آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ ابھی تک سٹاف لیول معاہدہ نہیں ہو سکا۔ سٹیٹ بینک اس پر سیاسی قیادت سے سوال پوچھنے کا کہہ رہا ہے۔ سیاسی قیادت کسی حد تک خود کو اس کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ تاخیر کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کے مطالبات کے مطابق میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیوں کا تبدیلیاں نہ ہونا ہے۔ کچھ سال قبل آئی ایم ایف کے کہنے پر پالیسیاں بنانا یا تبدیلیاں کرنا معمول کی بات تھی۔ مطالبے پر پالیسی تو بنا دی جاتی تھی لیکن صحیح معنوں میں اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا تھا۔ بیشتر پالیسیاں فائلوں کی حد تک بنائی جاتی تھیں لیکن اب پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا مزاج تبدیل ہو چکا ہے۔ وہ جو پالیسی بنواتا ہے اس پر عمل درآمد بھی کراتا ہے۔ اگر عمل درآمد نہ ہو تو سٹاف لیول معاہدے میں تاخیر کر دیتا ہے اور قرض کی قسط روک لیتا ہے۔ اس لیے اب حکومت معاہدہ کرنے میں احتیاط سے کام لینے لگی ہے۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ شاید کوئی ڈیڈلاک پیدا ہوگیا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ کئی معاملات میں مثبت پیشرفت ہوئی ہے۔ درآمدات‘ خصوصی طور پر گاڑیوں پر ٹیکس کم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو حکومت نے مان لیا ہے اور اس پر جولائی سے عمل درآمد شروع ہو سکتا ہے۔ اس مطالبے کے ماننے سے ملک میں گاڑیوں کی قیمتیں کم ہونے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوتی ہیں یا آٹوموبل کمپنیوں کا منافع زیادہ ہوتا ہے‘ کیونکہ ٹیکس ریلیف عوام تک صحیح معنوں تک پہنچانا اب ایک خواب بن چکا ہے۔ کنسٹرکشن پر ریلیف دینے کے معاملے پر آئی ایم ایف کو اعتراضات ہیں۔ ایف بی آر نے تفصیلی ریلیف پیکیج وفد کے سامنے رکھا لیکن آئی ایم ایف ماننے کو تیار نہیں۔ صرف خریدار کو پراپرٹی خریدنے پر دو فیصد کا ٹیکس ریلیف دیا گیا ہے۔ بیچنے والوں کو کوئی ٹیکس ریلیف نہیں دیا گیا۔ اس سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں زیادہ بہتری آنا مشکل ہے۔ بیس لاکھ کے ٹیکسوں میں سے اگر ایک دو لاکھ کم کر دیا جائے تو رئیل اسٹیٹ پر زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ جتنے زیادہ ٹیکس لگائے جا چکے ہیں‘ یہ کمی بہت معمولی ہے۔ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار اس وقت چلتا ہے جب پراپرٹی ڈیلرز کو فائدہ ہو۔ اگر پراپرٹی بیچنے پر ٹیکس کم نہیں ہو گا تو ڈیلر پراپرٹی خریدنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہیں گے کیونکہ انہوں نے پراپرٹی بیچنے کیلئے خریدنی ہوتی ہے نہ کہ ذاتی استعمال کے لیے۔ آج کل کنسٹرکشن پیکیج کی خبریں سنا کرعوام کو جھانسا دینے والے فراڈیے بھی سرگرم ہو چکے ہیں۔ ہر کوئی اپنا سٹاک بیچنا چاہتا ہے جو پچھلے چار سالوں سے بک نہیں رہا۔ لہٰذا احتیاط سے کام لینا ضروری ہے کیونکہ پلاٹوں اور فلیٹس کی سپلائی زیادہ اور ڈیمانڈ بہت کم ہے۔ کنسٹرکشن پیکیج کے لیے بنائی گئی ٹاسک فورس ایف بی آر اور وزارتِ خزانہ سے نالاں نظر آتی ہے۔ وزیر خزانہ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ رئیل اسٹیٹ ٹائیکونز کو آئی ایم ایف کے ساتھ بٹھائیں گے۔ ٹیم واپس چلی گئی لیکن رئیل اسٹیٹ والوں کی میٹنگ نہیں کرائی گئی جس پر وہ سراپا احتجاج ہیں اور مکمل پیکیج نہ ملنے کی وجہ ایف بی آر کی نااہلی کو قرار دے رہے ہیں۔ سرکار نااہل ہے یا آئی ایم ایف لچک دکھانے کو تیار نہیں‘ اس بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ البتہ ملک میں اضافی بجلی کے بہتر استعمال کے لیے سرکار ایک اچھی حکمت عملی اپنانے پر کام کر رہی ہے۔ جو گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔
حکومت اضافی بجلی کرپٹو مائننگ کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ لا رہی ہے جو سبسڈی سے پاک ہے۔ پاکستان کرپٹو مائننگ اور بلاک چین پر مبنی ڈیٹا سنٹرز کو راغب کرنے کے لیے بجلی کے خصوصی نرخوں پر کام کر رہا ہے۔ اس سے ڈیجیٹل اثاثوں کی صنعت میں ترقی اور اضافی بجلی کو معمولی نرخوں پر استعمال کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ پاکستان کرپٹو کونسل کے چیف ایگزیکٹو نے یہ منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت ملک کی اضافی بجلی کو بٹ کوائن کی مائننگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بٹ کوائن کی مائننگ کے لیے سب سے بڑا خرچ بجلی کا ہوتا ہے جو تقریباً 60 سے 70 فیصد ہے۔ بٹ کوائن کی مائننگ پر سالانہ تقریباً 130 ٹیرا واٹ آور بجلی استعمال ہوتی ہے جو نیدرلینڈز یا ارجنٹائن کی مجموعی بجلی کھپت سے بھی زیادہ ہے۔ کرپٹو کے حوالے سے بجلی کے استعمال اور قیمتوں میں رد وبدل کا تصور نیا نہیں ہے بلکہ دنیا کے کئی ممالک کرپٹو کرنسی کی مائننگ کے لیے بجلی کی کھپت کے حوالے سے پالیسیاں تبدیل کر چکے ہیں۔ ایران بجلی کی پیداوار میں خودمختار ہے۔ گودار کے کئی علاقوں میں بجلی ایران سے آتی ہے اور اس کا ریٹ پاکستان کے بقیہ شہروں کے بجلی ریٹ سے کم ہے۔ بٹ کوائن میں بجلی کی اتنی کھپت ہے کہ ایران بجلی کے زیادہ استعمال کے دنوں میں مائننگ کے لیے سبسڈی دینا بند کر دیتا ہے اور بٹ کوائن مائننگ روکنا پڑتی ہے۔ چین میں دنیا کے سب سے بڑے ڈیم ہیں اور سستی بجلی پیدا کرنے میں دنیا میں اسے اوّل درجہ حاصل ہے لیکن بجلی کے زیادہ استعمال کو وجہ بتا کر 2021ء میں بٹ کوائن مائننگ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس سے پہلے چین بٹ کوائن مائننگ کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان میں بجلی کی انسٹالڈ کپیسٹی 43 ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے۔ گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ استعمال 30 ہزار اور سردیوں میں 18ہزار میگاواٹ تک ہوتا ہے۔ شاید یہ عجوبہ بھی پاکستان میں ہی ہے کہ ضرورت سے زیادہ بجلی ہونے کے باوجود ملک میں لوڈشیڈنگ ہے اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ زیادہ پیداوار کی وجہ سے کپیسٹی چارجز ادا کرنا پڑتے ہیں۔ اگر کرپٹو کرنسی مائننگ منصوبے پر کام شروع ہو گیا تو بجلی کی قیمتوں میں کمی آ سکتی ہے اور پاکستان کے ڈیجیٹل اثاثوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اس معاملے میں انتہائی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ کرپٹو کرنسی کا استعمال دہشت گردی کے لیے بھی کیا جا رہا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی سمیت کئی تنظیمیں مالی امداد کرپٹو کرنسی کے ذریعے حاصل کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا جو پاکستان سے داعش شام کو کرپٹو کے ذریعے رقم بھجوا رہا تھا۔ داعش کے مقامی میڈیا گروپ نے بھی گزشتہ ماہ کرپٹو کے ذریعے چندہ اکٹھا کرنے کا اعلان کیا تھا۔ عمومی طور پر منصوبے ملک کی بہتری کے لیے شروع کیے جاتے ہیں لیکن سازشی عناصر نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ لہٰذا یہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ سستی بجلی کی آڑ میں ملک کا نقصان نہ ہو جائے۔
پہلے ہی ملک میں سرمایہ کاری کے حالات کشیدہ ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری ایک خواب بن کر رہ گئی ہے اور مقامی سرمایہ کار بھی غیر مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔ سرکار نے ایک سال میں شرح سود میں تقریباً ایک ہزار بیسس پوائنٹس کمی کی ہے لیکن نجی شعبہ اب بھی بینکوں سے قرض لینے کو تیار نہیں۔ صرف دو ماہ میں نجی قرضوں میں تقریباً چودہ کھرب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔ یعنی نجی شعبہ پاکستان میں انڈسڑی لگانے کو تیار نہیں۔ اس سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں تقریباً 47 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ حکومت کو اس معاملے پر سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ اگر وجوہات تلاش نہ کی گئیں تو کم شرح سود اور پالیسیوں کا تسلسل بھی فائدہ نہیں دے سکے گا۔ دوسری جانب ہر سال کی طرح شوگر مافیا اس سال بھی متحرک ہے اور پیسہ بنانے کا موقع ہاتھ سے جانے دینے کو تیار نہیں۔ ہر سال کی طرح سرکار اب بھی ان کی مددگار بنی ہوئی ہے بلکہ یہ لکھنا چاہیے کہ سرکار ہی اصل شوگر مافیا ہے۔ شاید ہی کوئی شوگر مل ایسی ہو جس کی نمائندگی اسمبلیوں میں نہ ہو۔