بلالی دنیا میں اذانِ بلالی!

سائوتھ افریقہ میں سمندر کے کنارے واقع پورٹ الزبیتھ (P.E) بہت خوب صورت شہر ہے۔ یہاں کی تیز اور خوشگوار سمندری ہوائوں اور خوب صورت ساحلوں کی وجہ سے سیاحوں کی خوب آمدورفت سال بھر جاری رہتی ہے۔ سائوتھ افریقہ کے ایک سفر میں (جس کو اب تقریباً 25 سال گزر چکے ہیں) اس شہر میں دو تین روز قیام کا موقع ملا۔ مختلف قابلِ دید مقامات بھی دیکھے مگر میرے سفر کا اصل مقصد یہاں کی مسلم آبادی کے مختلف اجلاسوں میں شرکت تھی۔ الحمدللہ یہاں پیدائشی مسلمانوں اور شعوری اہلِ ایمان (نومسلم) سبھی کے اندر اسلام سے محبت دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ وہ یادیں اب بھی دل میں موجزن ہیں۔ڈائری میں سے ایک ورق:
مجھے یہاں سے ہیروں کے شہر کمبرلی جانا تھا۔ چھ مئی بروز منگل بذریعہ ہوائی جہاز روانگی تھی۔ آج یہ دن آ گیا ہے۔
ابھی اذانیں نہیں ہوئیں۔ پی ای میں کئی ایک مساجد ہیں۔ مسجد سے اذان کی آواز یہاں آتی ہوگی مگر اذان کا وقت نہیں ہوا۔ میزبان ڈاکٹر آدم دودت جاگ چکے ہیں۔ انہیں جلدی اٹھنے کی عادت ہوگی۔ میں دیر سے اٹھتا ہوں مگر ان کے جاگ جانے کی وجہ سے میری بھی آنکھ کھل گئی ہے۔ وضو کیا اور نماز و اذان کے انتظار میں وقت گزارنے لگا۔ جائے نماز ہر کمرے میں موجود ہوتا ہے جس سے مسافروں کو سہولت رہتی ہے۔ قبلہ کی سمت رات ہی میزبان محترم نے بتا دی تھی۔
ڈاکٹر صاحب نے دستک دی تو میں تیار تھا۔ گاڑی میں سوار ہوئے اور مسجد چلے گئے۔ یہاں بیشتر گھروں کے دروازے کمپیوٹر لاک سے بند ہوتے اور کھلتے ہیں۔ ریموٹ کنٹرول اور کوڈ سے انہیں لاک اور اَن لاک کیا جاتا ہے۔ اس لیے کسی کو دروازہ کھولنے یا بند کرنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی۔ اس میں سہولت بھی ہے اور سکیورٹی بھی۔ ڈاکٹر دودت نے بتایا کہ ان کے زیرِ انتظام اس مسجد کی تعمیر حال ہی میں مکمل ہوئی ہے جبکہ اس کے ساتھ ملحق مدرسہ ابھی زیرِ تعمیر ہے۔ ہم چھ سات منٹ میں مسجد پہنچ گئے۔
مسجد کا دروازہ ابھی مقفل تھا۔ ہمارے پہنچتے ہی مسجد کامؤذن بھی‘ جو افریقی مسلمان تھا‘آپہنچا۔ اس نے دروازہ کھولا اور خوش الحانی سے اذان دی۔ اس ماحول میں یہ اذانِ بلالی کی مانند ہی محسوس ہوئی۔ عجیب لطف آیا۔ دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ ان کلماتِ جلیلہ کو پوری دنیا میں، خصوصاً اس بلالی دنیا میں عام کردے! مسجد نہایت خوب صورت تھی،جس میں بیٹھ کر دل کو عجیب طمانیت و سکون مل رہا تھا۔
اذانِ فجر کے بعد کچھ انتظار کیا۔ پھر جماعت کھڑی ہوئی۔ نمازیوں کی تعداد پچیس کے قریب تھی۔ مسجد بڑی شاندار ہے مگر اس کے قرب و جوار میں زیادہ مسلمان آباد نہیں ہیں۔ خالی پلاٹوں پر مسلمانوں کے آباد ہونے کا امکان ہے جس کے بعد اس مسجد کی رونقیں دو بالا ہوجائیں گی۔ مجھے بتایا گیا کہ نمازِ جمعہ میں یہاں بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا ہے کہ بقول ڈاکٹر دودت‘ آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں۔
ڈاکٹر دودت صاحب سے آئی ایم اے (اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن) کے کنونشن میں بھی ملاقات ہوتی رہی تھی مگر اب یہاں جو تفصیلی تعارف ہوا تو پتا چلا کہ وہ بہت مخلص مسلمان اور دردِ دل سے مالا مال طبیب ہیں۔ نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو کی تصویر، یہ بزرگ طبیب یہاں بڑی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ مسجد کمیٹی کا بھی روحِ رواں ہے اور آئی ایم اے کا بھی سر گرم نمائندہ، نماز کے بعد ڈاکٹر دودت نے میرا تعارف کرایا اور خطاب کی دعوت دی۔ تمام لوگ پوری توجہ سے میری بات سننے لگے۔ ''بدا الاسلام غریبا...‘‘ (الحدیث) سے بات شروع کی اور موجودہ دور میں مسلمانوں کی حالتِ زار، اسلام کے زریں ماضی اور متوقع روشن مستقبل اور عالمی اسلامی تحریکوں کی کاوشوں کا تذکرہ ہوا۔ بیس منٹ کی اس تذکیر کے بعد لوگوں سے ملاقات اور پھر زیرِ تعمیر مدرسے اور مہمان خانے کا معائنہ!
کئی دوست سوال جواب کرنا چاہتے تھے مگر مجھے آج صبح ہی کمبرلی (Kimberly)جانا تھا اس لیے پروگرام مختصر ہی رہا۔ گھر آ کر میں نے جلدی سے غسل کیا۔ میز پر ناشتہ لگ گیا۔ میز پر اتنے انواع و اقسام کے ماکولات و مشروبات چنے گئے تھے کہ ناشتے میں گویا ظہرانہ اور عشائیہ بھی شامل کر دیا گیا تھا۔ میں سفر کے دوران کھانے پینے میں خاصی احتیاط برتتا ہوں۔ آج تو مجھے پی ای سے ایک چھوٹے ہوائی جہاز میں بلوم فونٹین(Bloem Fontien) تک سفر کرنا ہے اور چھوٹے جہازوں میں میری طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔ ایک جانب میری ذاتی مجبوری ہے اور دوسری جانب میرے میزبانوں کا اہتمام اور محبت، پھر اصرار اور ترغیب!
بہرحال ناشتے سے فارغ ہوئے، سامان مختصر اور تیار تھا۔ ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ڈاکٹر دودت راستے میں مختلف مقامات کا تعارف کراتے رہے۔ پی ای براعظم افریقہ کے جنوب میں خشکی کا آخری سرا ہے۔ اس سے ورے پھر سمندروں کا عظیم سلسلہ چلتا ہے۔ پی ای کے جنوب میں جو سمندر ہے‘ وہ بحر ہند اور بحراوقیانوس کا سنگم ہے، مشرق میں جو سمندر آسٹریلیا تک پھیلتا ہوا چلا گیا ہے وہ بحر ہند ہے اور مغرب میں براعظم جنوبی امریکہ تک وسیع و عریض پانی کا سلسلہ بحراوقیانوس ہے۔ یوں یہ شہر اپنی نوعیت کا منفرد شہر ہے۔ کیپ ٹائون‘ جو پی ای کی سیدھ میں سمندر کے کنارے آباد ہے‘ یہاں سے تقریباً سات آٹھ سو میل مغرب کی طرف واقع ہے۔ رات کو پی ای کے حسن کا ایک منظر دیکھا تھا، اس وقت صبح کے خوشگوار ماحول میں ایک دوسرا خوب صورت نظارہ دامن دل کھینچ رہا تھا۔
ٹریفک بہت زیادہ تھی۔ لوگوں کوعلی الصباح اپنے دفاتر، تجارتی مراکز، تعلیمی اور فنی اداروں نیز بندرگاہ اور فیکٹریوں میں پہنچنا ہوتا ہے۔ سڑکیں کشادہ اور ٹریفک پولیس چوکس ہے مگر گاڑیاں بہت زیادہ ہیں۔ ہم آہستہ آہستہ ایئرپورٹ کی طرف جارہے تھے مگر ڈاکٹر صاحب مجھے تسلی دے رہے تھے کہ سیٹ کنفرم ہے، جہاز چھوٹا ہے، ہم چند منٹ قبل بھی پہنچ گئے تو کوئی پرابلم نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نے رش سے بچنے کے لیے ایک سروس روڈ پر گاڑی ڈال دی۔ وہ چونکہ ہر راستے سے واقف تھے اس لیے ہم ایئرپورٹ آپہنچے ورنہ شاید ہماری پرواز چھوٹ جاتی۔
گاڑی سے اتر کر ہم دونوں چیک اَن ہال کی طرف تیزی سے بڑھ گئے۔ ایک خاتون جو پارکنگ کائونٹر پر بیٹھی گاڑیوں کی پارکنگ فیس سلپس جاری کر رہی تھی‘ ہمیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے اپنی ساتھی لڑکی سے کہنے لگی ''بوڑھے آدمی خاصے سمارٹ ہیں، اتھلیٹ رہے ہوں گے‘‘۔ اس وقت میری عمر 52سال تھی، بہرحال ہم سن کر محظوظ ہوئے۔ شاید ہر بوڑھا آدمی ایسی بات سن کر خوش ہوتا ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ وہ محترمہ سنجیدگی سے کہہ رہی تھیں یا مذاق فرما رہی تھیں۔ بہرحال جہاز کے وقت نے ہمیں اتھلیٹ بننے پر مجبور کر دیا تھا ورنہ ہم کہاں کے اتھلیٹ ہیں۔
ایئرپورٹ کا گھڑیال آٹھ بج کر پندرہ منٹ کی خبر دے رہا تھا۔ جہاز اُڑنے کا ٹائم ساڑھے آٹھ بجے تھا۔ کائونٹر پر بیٹھی سمارٹ لڑکی ہماری طرف متجسس نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ پی ای کا ایئرپورٹ زیادہ مصروف نظر نہیں آرہا تھا۔ آس پاس تعمیرات کا کام جاری تھا۔ شاید پارکنگ میں گاڑیاں زیادہ تر انہی لوگوں کی ہوں گی جو تعمیرات کے سلسلے میں کام کرنے یہاں آتے ہیں۔ میں نے ٹکٹ پیش کی، مجھے بورڈنگ کارڈ ملا اور ہوائی کمپنی کی ملازم لڑکی نے کہا ''سر ایک منٹ بعد مسافروں کو کال کیا جارہا ہے۔ میں آپ کے لیے محفوظ سفر اور بخیریت منزل پر پہنچنے کی دعا کرتی ہوں‘‘۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور جو اب میں اس کے حق میں دعا کی۔ میں اور ڈاکٹر دودت انتظار گاہ میں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ایک آدھ منٹ بعد اعلان ہوا کہ بلوم فونٹین کی پرواز روانگی کے لیے تیار ہے۔ پہلا اعلان افریقی زبان میں اور دوسرا انگریزی میں تھا۔ دونوں ہی یہاں کی سرکای زبانیںہیں۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے الوداعی معانقہ کیا اور ہم دونوں ایک دوسرے کو دعائیں دیتے ہوئے جدا ہوئے۔ میں انتظار گاہ کے ایک دروازے سے ایئرپورٹ کے رن وے کی طرف روانہ ہوا۔ چند مسافر اور تھے۔ عجیب اتفاق کی بات کہ ہوا اس قدر تیز تھی جیسے آندھی مگر نہ تو کوئی گردوغبار تھا نہ وحشت۔ کپڑے اڑے جاتے تھے مگر اس ساحلی شہر کی یہ ہوا خوشگوار تھی۔ اس شہر کو تیز ہوائوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک اور لطیفہ ہوا۔
مجھ سے آگے ایک سفید فام نوجوان خاتون ہوائی جہاز کی طرف چلی جارہی تھی، جہاز قریب ہی چند قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا۔ خاتون کے دونوں ہاتھوں میں دو ہلکے پھلکے بیگ تھے۔ اس نے سکرٹ اگرچہ معقول حد تک لمبا پہن رکھا تھا مگر تھا سکرٹ ہی، میکسی (طویل لباس) نہ تھی۔ طوفانی ہوا اس کے ساتھ جو اٹھکیلیاں کر رہی تھی اس سے مجھے خاصی کوفت ہوئی۔ اسلامی تہذیب و ثقافت اور معاشرت و لباس کتنی بڑی نعمت ہے اس کا جگہ جگہ احساس ہوتا ہے۔ میں تیز قدم اٹھاتا ہوا اس خاتون سے آگے نکل گیا۔ اس خاتون نے اپنی روایات کے مطابق موسم کے بارے میں ایک آدھ جملہ کہا۔ میں نے بھی مروتاً جواب دیا۔ اس نے اگلا جملہ جو کہا تو میں چونکا۔
اس نے بھی میرے سبک رفتار ڈگ بھرنے کو اتھلیٹ ہونے سے تعبیر کیا کہ ''نوجوانی کے اچھے دنوں میں آپ اتھلیٹ رہے ہوں گے‘‘۔ میں نے ہوں ہاں سے کام چلایا اور جہاز کی سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گیا۔ یورپی اقدار کے مطابق مجھے ذرا رک جانا چاہیے تھا کہ ایسے مواقع پر ''لیڈیز فرسٹ‘‘ کا اصول اپنایا جاتا ہے مگر میں نے اس وقت یہی مناسب سمجھا کہ میں جلدی سے اس منظر سے دور ہو کر جہاز پر سوار ہوجائوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں