سخن ور کو اعتراض ہے کہ وزیر اعظم کی ہم عزت نہیں کرتے۔ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے۔ ہم تو کرنا چاہتے ہیں‘ خدا کی قسم ہم کرنا چاہتے ہیں‘ وہ کرنے نہیں دیتے۔ ہمارے ہر خواب کو وہ روند ڈالتے ہیں۔
مہینوں سے ایک مسئلے نے الجھا رکھا ہے۔ اذیت دے رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ برسوں سے۔ اب مگر تاب نہیں۔ اس لیے کہ دو عدد حکمران ایک عام آدمی کے سامنے آ کھڑے ہیں۔ وہ بے چارہ کیا کرے۔
جب بھی دعا کو ہاتھ اٹھیں تو ماسٹر محمد رمضان ہمیشہ یاد آئے۔ چک نمبر 42 جنوبی تحصیل و ضلع سرگودھا میں، وہ میرے استاد تھے اور ہم سب بھائیوں کے۔ ٹاٹ پر بیٹھ کر ہم ان سے پڑھا کرتے۔ کبھی برآمدے میں‘ کبھی درخت کے نیچے۔۔ ساٹھ برس ہوتے ہیں‘ 6سال کی عمر میں ابا جی مرحوم ان کے پاس لے گئے ۔میں ہاتھ چھڑا کر بھاگ نکلا۔ چھلانگیں مارتا سکول کی چار دیواری کے باہر‘برگد کے درخت سے متصل نہری پانی کے کھالے کو پار کر کے کھیتوں کی راہ لی۔ ہم عمر تین چار بچے پیچھا کر تے ہوئے آئے۔ رکنے کا مگر سوال ہی نہ تھا۔ دیہاتی بچے سکولوں سے بہت خوفزدہ رہتے اور بجا طور پر۔ اس زمانے کا شعار دوسرا تھا۔ ماں باپ طالب علم کو استاد کے سپرد کرتے تو یہ کہا کرتے: گوشت آپ کا اور ہڈیاں ہماری۔ ابا جی نے ان سے یہ نہ کہا۔ یاد پڑتا ہے کہ وہ مسکرا رہے تھے۔ جب وہ مسکراتے تو بچوں کی طرح معصوم لگتے‘ اپنے ہم جولی ہی۔اگر کوئی عنایت بھی نہ کریں تو دل شاد ہی رہتا۔ امید برقرار رہتی کہ ابھی کچھ دیر میں مونگ پھلی ‘مرونڈا یا ٹانگری کی مٹھی بھر مٹھائی ضرور ملے گی۔ انہیں تو تردد بھی نہیں کرنا تھا۔ اپنی دکان تھی۔
کچھ دیر پہلے کھانے کی کوئی چیز انہوں نے اپنے فرزند کو دی تھی، بھوک جسے بہت ستایا کرتی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب بھی ستاتی ہے۔ پھر سکول کی طرف روانہ ہو گئے۔ میرا خیال تھا کہ کچھ لفافے اور کارڈ خریدنے کے لیے، ڈاک خانہ الگ سے نہیں سکول میںواقع تھا۔
گندم کے کھیت اب سبز تھے اور کہانی کہتے ہوئے سبز۔ وہ دلآویزی، زندگی بھر جو آنکھوں میں بسی رہی اور اب بھی بستی ہے۔ آج بھی گیہوں کے سبزے میں مسکراتی ہوئی سرسوں سے بڑھ کر کوئی نظارہ دل کو بھاتا نہیں۔ کبھی کبھی تو صرف یہ منظر دیکھنے کے لیے لاہور سے راولپنڈی تک ریل کاقصد کرتا ہوں۔
بس چلے تو آج بھی وہیں چلا جائوں۔ حقہ گڑگڑایا کروں، سحر وشام کھیتوں میں گھومتا پھروں۔ راتوں کی تنہائی میں ہمیشہ یہ خواب دیکھتا ہوں۔ اپنے آپ کو پھر یاد دلاتا ہوں کہ زندگی پلٹ کر دیکھنے تو دیتی ہے، پلٹنے نہیں دیتی۔ سپنے رہ جاتے ہیں یا آنکھ کی نمی۔ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ خواب تو بچ رہتے ہیں، آنکھ کو نم کرتے ہیں...اس کٹھور دنیا میں اور کیا چاہیے، جس میں مشقت اور امتحان کے لیے آدمی کو پیدا کیا گیا۔
تعاقب کرنے والوں کو رک جانا پڑا۔ سر پہ چارے کی گٹھڑی لادے اکبری بہن چلی آتی تھیں۔ ستواں جسم‘ گورا رنگ‘ مردانہ تیور‘ ڈانٹ کر انہیں بھگا دیا۔ میرا ہاتھ تھاما اور گھر لے گئیں۔
لوٹ کر ابّا گھر آئے تو برہم نہیں تھے۔ یاد نہیں کیا کہا کہ اگلے دن میں سکول جانے پر آمادہ ہو گیا۔ یاد نہیں پڑتا کہ ایک بار بھی پٹائی سے واسطہ پڑا ہو۔ آدھی چھٹی میں کبھی تاخیر بھی ہو جاتی‘ کبھی کبھار غیر حاضری بھی‘ ماسٹر رمضان مگر مشفق و مہربان ہی رہے۔
ایک بار معاملہ بگڑ گیا۔ سکول جانے سے انکار ہی کر دیا اور بی بی جی نے اس پر صبر کر لیا۔ دوسرے یا تیسرے دن البتہ ماسٹر رمضان علی گلی سے گزرتے دکھائی دیے۔ ان بچوں کے ساتھ وظیفے کا امتحان دینے جنہیں سرگودھا شہر جانا تھا۔محراب دار دروازے کے سامنے بی بی جی کو دیکھ کر وہ رکے اور ہمیشہ کے دھیمے لہجے میں یہ کہا: بہن جی‘ میرے ساتھ بھیج دیجئے اسے‘‘۔ ایک ذرا سا لیت و لعل کے بعد‘ وہ آمادہ ہو گئیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ہر دوسرے‘ تیسرے مہینے جو بچہ غیر حاضری کا ارتکاب کرتا ہو‘ وظیفے کا امتحان کیا وہ خاک دے گا۔ ماسٹر صاحب نے یقین دلایا کہ ہر روز صبح سویرے پرچے سے پہلے مجھے آموختہ وہ یاد کرا دیا کریں گے۔
رمضان المبارک کے باوجود شہر میں کیا مزے مزے کے کھانے کھائے‘ سحر و افطار‘ امتحانی مرکز سے واپس آتے ہوئے‘ اپنی ماموں زاد بہن کا گھر تلاش کرتے ہوئے ایک دن ہمت جواب دے گئی تو نل سے پانی پی لیا۔انہیں تو پتا چل گیا‘ مگر ماسٹر صاحب کو نہ بتایا۔ پراٹھے سے تواضع بھی کی‘ ڈانٹ ڈپٹ بالکل نہ کی۔ گیارہ سالہ بچے سے بس یہ کہا: روزہ بے شک ٹوٹ جائے‘ جھوٹ نہیںبولنا چاہیے۔
آج بھی اپنے شفیق چہرے کے ساتھ مرحومہ سامنے کھڑی ہیں۔چار چھ ماہ بعد امتحان کا نتیجہ نکلا تو کنبہ رحیم یار خان میں تھا۔چار روپے ماہوار وظیفے پر ابا جی مرحوم اس قدر شاد تھے گویا کوئی خزانہ پا لیا ہو۔ ہجرت کی وجوہات میں سے ایک تعمیر ملت ہائی سکول تھا‘ چوہدری عبدالمالک جس کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ کچھ دنوں میں جہاں سرور صدیقی اور انیس احمد اعظمی کو چراغ جلانا تھے۔ ان کے شاگردوں میں سے ایک امریکہ میں نامور سعید باجوہ پوری دنیا کے چند ممتاز ترین سرجنوں میں سے ایک تسلیم کئے جاتے ہیں۔ جمعہ کو لاہور میں ان سے ملاقات متوقع ہے۔
کھیلوں میں‘ مباحثوں میں‘ تعلیمی نتائج میں تعمیر ملت ‘ متحدہ پاکستان کے دس بہترین سکولوں میں سے ایک تھا۔ ساتویں جماعت سے مباحثوں میں سکول کی نمائندگی اس نالائق نے کی۔ ایک بار توصادق پبلک سکول بہاولپور میں منعقد ہونے والے کُل پاکستان مباحثے میں بھی اول انعام لے مرا۔یہ جناب حسن المرتضیٰ خاور کا فیضان تھا۔ تقریر فقط رٹاتے نہ تھے‘ زیرو بم سکھاتے۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھردے‘ تلفظ کی اصلاح کرتے‘ حوصلہ افزائی کرتے۔ ان کا قرض ادا نہیں ہو سکتا‘ سرور صدیقی اورنہ انیس احمد اعظمی کا۔ سکول سے رخصت ہونے کے بعد‘ تین عشروں کے بعد زندگی کے بہترین لمحات میں سے ایک وہ ہے‘ جب کسی نے مجھے بتایا: انیس صاحب نے کہا:ہارون میرا شاگرد ہے۔ طاہر سرور میر نے ایک سوال کیا‘ اردو آپ نے کس سے پڑھی۔ عرض کیا:اردو کے بڑے غلام علی خان سے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کو یہی بتایا۔ وہ بولے: انیس صاحب سے جس نے پڑھ لیا‘ کسی اور سے پڑھنے کی اسے ضرورت نہ رہی۔رٹاتے نہیں تھے‘ وہ سیکھنے کا شوق پیدا کرتے۔ باپ کی سی شفقت‘ ماں کی سی محبت۔ اس طرح اپنے شاگردوں کے لیے فکر مند ہوتے‘ جیسے ان کی اولاد ہو۔ خالد بشیر‘ قاسم مصطفی اور یہ گنوار کبھی شرارت پر زیادہ ہی آمادہ ہوتے تو صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتے... ''جنگلی‘‘... اس سے بھی زیادہ ناخوش ہوں تو ...''بیل‘‘۔ ناراض ہی ہوتے‘ برہم کبھی نہیں۔ ایک شاگرد کے والد شکایت کرنے آئے کہ ناخلف پتلون بوشرٹ کاتقاضاکرتا ہے خود سلوا دی۔ وہ شکوہ سنج ہوا تو کہا‘ سادگی مسلط نہیں کی جاتی۔ مہرو محبت سے اور ایثار کی مثالوں سے تلقین ہوتی ہے ۔
اپنے بچوں کو دیکھتا ہوں تو ان کی محرومی دکھ پہنچاتی ہے۔ انہیں کوئی انیس احمد اعظمی‘ کوئی سرور صدیقی‘ کوئی حسن المرتضیٰ خاور نہ ملا۔ اللہ کا شکر ہے کہ پڑھ لکھ گئے۔ کدکڑے لگاتے ہوئے پوتے پوتیوں کو دیکھتا ہوں تو دل کڑھتا ہے۔ کوئی استاد انہیں بتانے والا نہیں کہ زندگی میں سب سے اہم چیز ایمان ہے‘ صداقت شعاری ہے‘ توکل ہے۔ وہ انگریزی پڑھتے ہیں۔ گائے کو Cowاورکتے کو Dogiکہتے ہیں۔ یا رب ان کا مستقبل کیا ہے؟ پنجابی کیا اردو سے بھی وہ محروم ہو جائیں گے؟ بلھے شاہ ‘ خواجہ غلام فرید اور سلطان باہو تو کیا‘ اقبال ‘ غالب اور میر کا مطالعہ بھی نہ کر سکیں گے۔ اپنی تاریخ ‘ اپنی ثقافت اور اپنی روایات سے بیگانہ ہو جائیں گے ۔اجنبی ؟ اجنبی؟ اپنی اولاد اگر اجنبی ہو جائے؟ چند روز قبل آخر کار امکان کا در کھلا ...پاک ترک سکول۔سوچاکہ اسلام آباد میںاگر ان بچوں کو داخلہ نہ ملا تو لاہور منتقل ہو جانا چاہیے۔تعمیر ملت نہ سہی اس کی تصویر ہی سہی۔
سخن ور کو اعتراض ہے کہ وزیر اعظم کی ہم عزت نہیں کرتے۔ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے۔ ہم تو کرنا چاہتے ہیں‘ خدا کی قسم ہم کرنا چاہتے ہیں‘ وہ کرنے نہیں دیتے۔ ہمارے ہر خواب کو وہ روند ڈالتے ہیں۔