ذوقِ یقین ترقی کا زینہ !

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرامؓ خصوصاً نوجوانوں سے بڑی محبت کرتے تھے اور ان کی تربیت کرکے انہیں ہیرے موتی بنا دیتے تھے۔ نوجوان قوموں کا اثاثہ اور حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں۔ آج شیطان امت مسلمہ پر حملہ آور ہے اور بالخصوص ہمارے اس سرمائے پر ڈاکا ڈالنے کے پورے جتن کررہا ہے۔ اصلاحی تحریکوں کے نتیجے میں مسلم نوجوانوں کی ایک معقول تعداد اپنے دین اور اپنی اساس کی طرف رجوع کررہی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ کئی نوجوان واقعی گہرے غوروفکر سے قرآن و سنت کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان سے کبھی مکالمہ اور سوال و جواب ہو تو قلبی و روحانی مسرت ہوتی ہے۔ ان نوجوانوں کو کئی امور میں بڑا اشکال محسوس ہوتا ہے۔ وہ اسلام کی عظمت اور اپنے اسلاف کی شوکت کو کتابوں میں دیکھتے ہیں اور پھر آج امت کی زبوں حالی کا منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو انہیں عجیب تضاد محسوس ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تضاد کیوں ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ اس موضوع پر سیرتِ رسولﷺ کی روشنی میں غورو فکر کیا جائے۔اگر ہم صحیح تناظر میں ماضی و حال کا تجزیہ کریں اور جذباتیت سے بالاتر ہو کر حقائق و بصائر کا انطباق کرتے ہوئے معروضی حالات کا مطالعہ کریں تو ہر سوال کا جواب مل جاتا ہے اور ہر گرہ کا سرا ہاتھ آ جاتا ہے۔
بلاشبہ اہلِ ایمان سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ غلبہ ان کا مقدر ہو گا اور اللہ کی نصرت ان کے شاملِ حال ہو گی۔ ان کے دشمن ان کے سامنے مغلوب رہیں گے مگر اس کے لیے صرف ایمان کا دعویٰ ہی کافی نہیں، ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا اور وہ جوہر اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے، جس کی بدولت نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے جاں نثار صحابہؓ ان بشارتوں کے مستحق و مصداق بنے تھے۔ گویا یہ مدد یقینی ہے ، لیکن مشروط! اس میں شرط تعداد اور سازوسامان کی کثرت و فراوانی نہیں بلکہ ایمان و عقیدے کی پختگی اور عمل کا اخلاص و مداومت ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورِ سعید میں اہلِ ایمان پر سخت ترین آزمائشیں آئیں۔ آنحضورﷺ خود بھی انتہائی جاں گسل مرحلوں سے گزرے۔ اس سب کچھ کے باوجود ان لوگوں کے حوصلے ہمیشہ بلند رہے۔ آنحضورﷺ نے صحابہ کرامؓ کو سخت نامساعد حالات میں بھی بشارتیں سنائیں۔ صادق الایمان صحابہ کرامؓ ہمیشہ بشارتوں کو سچ جانتے تھے۔ ایک مرتبہ مکی دور میں آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی حضرت خبابؓ بن ارت آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپﷺ اس وقت کعبے کی دیوار کے سایے میں تشریف فرماتھے۔ حضرت خبابؓ کو آگ کے انگاروں پر لٹایا جاتا تھا کہ وہ ایمان سے برگشتہ ہوجائیں مگر وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ بہرحال ان حالات میں پریشانی فطری امر تھا۔ اس پریشانی کی کیفیت میں انہوں نے آنحضورﷺ سے عرض کیا: ''یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے کہ اللہ ہمیں ان سختیوں سے نجات دے دے‘‘۔ یہ بات سن کر آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ آپﷺ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا: ''تم سے پہلے جو اہلِ ایمان گزرے ہیں، ان پر اس سے بھی زیادہ سختیاں کی گئیں۔ ان میں سے بعض کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور ان کے سرپر آرا چلا کر ان کے دو ٹکڑے کردیے جاتے۔ کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسائے جاتے تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے۔ خدا کی قسم! یہ کام پورا ہو کر رہے گا یہاں تک کہ ایک شخص (یا ایک عورت) صنعا سے حضر موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہ ہوگا، جس سے وہ خوف کھائے‘‘۔(صحیح بخاری)
اللہ کا ارشاد ہے:وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (آلِ عمران:139) ۔(دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تمہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو)۔ دوسرے مقام پر ارشادِ ربانی ہے ''اور ہم نے تم سے پہلے رسولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے۔ پھر جنہوں نے جرم کیا، ان سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق ہے کہ ہم مومنوں کی مدد کریں‘‘۔(سورۃ الروم: 47) اسی مضمون کی مزید تشریح سورۃ المومن میں ملتی ہے، جہاں ارشاد فرمایا: ''یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد، اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں، اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے۔‘‘ (آیت 51)۔
رب رحیم و کریم کا وعدۂ نصرت صرف اس دنیا کی زندگی تک محدود نہیں، بلکہ روزِ حشر جب سب مادی امیدیں ٹوٹ چکی ہوں گی اور ظاہری سہارے چھوٹ چکے ہوںگے تو بھی وہ اپنے بندوںکا دوست ہوگا۔ارشادِ ربانی ہے۔ ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دنیا و آخرت‘ دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ کو اختیار ہے، جو چاہے کرے۔ (سورۂ ابراہیم: 27)۔ قرآنِ مجید کی یہ بشارتیں پوری امت کے لیے ہیں، جس قلبِ مصفّٰی پر نازل ہوئیں، اس کا بڑا عظیم مرتبہ اور اعلیٰ مقام ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان بشارتوں کی مجسم تفسیر تھے اور آپﷺ نے اپنے گرد جن لوگوں کو اکٹھا کیا تھا، شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ سبھی پروانے ان بشارتوں کے نور سے مالامال اور حلاوتِ ایمان سے سرشار تھے۔ امت جیسے جیسے اس نور سے محروم اور اس حلاوت سے بے گانہ ہوتی چلی گئی، اللہ کی رحمتیں بھی روٹھ گئیں اور نصرتِ الٰہی سے محرومیاں ہمارا مقدر بن گئیں۔ ذرا غور کیجیے کہ صحابہ کرامؓ نے جو کلمہ پڑھا تھا، وہی کلمہ آج ہم بھی پڑھتے ہیں۔ جس قرآنِ حکیم نے ان کی زندگیاں بدل ڈالی تھیں، وہی قرآن انہی الفاظ میں آج بھی پڑھا جاتا ہے، لیکن بنیادی فرق یہ ہے کہ ہم نہ اس کلمے کی قدروقیمت کو پہچانتے ہیں، نہ قرآنِ مجید کے انقلابی پیغام کو لے کراٹھتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم صحابہ کرام سے جو بات کہتے، ظاہری حالات کی مکمل ناموافقت کے باوجود،انہیں اس کے برحق ہونے کا کامل یقین ہوتا تھا۔ ان کا ایمان کبھی متزلزل ہوا نہ ان کے قدم کبھی ڈگمگائے۔ 5ھ میں جب غزوۂ خندق کا مشکل مرحلہ پیش آیااور آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہؓ کے ساتھ مل کر مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے خندق کھودی تو اس عمل کے دوران بھی کئی معجزات رونما ہوئے۔ مورخ ابن اسحاق کی ایک روایت سیرت نگار ابن ہشام نے اپنی سیرت نبوی میں نقل کی ہے۔ اس کے راوی حضرت سلمان فارسیؓ ؓہیں۔ حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں: ''خندق کی کھدائی کے دوران ایک سخت چٹان آ گئی ۔ میں نے اسے توڑنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم مجھ سے قریب ہی کھدائی میں مصروف تھے۔ جب آپﷺ نے صورتِ حال دیکھی تو میری مدد کو تشریف لائے اور کدال پکڑ لی۔ آپﷺ نے پتھر پر ضرب لگائی تو کدال کے نیچے سے بجلی کا شعلہ نکلا۔ پھر دوسری ضرب سے ایسا ہی شعلہ نکلا۔ تیسری ضرب لگی تو بھی بجلی کی سی چمک پیدا ہوئی اور چٹان ٹوٹ گئی۔ میں نے عرض کیا: ''یا رسول اللہﷺ میرے ماںباپ آپ پر قربان! جب آپ ضرب لگا رہے تھے تو کدال کے نیچے میں نے شعلے اٹھتے ہوئے دیکھے۔ یہ شعلے کیسے تھے‘‘؟ آپﷺ نے فرمایا: ''سلمان! کیا واقعی تم نے یہ شعلے دیکھے ہیں‘‘؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا: ''پہلی ضرب پر جو شعلہ نکلا تو اس سے اللہ تعالیٰ نے یمن پر مجھے فتح عطا کی۔ دوسرے شعلے پر میرے لیے اللہ تعالیٰ نے شام کی فتح کا راستہ ہموار کر دیا اور تیسرے شعلے پر اللہ تعالیٰ نے مشرق کے ممالک کی فتح میرے لیے مقدر فرما دی‘‘۔
ابن اسحاق مزید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ثقہ راویوں کی زبانی حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت سنی ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں ہونے والی ہر فتح پر وہ کہا کرتے تھے: ''جتنے علاقے بھی چاہو فتح کرتے چلے جائو۔خدا یہ فتوحات مبارک کرے۔ مدینہ سے لے کر اقصائے عالم تک اور آج کے دن سے یومِ قیامت تک جتنے علاقوں پر بھی تم فتوحات کے پرچم لہرائو گے ان سب کا حال اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کو بتا دیا تھا۔ مالکِ ارض و سما نے ان علاقوں کی چابیاںاپنے نبی کو عطا فرما دی تھیں‘‘۔ (المعجزات المحمدیہ، ولید الاعظمی، اردو ترجمہ معجزاتِ سرور عالم، صفحہ 79 تا 80، بحوالہ سیرۃ ابن ہشام، قسم ثانی، ص219۔ المغازی للواقدی، جلد دوم، ص449۔ البدایہ والنھایہ، جلد چہارم، ص101۔ سنن نسائی، جلد ششم، ص43)
اس عظیم الشان معجزے پر سبھی صحابہ کرامؓ مطمئن تھے اور ان کے ایمان و یقین میں اس سے اضافہ ہوا تھا، مگر منافقین نے سب کچھ دیکھنے کے باوجود اس پر خندۂ استہزا سے اپنے جرائم میں اضافہ کر لیا تھا۔ صحابہ کے اندر ایمان اور عمل ،ظاہر اور باطن، عبادت اور معاملات غرض ہر پہلو سے یک رنگی تھی۔ انہوں نے جو کہا، وہی کیا، جو مانا اسے ہی حق جانا اور جدوجہد سے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ آج ہم محض گفتار ہیں، کردار نہیں۔ یہی کمی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ وہی خالق آج بھی اپنے انعامات سے نوازنے میں کیوں دیر کرے گا۔
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں