اب کی بار احتیاط کی جائے۔ انتقام نہیں احتساب۔ نفرت نہیں عدل اور قصاص۔ قانون کے بل پر، حکمت اور تدبیر کاری سے ؎
تفصیل نہ پوچھ ہیں اشارے کافی
یونہی یہ کہانیاں کہی جاتی ہیں
اس جنگل میں راستہ اب بھی تراشا جا سکتا ہے، میاں صاحب معقول حد تک لچک کا اگر مظاہرہ کریں اور اپوزیشن انتقام کی بجائے عدل اور قصاص کی آرزو مند ہو۔ شریف خاندان کا عہد اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ خوش خیالی سے اگر کام لیا جائے؛ فرض کیجیے، کچھ عوامل ان کے حق میں بروئے کار آ جائیں۔ فرض کیجیے اپوزیشن کوئی بڑی غلطی کر بیٹھے، تب بھی کتنی مہلت ملے گی۔ چند ماہ اور چند ہفتے نہیں تو دو برس۔ پاک دامنی کا تاثر تمام ہو چکا۔ نیک نامی باقی نہیں۔ بالفرض محال آئندہ الیکشن بھی وہ جیت لیں تو کتنے دن خلق خدا انہیں برداشت کرے گی۔ حکمران کی شکل سے لوگ اکتا جایا کرتے ہیں اور ایسے حکمران؟ ہسپتال برباد، سکول برباد، کسان تباہ، صنعت بد حال، کب تک کسی قوم کو وعدوں پر ٹرخایا جا سکتا ہے۔ کب تک لوگ سنتے رہیں گے کہ تین ماہ میں تھانہ کلچر بدل جائے گا۔ تین ماہ میں پٹوار سنبھل جائے گی، زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز ہو جائے گا۔ شعبدہ بازی کسی طرح کی ہو، اس کی ایک عمر ہوا کرتی ہے۔ انکشاف ہوا ہے کہ بلوچستان کے ایک علاقے میں 4 فیصد لوگ ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں۔ تین ہفتے گزر گئے، صوبائی حکومت نے کوئی اقدام کیا اور نہ مرکز نے۔ کیا وہاں بھی فوج ارسال کی جائے گی؟ چار فیصد کا مطلب یہ ہے کہ اندمال اگر نہ ہو تو سال بھر میں دس فیصد سے زیادہ۔ دو چار برس میں پچاس فیصد۔ پھر وہ اس علاقے تک ہی کیوں محدود رہے گا؟ پورا ملک خطرے میں ہے۔ صاف پانی کے لیے چند ارب روپے درکار ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں باہم اشتراک سے کیا بیس پچیس ارب کا بندو بست نہیں کر سکتیں؟ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کسی محکمے، کسی وزیر، کسی لیڈر کو خیال تک نہیں آیا۔ حکومتیں اس طرح نہیں چلا کرتیں۔ اس طرح تو کریانے کی ایک دکان نہیں چل سکتی۔
غیب کا علم کوئی نہیں رکھتا۔ آنے والے کل کے بارے میں حتمی طور پہ حکم لگایا نہیں جا سکتا۔ چند نکات مگر آشکار ہیں۔ اول یہ کہ کھیل وزیر اعظم کے ہاتھ سے نکل چکا۔ سامنے ٹی وی کھلا پڑا ہے۔ وفاقی حکومت کے تمام وسائل کے باوجود، تمام تیاریوں کے باوجود، بنوں میں عمران خان کا جلسہ وزیر اعظم اور حضرت مولانا فضل الرحمن مدظلہ العالی کے اجتماع سے دس گنا بڑا ہے۔ مدارس کے طلبہ ظاہر ہے کہ مولانا کے حکم پر جمع ہوئے ہوںگے۔ پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا ہوگا۔ اس کے باوجود سارا وہ انبوہ ایک تنبو تلے سمٹ گیا تھا۔ دوسری چیزوں کے علاوہ یہ عنصر بھی اس میں کارفرما ہے کہ ایک ہی چہرہ دیکھتے خلق خدا بیزار ہو جایا کرتی ہے۔ دبائو عمران خان بڑھاتے رہیں گے، زرداری صاحب اور خورشید شاہ سمجھوتے کے آرزو مند ہوں بھی۔ فرض کیجیے اندرخانہ مفاہمت بھی ہو جائے تو پیپلزپارٹی کچھ زیادہ ان کی پشت پناہی نہ فرما سکے گی۔ کرنا چاہے تو پنجاب کی طرح آزاد کشمیر میں بھی تحریک انصاف اس کی بساط لپیٹ کر رکھ دے گی‘ جس طرح 2013ء کے پنجاب میں۔ پنجاب میں مکمل طور پر ان کا صفایا ہو جائے گا۔ پھر دیہی سندھ میں ناگہانی موت کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ بلاول بھٹو کارڈ ہمیشہ کے لیے ضائع ہو جائے گا ؎
ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے
عمران خان اور ان کے حامی شریف خاندان کی رسوائی کے آرزو مند ہوں گے۔ فعال طبقات اور عوام کا مسئلہ یہ نہیں۔ سبھی کا وہ احتساب چاہتے ہیں۔ ہر جرائم پیشہ سے نجات کے متمنی ہیں۔ وہ سیلاب کی طرح پھیلتی کرپشن سے خوف زدہ ہیں۔ کپتان کے مقابلے میں جب عاصمہ جہانگیر بھی نواز شریف کی حمایت سے انکار کر دیں تو صورت حال کی سنگینی واضح ہو جاتی ہے۔ امریکی ترجمان جب یہ کہہ دے کہ پاناما لیکس سے پیدا ہونے والے حالات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے تو اس کا مطلب کیا ہے۔ بھارت کا کوئی چینل البتہ چیخ اٹھتا ہے کہ پاکستانی فوج نواز شریف کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ کوئی نہ کوئی وزیر پکارتا ہے کہ نواز شریف پہ ہماری بہت سرمایہ کاری ہے اور وہ رائیگاں ہوتی نظر آتی ہے۔ جی ہاں روپے کی نہیں، سیاسی سرمایہ کاری۔ اس سے مگر میاں صاحب اور ان کی پارٹی کو فائدہ نہیں‘ نقصان پہنچا ہے۔ ہر ہوش مند جانتا ہے کہ پاکستان کے بارے میں نریندر مودی کے عزائم کیا ہیں۔ ہر باخبر جانتا ہے کہ بھارت سے تعلقات بحال کرنے کی بے تابی میں پاک فوج سے بغض و عناد ہی کارفرما نہیں بلکہ امریکی رسوخ بھی ہے کہ دہلی کی دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود، پاکستان اس سے مراسم بہتر بنائے۔ اس لیے کہ امریکہ بھارت کا تزویراتی حلیف ہے۔ اس لیے کہ امریکہ چین کے گرد گھیرا ڈالنے پر تُلا ہے۔ اسی لیے امریکہ نے ایران سے تعلقات بہتر بنائے۔ ایران امریکہ مراسم کی بہتری میں بھارت کا بھی ایک کردار ہے۔ ایران کی سرزمین کو وہ پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ کل بھوشن یادیو ایک نہیں‘ ایک سے زیادہ ہیں۔ ایران میں بھارت کے قونصل خانے پاکستان کے خلاف استعمال کیے جاتے رہے۔ افغانستان میں بھی نو قونصل خانے اور رابطہ کے نو دفاتر۔
پاک فوج اس کھیل کو خوب سمجھتی ہے۔ ایوان صدر میں صدر اشرف غنی کے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ میں جنرل راحیل شریف ازراہ کرم میرے پاس تشریف لائے۔ مختصر سی گفتگو ہوئی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: خطے کی صورت حال بنیادی طور پر بدل رہی ہے۔ اشارہ کیا کہ سب کچھ بدل جائے گا۔ انسانی تاریخ ایک اعتبار سے عالمی طاقتوں کا قبرستان بھی تو ہے! افراد کی طرح اقوام بھی تکبر کی شکار ہو جاتی ہیں۔ غالب قوموں کی علالت کو استعماری گھمنڈ کہا جاتا ہے۔ امریکیوں کو ادراک نہیں کہ ان کی مہم جوئی کا آخری انجام کیا ہوگا۔ پاکستان میں ان کے خلاف تحریک اٹھے گی اور یہ ملک بالآخر ان سے نجات پالے گا۔ کوئی بھی نواز شریف پھر ان کی مدد نہ کر سکے گا۔
فوج ایک فریق ہے۔ اپوزیشن کے علاوہ فعال طبقات اور میڈیا بھی۔ سپریم کورٹ کا ایک کردار ہے اور بالآخر اسے ادا کرنا پڑے گا۔ کیا وہ نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دہشت گردی سے پاکستان کو خطرات لاحق ہیں۔ دو ماہ قبل عسکری قیادت نے اظہار کر دیا تھا۔ کرپشن کو تحلیل کئے بغیر دہشت گردی تمام نہ ہو گی۔ صرف نواز شریف نہیں، زرداری بھی، پورا حکمران طبقہ، پاناما لیکس نے جسے ننگا کر دیا ہے۔ سپہ سالار نے یہی بات منگل کے دن وزیر اعظم سے کہی۔ اس ملاقات میں جو شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان کی بھر پور کوشش سے ایوان وزیر اعظم میں برپا ہوئی۔
بار بار پوچھا گیا کہ پاناما لیکس کا کیا ہو گا؟ بار بار عرض کیا کہ فوج، میڈیا اور عدالت اگر سنجیدہ ہوں گے تو نتیجہ نکل کر رہے گا۔ میڈیا کے علاوہ وکلاء کی قیادت‘ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے زندگی کا ثبوت دیا۔ عسکری قیادت نے اپنا وزن احتساب کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ کچھ اخبار نویس قنوطیت کا شکار ہیں۔ قنوطی کون ہوتا ہے؟ وہ کہ جسے پھول دیکھ کر قبریں یاد آئیں۔ قصور ان کا بھی نہیں۔ تاریخ یہی ہے۔ ہماری تاریخ مگر یہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہر دس برس کے بعد حکمران سے نجات پائی جاتی ہے۔ بھٹو کی پھانسی سے استثنیٰ پیدا ہوا۔ دوبار ان کی بیٹی کو حکومت مل گئی۔
بینظیر کے قتل نے ان کے شوہر کو حکمران بنا دیا، جسے اپنی پارٹی اور سیاست سے انہوں نے نکال دیا تھا۔ صدر غلام اسحق خان اور فوج کے ہاتھوں نواز شریف کی برطرفی نے ان کے لیے امکانات کو جنم دیا، وگرنہ 1993ء ہی میں لوگ ان سے نالاں تھے۔
اب کی بار احتیاط کی جائے۔ انتقام نہیں احتساب۔ نفرت نہیں عدل اور قصاص۔ قانون کے بل پر، حکمت اور تدبیر کاری سے ؎
تفصیل نہ پوچھ ہیں اشارے کافی
یونہی یہ کہانیاں کہی جاتی ہیں