"HRC" (space) message & send to 7575

عقل کے اندھے

ملک حالتِ جنگ میں ہے اور جانے کب تک رہے گا۔ ملک کا دفاع قوم کیا کرتی ہے، صرف فوج اور حکومت نہیں۔ عقل کے اندھے لیڈروں اور دانشوروں کو اس کا احساس ہے یا نہیں؟ 
سخت ذہنی اذیت ہوئی۔ بہت صدمہ ہوا، جب نون لیگ کے ایک لیڈر کو کہتے سنا کہ 70 فیصد بجٹ پاکستانی فوج لے جاتی ہے۔ جب ایک مشہور اخبار نویس نے یہ کہا کہ ملک کے دفاع میں عساکر نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں ۔ 
چودہ سو برس ہوتے ہیں ۔ مسجد الحرام میں ، خانہ کعبہ کے اس کونے کے مقابل رکنِ یمانی جسے کہا جاتاہے ، بوڑھا ہوتا ہوا ایک آدمی محوِ عبادت نظر آتا۔ اجنبی زائرین کو دیکھنے والے بتایا کرتے کہ سترہ برس سے وہ حرم سے باہر نہیں نکلا۔ اسلام کے عظیم ترین فقیہ جناب عبد اللہ بن عباسؓ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تشریف لائے ۔ کسی نے ان سے سوال کیا تو کہا : عطا بن ابی رباحؒ جس شہر میں موجود ہوں ، اس میں کسی اور سے سوال کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ 
وہ ایک حبشی غلام تھے ۔ مختصر سی نیندکے سوا اپنے وقت کو انہوں نے تین حصوںمیں بانٹ رکھا تھا ۔ آقا کے خاندان کی خدمت، عبادت اور حصولِ علم۔ خاتونِ خانہ بہت دن اس آدمی کے حال پر سوچتی رہی ۔ پھر ایک دن اس نے یہ کہا: یہ بڑی ہی ناموزوں بات ہے کہ اتنے بڑے عالم کو معمولی گھریلو خدمات پر ضائع کر دیا جائے۔ آزادی ملی تو سارا وقت ان اصحابِؓ رسول کے ساتھ بسر کرنے لگے ، جن میں سے کوئی نہ کوئی حرم میں موجود رہتا۔ تجسّس غیرمعمولی تھا،حافظہ بلا کا ۔ مزاج میں اعتدال ، جذبات او رتعصب سے گریز۔ رسولِ اکرمؐ کے رفقا کی صحبت نے صیقل کر دیا۔ پھر ایک دن ہشام بن عبد الملک کے حکم پر اعلان ہو اکہ دیارِ اشرف میں عطا بن ابی رباحؒ کے سوا کسی کو فتویٰ دینے کا اختیار نہیں ۔ 
نمازوں کے درمیانی وقفے میں ، جب وہ نوافل میں مگن ہوتے تو انتظار کرنے والوں کا گاہے ایک مجمع سا بن جاتا۔ سلام پھیرتے اور نگاہ اٹھا کر دیکھتے ۔ ایک کے بعد دوسرا سوالی آگے بڑھتا۔ موزوں اور مختصر الفاظ میں وہ جواب دیتے اور پھر سے نوافل ، تلاوت یا غور وفکر میں کھو جاتے ۔ ایک دن امیر المومنین کو بھی منتظر پایا گیا۔ شہزادوں کے ہمراہ۔ تیرہ سو برس بعد دانائے راز اقبالؔ نے کہا تھا ؎
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو 
عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی 
اسی بے نیازی کے ساتھ ، جو اہلِ علم کا مزاج ہوتی ہے ، سلطان کا سوال سنا اور اس کا جواب دیا۔ لوٹتے ہوئے فرزندوں نے پوچھا: یہ کون آدمی ہے ، امیر المومنین ، جسے آپ کی کوئی پرواہ نہیں۔ کہا: کسی کی بھی پرواہ اسے نہیں ہے ۔ ساری دنیا کو اس کی ضرورت ہے اور اسے کسی کی کوئی ضرورت نہیں ۔ پھر یہ کہا : علم حاصل کرو میرے بچّو۔ علم کمزور کو توانااور گمنام کو نامور کرتاہے ۔ 
بعد کے زمانوں میں ، اس آدمی کی بازگشت فقیہِ اعظم امام ابوحنیفہؒ تک پہنچی اور انہوں نے اس پر فخر کیا۔ ایک کمزور سے گدھے پر سوار ایک دن وہ مکّہ سے نکلے اور ان کارخ شام کی جانب تھا۔ سولہ دن کی مسافت طے کر کے ، وہ دمشق میں داخل ہوئے ۔ امیر المومنین کو خبر ملی تو کھلبلی مچ گئی ۔ لپک کروہ باہرآئے۔ اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا اور سوال کیا کہ ایسی مشقّت میں انہوں نے خود کو کیوں ڈالا؟ سلطان سے انہوں نے پانچ سوالات کیے ۔ باقی غیر مسلموں کی بہبود ، مکّہ اور مدینہ کے مکینوں کے خصوصی حقوق پر لیکن پہلا سوال یہ تھا : وہ لوگ جو سرحدوں پر جہاد میں مصروف ہیں ، ان کے لیے سہولتیں ناکافی کیوں ہیں ؟ ہشام نے پلٹ کر سیکرٹری کو دیکھا، جسے ''کاتب‘‘ کہا جاتا تھا اور سہولت میں اضافے کا حکم دیا۔ ان میں سے ایک غلّے کی مقدار میں اضافہ تھا ۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد فرمایا تھا : شب بھر جاگ کر جو آنکھیں سرحد کی حفاظت کرتی ہیں ، نارِ دوزخ ان پر حرام کر دی گئی ۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے ''ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون۔ اللہ کی راہ میں قتل ہو جانے والوں کو مردہ نہ کہو ۔ وہ زندہ ہیں لیکن تم اس بات کا شعور نہیں رکھتے۔ سرکارؐ نے ارشاد کیا تھا : شہید کو جب اٹھایا جائے گا تو وہ پھر سے دنیا میں لوٹ جانے اور قربان ہونے کی آرزو کرے گا: 
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی 
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی 
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
آدمی میں اپنی جان کی حفاظت کا جذبہ اس قدر شدید ہے کہ کسی دوسرے جذبے اور جبلّت سے اس کا موازنہ ممکن نہیں ۔ جب ایک اعلیٰ مقصد کے لیے زندگی فدا کرنے کا فیصلہ کرتاہے تو بندہ نہیں رہتا، اللہ کا بندہ ہو جاتاہے ۔ شاعرِ مشرق نے کہاتھا ''عبد دیگر، عبدہ چیزے دگر‘‘ عام آدمی اور ہوتاہے ، اللہ کا بندہ اور ہی چیز۔ سورۃ بقرہ میں پروردگار ، شیطان اور فرشتوں میں مکالمے کے ہنگام، ابلیس نے جب یہ کہا کہ وہ آدمی کو گمراہ کرے گا (کہ لاکھوں برس سے وہ اس کی جبلّتوں سے آشنا تھا )‘ جب فرشتوں نے یہ کہا کہ وہ ایک خوں ریزی کرنے والی مخلوق ہے تو اللہ نے شیطان کی تردید نہ کی بلکہ یہ کہا ''مگر میرے مخلص بندے گمراہ نہ ہوں گے‘‘ اور فرشتوں کو بتایا کہ تم جانتے نہیں ہو۔ بندگی اللہ کو اس قدر عزیز ہے کہ معراج کی شب عالی مرتبتؐ کاذکر کرتے ہوئے سراجاً منیرا کی بجائے انہیں اپنا بندہ کہا ''سبحان الذی اسری بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام اِلی المسجد الاقصیٰ‘‘ لے گیا راتوں رات اپنے بندے کو وہ مسجد الحرام سے مسجدِ اقصیٰ۔ بندگی کی سب سے بڑی شہادت کیاہے ؟ قرآنِ کریم قرار دیتاہے کہ اللہ کی راہ میں اپنامال قربان کرنے کی روش۔ اللہ کی بارگاہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے ، غصہ پی جانے والے، ایثار کرنے والے خواہ تنگ دست ہوں۔ اٹھتے بیٹھتے اور پہلوئوں کے بل لیٹے اللہ کو یاد کرنے والے، جو زمین و آسمان کی تخلیق میں غور کیا کرتے ہیں ۔ 
کراچی میں ، میرے سندھی ڈرائیور نے مجھے حیران کر دیا۔ سابق فوجی‘ دو برس سیاچن میں گزار کر آیا تھا۔ ''وہاں آپ کیاکرتے تھے؟‘‘ حلیم الطبع آدمی سے پوچھا۔ رسان سے کہا ''جنگ‘ اور کیا؟ وہاں سب سپاہی ہوتے ہیں‘‘۔ پھر اضافہ کیا: خوفناک تنہائی اور ٹھنڈ کے باوجود وہ زندگی اچھی تھی۔ زندگی کا لطف دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہنے میں ہوتا ہے۔ 
بلال الرشید کو میں نے بتایا تو اس نے کہا: کس احمق نے کہا کہ پاکستانی فوج کا بجٹ زیادہ ہے ۔ جس بھار ت سے مقابلہ درپیش ہے، اس کا دفاعی میزانیہ 47بلین ڈالر ہے اور پاکستان کا 7بلین۔ بجٹ کا صرف 14فیصد۔ 70فیصد کا پروپیگنڈہ روس نواز ترقی پسند کیا کرتے تھے یا اب انکل سام کی حامی این جی اوز کے کارندے ۔ وہ بدقسمت ، جن کا رزق غیر ملکیوں سے ملنے والی بھیک میں لکھا گیا۔ کبھی پرویزالٰہی اور کبھی شریف خاندان کے کارندے طلال چوہدری کو کیا خبر؟ 
جی ہاں ، ملک پر حکومت کرنے کا جذبہ بالکل غلط لیکن وہ اور لوگ تھے ۔ سر ہتھیلیوں پر رکھے ، آج وہ قومی دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ قوم ان کے ساتھ ہے مگر بعض بدبخت لیڈر او ربعض بد بخت دانشور ۔ پانچ ہزار شہید ہو چکے، سیاچن سے وزیرستان تک ۔ ہر روز کسی او رشہادت کی خبر آتی ہے ۔ 
ملک حالتِ جنگ میں ہے اورجانے کب تک رہے گا۔ ملک کا دفاع قوم کیاکرتی ہے ، صرف فوج اور حکومت نہیں ۔ عقل کے اندھے لیڈروں اور دانشوروں کو اس کا احساس ہے یا نہیں؟ 
نوٹ: گزشتہ کالم میںسہواً چکبست کا شعر فانیؔ سے منسوب ہو گیا۔ قارئین تصحیح فرمالیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں