ایک عظیم طاقت یا بھارت کا باجگزار پاکستان، انتخاب ہمیں خود کرنا ہے۔ ایٹمی پروگرام کی حفاظت کرنے والا آج کوئی بھٹو نہیں، کوئی ضیاء الحق اور کوئی غلام اسحٰق خاں نہیں۔ انحصار پاک فوج پر ہے اور ظاہر ہے، قوم کی تائید پر ۔
''امریکیوں کو اکبر بگتی یاد ہیں‘‘۔ اس عنوان سے ایک سیمینار واشنگٹن میں ہوا۔ پچیس تیس افراد شریک تھے۔ براہمداغ بگٹی نے وڈیو لنک سے خطاب کیا۔ حسین حقانی سمیت کچھ دوسروں نے بھی۔ مرکزی نقطہ یہ تھا کہ پاکستان نے بلوچستان پہ قبضہ جما رکھا ہے۔ شرکا میں سے ایک، طارق گیلانی بھڑک اٹھے۔ حسین حقانی سے انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے مخالف اور بھارت کے حامی ہیں۔ ان خیالات کے ساتھ انہیں امریکہ میں پاکستان کا سفیر نہ بننا چاہیے تھا۔
مقبوضہ کشمیر میں طوفان کے ہنگام، وزیرِ اعظم مودی نے دنیا کی توجہ بلوچستان کی طرف موڑ دینے کی کوشش کی۔ پاکستان سمیت ساری دنیا میں اس طرح کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ سینیٹ میں بھی، جہاں بعض لیڈروں نے ہزاروں زندگیاں قربان کرنے والی فوج کا رشتہ دہشت گردوں سے جوڑنے کی سعی کی۔ ایک وہ صاحب تھے، جو حال ہی میں پشتون بلوچ اتحاد کی تقریب میں شرکت کے لیے کابل تشریف لے گئے۔ یہ فورم افغان حکومت کی سرپرستی میں قائم ہے، جس کا مقصد بلوچستان کی ''آزادی‘‘ ہے۔
کیا بلوچستان پاکستان سے نجات کا آرزومند ہے؟ بھارت کے یومِ آزادی، 15 اگست کو لال قلعے میں اس موضوع پر نریندر مودی کے خطاب کے بعد، پورے صوبے میں امڈ پڑنے والی عوامی ریلیوں کا مطلب کیا ہے؟
افسوس کہ قوم کو بلوچستان پر عالمی سازشوں کا ادراک نہیں۔ کشمیر کے برعکس، جہاں ایک ولولہ انگیز عوامی تحریک برپا ہے، بلوچستان میں قتل و غارت کے واقعات ''را‘‘ کی منصوبہ بندی سے برپا ہوتے ہیں۔ افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس، جس میں شامل و شریک ہے۔ اے این پی اور وزیرِ اعظم کے حلیف محمود اچکزئی کی پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما صورتِ حال کو پاکستان دشمن رخ عطا کرنے کی، اپنی سی سعی کرتے ہیں۔ این جی اوز سے وابستہ، انگریزی اخبارات میں انشا پردازی کے جوہر دکھانے والے بعض دانشور بھی۔ مغربی ممالک ان تنظیموں کے لیے سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ امریکی اشارے پر اور ان میں سے بعض سی آئی اے کی تخلیق ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کی وزارتِ داخلہ کو تحقیق کرنی چاہیے، قوم کو مطلع کرنا چاہیے۔ ادھوری سی کوشش انہوں نے کی بھی۔ شاید اسی لیے وہ منہ پھٹ دانشوروں کا ہدف ہیں۔
وزیرِ اعظم، وزیرِ اطلاعات اور وزیرِ دفاع اس موضوع پر ڈٹ کر بات کیوں نہیں کرتے؟ واقعہ یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف اس خطے میں بھارت کی بالادستی قبول کر چکے۔ ہر قیمت پر وہ دہلی سے خوشگوار مراسم چاہتے ہیں۔ کشمیر کے اندوہناک حالات نے حکومتِ پاکستان کو بعض جوابی اقدامات پر مجبور کر دیا؛ باایں ہمہ اپنا مقصد میاں صاحب کو عزیز ہے۔ المناک حقیقت یہ ہے اور بتدریج تفصیلات سامنے آئیں گی کہ شریف خاندان نے بھارت میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور یہ معمولی سطح کی ہرگز نہیں۔ اتنی زیادہ کہ اگر یہ بلوچستان میں کی جاتی تو شورش زدہ صوبے کی تقدیر بدل جاتی۔ اگر وہ کچھی کینال کے لیے سرکاری سرمایہ فراہم کرنے پر ہی آمادہ ہو جائیں تو لگ بھگ پندرہ لاکھ افراد کو روزگار ملے اور صوبے میں بے روزگاری برائے نام رہ جائے۔ یہ سوال اٹھایا گیا اور کسی نے اس کا جواب نہ دیا کہ لندن، دبئی اور بھارت میں شریف خاندان کی سرمایہ کاری پاکستان سے بہت زیادہ کیوں ہے؟ کیا تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال تلاش کی جا سکتی ہے؟ کابل اور ہرات کے درمیان حاجی کاک میں خام لوہے کی کانوں کا ٹھیکہ بھارت میں فولاد کی صنعت کے معمار جندال کے پاس ہے۔ وہی آدمی، دو سال پہلے بھارت کے دورے میں، وزیرِ اعظم اپنے صاحبزادے حسین نواز کے ساتھ جس کے گھر گئے تھے۔ مبینہ طور پر جس نے نیپال میں مودی نواز خفیہ ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ قابلِ اعتماد ذرائع وثوق سے دعویٰ کرتے ہیں کہ اس وسیع و عریض کان میں شریف خاندان کا سرمایہ بھی لگا ہے۔
امریکہ بھارت دفاعی معاہدے کا پسِ منظر بہت گہرا ہے۔ افغانستان بھی جس میں شامل ہو چکا۔ اسی پر امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے ارشاد فرمایا تھا کہ پاکستان کو پریشان نہ ہونا چاہیے۔ چین میں جنوبی سمندروں پر تنازعے کے بعد، بیجنگ کے لیے تجارتی راہداری کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ نواز شریف سو
فیصد کریڈٹ مانگتے ہیں۔ حکومتِ چین کی اوّلین شرط تو یہ تھی کہ پاک فوج اس کے حفاظتی انتظامات کی ذمہ داری قبول کرے۔ سمندری جھگڑے میں ویت نام ایک فریق ہے، بھارتی حکومت نے حال ہی میں اسے 500 ملین ڈالر عطا کیے ہیں اور درجن بھر معاہدوں پر دستخط۔ پیچھے امریکہ ہے۔ افغانستان میں بھی بھارت اسی فراوانی سے سرمایہ لٹاتا ہے۔ چاہ بہار کی بندرگاہ پر وہ چار ارب ڈالر خرچ کرے گا۔ واشنگٹن کی کوشش یہ ہے کہ تجارتی راہداری پر کام رک نہیں سکتا تو سست ضرور ہو جائے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ راہداری کے مغربی راستے پر صحیح معنوں میں آغاز کار ہی نہیں۔ احسن اقبال چپ کیوں ہیں؟
اب یہ پوری طرح واضح ہے کہ پاکستان پر سے امریکہ نے ہاتھ اٹھا لیا۔ اب وہ اس کا حلیف نہیں اور مشکلات پیدا کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ عسکری ذرائع کہتے ہیں، امریکی ہدف یہ ہے کہ پاک فوج کو ہر ممکن حد تک کمزور کیا جائے۔ ہو سکے تو اسے محض ایک انسدادِ دہشت گردی فورس بنا کر رکھ دیا جائے۔ آنے والے دنوں میں دہشت گردی کے مزید واقعات ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی فوج کی مشکلات میں اضافہ ممکن ہے۔ کوئی بھی قیاس کر سکتا ہے کہ الطاف حسین کارڈ کند ہونے، محمود اچکزئی اور اسفند یار کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے میں صریح ناکامی کے بعد امریکی اور بھارتی کیا سوچ رہے ہوں گے، کیا کریں گے۔ خطے میں غلبہ پانے کے لیے وہ پُرعزم ہیں اور افغانستان ان کا جونئیر رفیق، جس کی معیشت کا انحصار غیر ملکی امداد پر ہے یا کسی قدر پاکستان میں سمگلنگ پر۔ داخلی وسائل سے وہ اپنے بجٹ کا پانچ فیصد بھی مہیا نہیں کرتا۔ پوری طرح اس نے کرائے کی ایک ریاست کا کردار اختیار کر لیا ہے۔ وزیرِ اعظم کے رفقا میں سے ایک نے بتایا: میاں نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں خارجہ امور کے مشیر طارق فاطمی نے بھاشن دیا کہ پاکستان کو کشمیریوں کی مدد سے گریز کرنا چاہیے۔ ''اس لیے کہ وزیرِ اعظم بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات کے متمنی ہیں‘‘۔ پاک فوج کے ایک جنرل نے حیرت سے کہا: پاکستانی مفادات کی قیمت پر خوشگوار تعلقات؟ طارق فاطمی نے وعظ جاری رکھا۔ ایک نوکری پیشہ آدمی، وزیرِ اعظم کی قربت کے لیے جس نے برسوں ریاضت کی ہے۔ فاطمی کی نوکری ہی اس کے لیے پوری کائنات ہے۔ ملک ایسے کرداروں سے بھرا پڑا ہے اور ایک دن انہیں قیمت چکانی ہے۔
محض کشمیر سے توجہ ہٹانے کی غرض سے نہیں، قبائلی پٹی کی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر بلوچستان عالمی طاقتوں کا ہدف ہے۔ ایٹمی پروگرام کی طرح بلکہ اس سے بہت بڑھ کر بلوچستان کا دفاع ملک کی سب سے بڑی ترجیح ہونا چاہیے۔ وزیرِ اعظم وہاں نہیں جاتے۔ اپوزیشن لیڈر بھی نہیں جاتے۔
ملک رہگزرِ سیلِ بے پناہ میں ہے۔ سلامت اترے تو اس طوفان کے پار ایک مستحکم اور خوش حال پاکستان ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ڈٹ کر ہم کھڑے رہتے ہیں یا نہیں۔ پوٹھوہار کے شاعر نے کہا تھا۔ ؎
ایک دیوار کی دوری ہے قفس
توڑ پاتے تو چمن میں ہوتے
ایک عظیم طاقت یا بھارت کا باجگزار پاکستان، انتخاب ہمیں خود کرنا ہے۔ ایٹمی پروگرام کی حفاطت کرنے والا آج کوئی بھٹو نہیں، کوئی ضیاء الحق اور کوئی غلام اسحٰق خاں نہیں۔ انحصار پاک فوج پر ہے اور اس سے زیادہ رائے عامہ کی تائید پر۔