرذمہ داری سے بزدلی کی چادر اوڑھنے کا فیصلہ کرلیا۔ دشمن ملک بھارت سے خیرسگالی کی خاطر اپنے شہریوں کے خون کو روندتے ہوئے ان مجرموں کو چھوڑ دیے جانے کا جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ کیا سربجیت سنگھ کا واقعہ ہم بھول سکتے ہیں؟ اب کلبھوشن یادیو کے بارے میں معلوم نہیں‘ کیاہوتا ہے۔ ظالم کی حفاظت اور مظلوم کو نظرانداز کرنا اللہ کے غضب کا باعث بنتا ہے۔ سزائے موت کا حکم کسی پارلیمانی قانون کے نتیجے میں نافذ نہیں ہوا تھا، یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے قصاص کا قانون عطیۂ خداواندی ہے۔ یہ فیصلہ عدالت نے پورا کیس سننے کے بعد صادر کیا تھا۔ اگر ایسے فیصلوں کا نفاذ ہوجائے تو اس کے نتیجے میں یقینا قتل کی وارداتوں میں کمی ہوتی ہے۔ یورپی یونین اور امریکا کے دبائو پر اس قانون کو معطل کرنا کیا اللہ تعالیٰ سے بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا؟ 
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی 
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے! 
پشاور کا یہ سانحہ رونما ہونے کے بعد چند مثبت چیزیں سامنے آئیں۔ ہر اچھی بات کی تحسین کی جانی چاہیے۔ پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں کے راہنمائوں نے ایک متفقہ موقف اختیار کیا جو نہایت خوش آئند تھا۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب نے اپنے طویل دھرنے کے خاتمے کا اعلان کیا اور وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب نے سزائے موت پر عمل درآمد کے تعطل کو ختم کرتے ہوئے قانونِ قصاص کو بحال کر دیا۔ یہ تمام امور تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوئے تھے۔ ہم ان نے سب کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ امن دشمن اور دہشت گردی کے مرتکبین کو قرار واقعی سزا ملے گی۔ نیز یہ کہ اصل مجرم باقاعدہ قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد جب سزائے موت کے مستحق قرار پائیں تو کسی ادارے یا شخصیت، خواہ و ہ پارلیمان ہو یا صدرِ مملکت، کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ قاتلوں کو معاف کر دیں۔ 
ایک اور بات جس کی طرف ہم تمام موجودہ اور آئندہ ذمہ دارانِ حکومت اور رائے عامہ کو متاثر کرنے والی شخصیات کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہر پاکستانی کو یاد ہوگا کہ اندرا گاندھی نے 16 دسمبر 1971ء کے سانحۂ مشرقی پاکستان کے موقع پر بڑے تکبر سے کہا تھا کہ ہم نے نظریۂ پاکستان کو خلیج بنگالہ میں ڈبو دیا ہے۔ آج پھر انڈیا میں اندرا گاندھی سے بھی بدتر پاکستان اور مسلم دشمن سیاست دان نریندر مودی حکمران ہے۔ 16 دسمبر 2014ء کے اس واقعہ میں بھارتی کردار کو بھی یکسر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اسی طرح امریکا کی بلیک واٹر ملک کے چپے چپے پر موجود ہے۔ بھارتی را، اسرائیلی موساد اور امریکی سی آئی اے ہر ملک اور قوم سے اپنے ایجنٹ بھرتی کرتے ہیں۔ اگر کوئی بھی تنظیم ذمہ داری قبول کرتی ہے تو یقینا جرم کی ذمہ دار وہی ہوتی ہے۔ مگر ایسی تمام تنظیموں کا گہرائی میں جا کر مطالعہ کرنا چاہیے کہ ان کے اصل ڈانڈے کہاں ملتے ہیں، اُن کی بنیاد کس نے رکھی اور اُن کی مالی مدد کون کر رہا ہے۔ 
اگر قومی وحدت پر اتفاق رائے خدا خدا کر کے پیدا ہوجائے اور سیاسی وذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اہم قومی ایشوز پر تمام قوتیں ایک موقف اپنائیں تو ہماری دفاعی قوت اور اندرونی سلامتی میں بہت بہتری آسکتی ہے۔ ملک میں حکومتیں بدلتی ہیں۔ ہر حکمران، سابقہ ہو یا موجودہ ایک دوسرے کو گالیاں دینا ضروری سمجھتا ہے، مگر ہر ایک کی پالیسی ایک ہی ہوتی ہے۔ اس وقت تو متحدہ اپوزیشن(پی ڈی ایم) اور حکومت‘ دونوں ہی تمام اخلاقی حدود کو پامال کرنے کو اپنی قابلیت اور بہادری سمجھتے ہیں۔ خدارا! اب تو بالغ نظری کے ساتھ قومی معاملات پر متفقہ سٹینڈ لینے کی روایت قائم کریں۔ 
مودی نے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کیا کہ کشمیر جنت نظیر کو ہڑپ کرگیا، مگر دنیا خاموش تماشائی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو حق شہریت سے محروم کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ بھارت اپنے قبیح جرائم کی وجہ سے اس وقت اندرونی مسائل کی دلدل میں بری طرح پھنس گیا ہے۔ ان حالات میں ایک زندہ قوم بن کر اپنی غیرت کا مظاہرہ کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے حالات میں بہتری پیدا نہ ہو۔

 

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق 
نے ابلۂ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند!

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں