مظلوم کی حمایت اور ظلم کا تدارک!

ہمارے معاشرے میں ہر جانب ظلم کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ مظلوم کی دادرسی کا کوئی انتظام موجود نہیں۔ رسولِ رحمتﷺ کی زندگی قبل از بعثت کے یادگار واقعات میں سے ایک بہت اہم واقعہ وہ حلف ہے جو قریش کے مختلف خاندانوں کے چند باضمیر نوجوانوں نے طے کیا۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس معاہدے میں ایک رکن کے طور پر شریک تھے۔ یہ واقعہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک کے بیسیویں سال کا ہے۔ عربوں کی ساری خرابیوں کے باوجود ان کے اندر اخلاقِ حسنہ کی بعض باقیات موجود تھیں۔ ظلم کے خلاف کبھی کبھار ان کی رگِ حمیت جاگ اٹھتی تھی اور وہ ظالم سے مظلوم کا حق دلانے کے لیے سینہ سپر ہوجاتے تھے۔
تاریخی واقعہ ہے کہ قبیلہ بنوزبید کا ایک شخص کچھ مال تجارت لے کر مکہ آیا۔ اس کی بیٹی بھی اس کے ساتھ تھی۔ اس تاجر سے اس کا سامان مکہ کے مشہور مال دار سردار عاص بن وائل نے خرید لیا لیکن اس نے سینہ زوری کرتے ہوئے اس تاجر کی بیٹی کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ وہ اجنبی شخص خانہ کعبہ میں آیا اور خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر بلند آواز سے روتے پیٹتے ہوئے فریاد کرنے لگا: اے شہر مکہ کے شرفا! تمہارے بااثر آدمی عاص بن وائل نے مجھ سے زبردستی میری بیٹی چھین لی ہے۔ میں مسافر اور مظلوم ہوں، تمہاری خدمت میں درخواست گزار ہوں کہ میری داد رسی کرو اور میری بیٹی مجھے واپس دلاؤ۔
قریش کے کچھ نوجوانوں نے اس مظلوم کی آہ وپکار سنی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ مردانگی کا تقاضا ہے اس مسافر کی دادرسی کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کے اندر ایک مظلوم کی دادرسی کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ان لوگوں کے دل خیر پر آمادہ کردیے۔ طبقات ابن سعد، البدایۃ والنہایۃ اور دیگر اہم کتب میں بیان ہوا ہے کہ مظلوم کی پکار پر لبیک کہنے والے لوگ بنوہاشم، بنوزہرہ اور بنوتیم بن مرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ سب سے پہلے اس مظلوم کی پکار پر لبیک کہنے والے سعادت مند آنحضورﷺ کے چچا زبیربن عبدالمطلب تھے۔ ابن سعد نے یہ بھی لکھا ہے کہ عبداللہ بن جدعان کے گھر جمع ہونے والے ان ارکان کے کھانے کا انتظام بھی زبیر بن عبدالمطلب نے ہی کیا تھا۔
یہ کتنے لوگ تھے، گمان غالب یہ ہے کہ یہ لوگ درجن بھر کے لگ بھگ تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان میں پیش پیش تھے۔ یہ سب لوگ اس زبیدی شخص کو اپنے ساتھ لے کر عاص بن وائل کے دروازے پر پہنچے۔ اسے باہر بلایا گیا اور سب نے یک زبان کہا کہ اس مظلوم پر تم نے کیوں ظلم ڈھایا ہے؟ اس نے کہا: میں نے کوئی ظلم نہیں کیا، وہ لڑکی کنیز ہے۔ جب مال کا سودا کیا تھا تو یہ لڑکی بھی میں نے اِس شخص سے خرید لی تھی۔ میں اس سے تمتع بھی کرچکا ہوں۔ عاص بن وائل کا جواب سن کر وفد کے لوگوں نے زبیدی سے وضاحت مانگی تو اس نے کہا: خانہ کعبہ کی عظمت وتقدس کی قسم! میں نے اپنی لڑکی بیچی نہیں ہے اور نہ ہی وہ کنیز ہے، وہ میری بیٹی ہے اور اس شخص نے اپنی قوت کے بل بوتے پر زبردستی اسے اغوا کرکے اپنے گھر میں قید کر لیا ہے۔ اس پر وفد کے لوگوں نے سختی کے ساتھ عاص بن وائل سے بات کی تو اس بدبخت نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور لڑکی اسے واپس دینا پڑی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ابھی تک عاص بن وائل نے اس لڑکی سے تمتع نہیں کیا تھا۔ اس کے واپس کرنے کے وقت اس نے ارکانِ وفد سے کہا کہ میں کل صبح لڑکی واپس کروں گا۔ ایک رات مجھے اس کے ساتھ گزار لینے دو۔ وفد کے تمام غیرت مند ارکان نے اسے سختی کے ساتھ اس ارادۂ بد پر شرم دلائی اور کہا کہ یہ ہرگز ممکن نہیں؛ چنانچہ اسے اپنے شیطانی ارادے پر عمل کا موقع نہ ملا۔ زبیدی کی بیٹی اسے واپس دلادی گئی۔ اب اس نے اپنی بیٹی کو ساتھ لیا اور اپنے علاقے کی طرف روانہ ہوگیا۔ جاتے ہوئے وہ اور اس کی بیٹی ان تمام نوجوانوں کو دعائیں دے رہے تھے، جنہوں نے ان کی دادرسی کی۔ مظلوم کی بددعابھی ربّ عرش تک بلا روک ٹوک پہنچتی ہے اور اس کی دعا بھی۔ وہ قریشی نوجوان خوش نصیب تھے جنھوں نے مظلوم سے دعائیں لیں۔
جب اس تنازع کا فیصلہ بحسن وخوبی ہوگیا تو وفد کے ارکان میں سے بعض نے مشورہ دیا کہ اس قسم کے واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم آپس میں حلف اٹھائیں کہ ہم ظالم کے مقابلے پر ہر مظلوم کی مدد کریں گے؛ خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ چنانچہ یہ سب لوگ عبداللہ بن جدعان کے گھر پر اکٹھے ہوئے اور اللہ کے نام پر سب نے یہ حلف اٹھایا: ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ غصب شدہ چیز مالک کو واپس دلائیں گے۔ آج کے بعد کسی پر ظلم کو برداشت نہیں کریں گے، ہر مظلوم کی دادرسی ہوگی اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دی جائے گی‘‘۔ اسے حلف الفضول کہا جاتا ہے۔
''الفضول‘‘ کا معنی ہے کہ وہ چیز جو ظلم کے ساتھ چھینی جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
لقد شھدت فی دارِ عبداللہ بن جدعان حلفًا لو دعیت بہ فی الاسلام لاَجَبْتُ۔
میں نے عبداللہ بن جدعان کے گھر میں جو حلف اٹھایا تھا، آج اسلامی دور میں بھی اگر کوئی مجھے اس کی طرف دعوت دے تو میں لبیک کہوں گا۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج:1، ص:190)
اس حلف کو ''حلف الفضول‘‘ کہنے کی تین وجوہات بیان کی گئی تھیں ۔ ایک تو یہ کہ حلف میں جتنی باتیں کی گئی تھیں وہ اخلاقی فضائل کے زمرے میں آتی ہیں، دوسری یہ کہ فضول اس متاع کو کہا جاتا ہے جو جبروظلم سے چھین لی جائے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس حلف میں شامل ہونے والے افراد میں سے تین کے نام فضل تھے۔ مؤرخ حلبی نے اپنی تاریخ میں مزید ایک وجہ بیان کی ہے کہ آنحضورﷺ کی تجویز پر ان لوگوں نے یہ بھی حلف اٹھایا تھا کہ اپنی کمائی میں سے ضروریات سے زائد (فاضل) مال مہمانوں کی ضیافت کے لیے خرچ کریں گے۔ ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ تین ارکانِ حلف اس نام سے موسوم تھے: (1) الفضل بن فضالہ، (2) الفضل بن وداعہ، (3) الفضل بن الحارث۔ یہ ابن قتیبہ کی روایت میں بیان ہوئے ہیں جبکہ ابن کثیر نے دوسری روایت مورخ سُہیلی کے حوالے سے لکھی ہے اور اس میں یہ نام آئے ہیں: الفضل بن شراعہ، الفضل بن وداعہ اور الفضل بن فضاعہ۔ زمانۂ جاہلیت میں قریش کے اہلِ خیر نے جتنے اچھے کام کیے ہیں، ان میں سے یہ ایک بہت عظیم کارنامہ ہے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل اس واقعہ کا ظہور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص نعمت تھی جس پر آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کیا۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج:1، ص:417)
ابن کثیر نے لکھا ہے کہ حضرت معاویہؓ کے بھتیجے ولید بن عتبہ بن ابی سفیان اور سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہم کے درمیان ایک تنازع پیدا ہوا۔ ولید جب مدینہ کا گورنر مقرر ہوا تو اس نے اپنی قوت کے بل بوتے پر سیدنا حسینؓ کی ایک جائیداد‘ جو ذوالمروہ کے مقام پر تھی‘ قبضے میں لے لی اور گورنری کا رعب جمانے لگا۔ حضرت حسینؓ گورنر ہاؤس میں تشریف لے گئے اور آپؓ نے فرمایا: ''اے ولید! تم میری جائیداد سے قبضہ اٹھا لو، اگر ایسا نہ کرو گے تو میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ پھر میں اپنی تلوار نکال لوں گا اور مسجد نبوی میں کھڑے ہوکر اعلان کروں گا کہ اے اہلِ ایمان آج پھر حلف الفضول کو دہرانے کا لمحہ آگیا ہے‘‘۔
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم بھی اس وقت وہاں موجود تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حسینؓ کا حق اگر واپس نہ کیا گیا تو میں بھی اس کے حصول کے لیے اپنی تلوار نکال کر اس کے ساتھ کھڑا ہوجاؤں گا۔ پھر یا تو اس کا حق دلوا کے رہوں گا یا جان کی بازی لگا دوں گا۔ حضرت مسور بن مخرمہؓ تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے بھی یہی اعلان کیا جو عبداللہ بن زبیرؓ نے کیا تھا۔ پھر اس تنازع کی خبر حضرت عبدالرحمن بن عثمانؓ تک پہنچی تو انھوں نے بھی وہی الفاظ دہرائے۔ والیٔ مدینہ ولید بن عتبہ کو جب اس صورت حال کا پتا چلا تو اس نے حضرت حسینؓ کا حق انہیں واپس دے کر راضی کر لیا۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج:1، ص:191 تا 192)۔
حق دار کے حق میں آواز اٹھانا اور اس کا حق دلانے کی کاوش اللہ کے محبوب ترین اعمال میں سے ہے۔ اللہ کے نبیوں کی آمد کا مقصد بھی قرآنِ مجید نے یہی بیان کیا ہے کہ عدل قائم ہو اور ظلم مٹ جائے۔ ''لیقوم الناس بالقسط‘‘۔ مظلوم کے حق میں اگر لوگ اٹھ کھڑے ہوں تو ہر دور میں اہلِ قوت واہلِ اقتدار کو ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑتے ہیں۔ المیہ یہ ہوتا ہے کہ معاشروں کے اندر بے حسی اور ذاتی وانفرادی مفادات تک سوچ کو محدود کرلینے کے نتیجے میں ظالم منہ زور ہوجاتا ہے اور مظلوم بے بس ومجبور بن کر یا تو چپ سادھ لیتا ہے یا تنہا دھکے کھاتا پھرتا ہے۔ سنّتِ رسولﷺ کس قدر واضح ہے کہ ظلم کا خاتمہ شانِ مومنانہ بھی ہے اور فرضِ عین بھی۔ آج اس جذبے کو پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں