اپنی بربادی کے لیے شریف خاندان خودکفیل ہے۔ ممکن ہے کہ چند برس میں سیاست سے سبکدوش ہونے کے بعد میاں محمد نوازشریف اپنی خود نوشت لکھنے کی آرزو کریں۔ ''آ بیل مجھے مار‘‘ اس کا عنوان ہو سکتا ہے۔
''کیا حکومت نے خودکشی کا ارادہ کر لیا ہے؟‘‘ دفتر میں داخل ہوتے ہی ایک نوجوان اخبار نویس نے مجھ سے پوچھا۔ حیرت ہوئی اور تھوڑی سی الجھن بھی۔ کل شب اس ادراک کے ساتھ اخبار نویس سونے گیا کہ پہلی بار ملک کے حالات رو بہ اصلاح ہیں۔ مدتوں کے بعد‘ پہلی بار۔ بدترین حکومتوں کو ملک نے دیکھا ہے۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ خودشکنی میں شریف حکومت کا ثانی کوئی نہیں ؎
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم دہقاں کا
افراد یا اقوام‘ گروہ یا قبائل‘ تمام کامیابیاں اور تمام ناکامیاں داخلی ہوتی ہیں۔ کامرانی حسن نیت‘ ہوش مندی اور مثبت انداز فکر سے پھوٹتی ہے۔ ناکامی ناقص طرزِ احساس سے‘ خواہشات کی غلامی سے‘ من مانی سے۔ یہ بدقسمت معاشرہ مگر مسترد ہو جانے والے حکمرانوں کے ساتھ ہمدردی کا مرتکب ہوتا اور اس کی قیمت چکاتا ہے۔ اوّلین غلطی تجزیے کی غلطی ہوتی ہے۔ آدمی کو بھٹکنا ہو تو پہلے اس کا ذہن بھٹکتا ہے۔ غلط موقف پر وہ اصرار کرتا ہے۔ دوسروں کی سننے سے انکار کر دیتا ہے۔
پیر کی شب‘ جب ادارہ منہاج القرآن کے لیے پولیس روانہ کی گئی اور ظاہر ہے کہ وزیراعلیٰ یا ان کے فرزند ارجمند کے حکم سے‘ صورت حال یہ تھی: شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز ہونے سے‘ فوج سول تعلقات میں بہتری آچکی تھی۔ ایک بڑے چیلنج کا سامنا کرنے والے حلیف نفسیاتی طور پر ایک دوسرے کے قریب
آتے ہیں۔ باہمی ضرورت انہیں مثبت اندازِ فکر کی طرف مائل کرتی ہے۔ ناکامی کے خوف میں تائید کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوچنے کے انداز میں اس سے لچک آتی ہے۔ میڈیا اور اکثر سیاسی پارٹیوں خاص طور پر تحریک انصاف کی طرف سے آپریشن کی حمایت کے ساتھ‘ قومی اتفاق رائے پیدا ہونے لگا۔ وزیراعظم نے عمران خان کا ذکر مثبت انداز میں کیا۔ کپتان نے جو ذرا سی تنقید کی‘ وہ بھی تعمیری طرز پہ۔ الطاف حسین نے یہاں تک کہہ دیا کہ حکومت کی تائید خوش دلی کے ساتھ ہونی چاہیے‘ عملی اور مکمل طور پر۔
سیاسی مبصرین کو اس پر متفق پایا گیا کہ شیخ رشید کے ٹرین مارچ اور طاہر القادری کے دھرنے کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ شیخ رشید نے تو اب بھی ملتوی کردیا۔ طاہرالقادری کے بارے میں بھی اطلاع یہ تھی کہ شاید وہ تشریف ہی نہ لائیں۔ قوم کی ساری توجہ دہشت گردی کی طرف ہے‘ جس کے خاتمے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ بھی غالباً احتجاج کو شاید بہت نمایاں نہ کریں۔ امریکہ بہادر کے ساتھ ہی نہیں‘ افغانستان کے ساتھ مراسم بہتر ہونے کی امید بھی کی جانے لگی۔ ایک سے زیادہ چینلوں پر اس ناچیز نے یہ کہا: شاید پاکستان کا روزِ سعید آ پہنچا۔ شریف برادران کی موجودگی میں مگر‘ آپ اس وقت بھی بدترین خبر کی امید کر سکتے ہیں‘ بظاہر منفی عوامل جب دور دور تک موجود نہ ہوں۔ چودھری پرویزالٰہی‘ شیخ رشید اور ڈاکٹر طاہر القادری یہ بات غالباً سمجھ رہے تھے۔ سیاسی حرکیات کی سوجھ بوجھ رکھنے والے خورشید شاہ نے بروقت متنبہ کیا لیکن اگر کوئی سننے پر آمادہ ہی نہ ہو؟
طاہر سرور میر رات گئے میرے کمرے میں آئے اور مجھے خبریں سننے پر اکساتے رہے۔ طلوع آفتاب تک ہم جاگتے رہے اور پھر ناشتہ کرنے گئے۔ اب سو جانے کا وقت تھا کہ ظہر سے قبل جاگ اٹھیں۔ معلوم نہیں کیوں‘ آخری بار خبر سننے کی خواہش پر ٹی وی کھولا اور ہکا بکا رہ گیا۔
عدالتی احکامات دکھانے کے باوجود تجاوزات ہٹانے کی اس احمقانہ کارروائی کا مطلب کیا؟ یہ کس قدر مضحکہ خیز دعویٰ ہے کہ فیصلہ ضلعی انتظامیہ نے کیا اور پولیس تو محض اس کی مدد کرنے گئی۔ شریف خاندان کے ہوتے‘ کون سی ضلعی انتظامیہ اور کون سی پولیس۔ وہ بھی لاہور شہر میں اور ماڈل ٹائون میں؟ پنجاب حکومت نے اب‘ عدالتی تحقیق کا حکم دیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے نوٹس لیا ہے؛ اگرچہ سی سی پی او شفیق گجر مسلسل یہ اعلان کرتے رہے کہ منہاج القرآن سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو گرفتار کیا جائے گا‘ خواہ وہ فرار ہو چکا ہو۔ دہشت گردوں کے تعاقب میں ایسی چستی کا مظاہرہ لاہورپولیس نے کبھی نہ کیا تھا۔ واضح طور پر وزیراعلیٰ کا سٹاف حرکت میں تھا۔
آٹھ افراد کی ہلاکت تک نوبت کیسے پہنچی؟ ظاہر ہے کہ طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے۔ خبر یہ ہے کہ اعلان کردہ احتجاج کے رابطہ کاروں کو گرفتار کرنے اور کارکنوں کی فہرستیں حاصل کرنے کے لیے یہ حملہ ہوا۔ اس نفرت کے طفیل شریف خاندان میں جو اختلاف کرنے والوں سے پائی جاتی ہے۔ شفیق گجر کا دعویٰ یہ ہے کہ فائرنگ کا آغاز ادارہ منہاج القرآن کی طرف سے ہوا۔ بجا ارشاد‘ مرنے والے تو مگر سب کے سب فریقِ ثانی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر ایک چینل پر پولیس تشدد کرتی نظر آئی اور پوری سفاکی کے ساتھ۔ بچوں پر بوڑھوں پر۔ شہباز شریف کی پولیس‘ جو ہر چند ماہ بعد تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ شریف خاندان کے اقتدار میں پولیس اور پٹوار کیسے بدل سکتی ہے؟ یہ اس کی حکومت کے ستون ہیں۔ انگریزی اصطلاح میں ایسی ہی قوتوں کو Status Quo کے محافظ کہا جاتا ہے۔ مسائل برقرار ہیں تاکہ عوام آزاد نہ ہوں۔ تاکہ حکمرانوں کا جوّا‘ وہ گلے سے اتار نہ پھینکیں۔ نظامِ زر و ظلم کے نگہبان۔
اسی طاہر القادری کو شریف خاندان نے پالا اور ریاست کے وسائل سے۔ 1988ء کی وہ رات اب تک یاد ہے کہ جب ایل ڈی اے کے دفاتر کھول کر 200 کنال رہائشی اراضی‘ ڈاکٹر صاحب کے ادارے کو الاٹ کی گئی۔ اس سے بھی پہلے‘ جب ان کی مالی سرپرستی کے لیے ایک سیمنٹ ایجنسی بخشی گئی۔ جب میاں محمد شریف کے حکم پر‘ نوازشریف ان کے ساتھ حج پر گئے اور کندھوں پر اٹھا کر انہیں غارِ حرا لے گئے (اور وہاں ڈاکٹر صاحب نے ایک کشمیری فرشتہ پایا)۔ جب ان کی خواہش پر پولیس افسر بھرتی کیے گئے‘ ان کے تبادلے اور تقرر ہونے لگے۔
جب ان وسائل کو بے دردی سے استعمال کرتے ہوئے‘ ڈاکٹر طاہر القادری نے جن کا اوّلین رول ماڈل سید ابوالاعلیٰ مودودی اور پھر امام خمینی تھے‘ میڈیا پر نوازشات کیں‘ طول طویل انٹرویو چھپوانے کے لیے۔ فن خطابت اور چندہ جمع کرنے کی غیر معمولی مہارت کے ساتھ انہوں نے اپنے ادارے کی شاخیں دنیا بھر میں پھیلا دیں۔ اگر وہ فتنہ ہے تو شریف خاندان کی گود میں پلا بڑھا‘ حتیٰ کہ اب تناور ہو کر تباہ کن ہو گیا۔ پھر پرویز مشرف برسر اقتدار آئے اور ڈاکٹر صاحب نے ان سے ساز باز کر کے‘ اپنی سلطنت کو وسیع تر کیا۔ آئی ایس آئی کی مدد سے قومی اسمبلی کی ایک سیٹ اور سرکاری سرپرستی میں ایک یونیورسٹی کا قیام۔
بیماری کا تدارک دوا کے ساتھ کیا جاتا ہے‘ پرہیز کے ساتھ۔ رائے عامہ کی تعلیم اور تربیت کے ساتھ۔ شریف خاندان کا شعار یہ نہیں۔ کاروبار ہو یا سیاست‘ ان کا طریق منفی ہے۔ سیاست کاروبار کے لیے اور کاروبار سیاست کے لیے۔ ایک قومی سیاسی جماعت کے نام پر پاکستان کی تاریخ میں ایسی ہمہ گیر مافیا کب کسی نے تشکیل دی تھی؟ دنیا کے نقشے پر نظر دوڑایئے۔ کسی بھی ملک میں کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس کا وزیراعظم ایک ایسا شخص ہو‘ جس نے اپنے کاروبار کا 90 فیصد بیرون ملک پھیلا دیا ہو۔ جو یہ کہے کہ پاکستان حکمرانی کے لیے موزوں ہے مگر قیام کے لیے ہرگز نہیں۔ سرکاری دوروں پر زیادہ تر جو کاروباری شخصیات سے ملاقات کرتا ہو‘ اپنے بھائی‘ بھتیجوں کے ساتھ‘ اپنے بزنس پارٹنرز کے ساتھ۔ خدا کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں اور اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اقتدار کے نشے میں مگر‘ بالکل سامنے کی حقیقت بھی دکھائی نہیں دیتی۔
اپنی بربادی کے لیے شریف خاندان بہرحال خودکفیل ہے۔ ممکن ہے کہ چند برس میں سیاست سے سبکدوش ہونے کے بعد میاں محمد نوازشریف اپنی خود نوشت لکھنے کی آرزو کریں۔ ''آ بیل مجھے مار‘‘ اس کا عنوان ہو سکتا ہے۔