آئی ایم ایف‘ سولر پالیسی اور گوگل والٹ

آئی ایم ایف وفد سٹاف لیول معاہدہ کیے بغیر واپس جا چکا ہے۔ اچھے وقتوں میں آئی ایم ایف وفد سٹاف لیول معاہدہ کر کے پاکستان سے روانہ ہوتا تھا لیکن گزشتہ سات برس میں جو عدم اعتماد در آیا ہے‘ وہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ جب سات ارب ڈالر کا آئی ایم ایف پیکیج ملا تھا اُس وقت بھی سٹاف لیول معاہدے تک پہنچنے میں تقریباً تین ماہ لگ گئے تھے۔ جس طرح سرکار عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال رہی ہے‘ بہت جلد سٹاف لیول معاہدہ ہونے اور ایک ارب ڈالر کی قسط ملنے کے امکانات ہیں۔ حکومت ویسے دو ارب ڈالر سے زیادہ ملنے کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ ایک ارب ڈالر کلائمیٹ چینج کی مد میں مانگے جا رہے ہیں۔ حکومت ملک چلانے کے لیے کبھی دوست ممالک سے قرض مانگتی ہے‘ کبھی آئی ایم ایف سے اور عوام کو تو ہر وقت نچوڑتی رہتی ہے مگر اپنی کارکردگی بہتر کر کے ملکی آمدن بڑھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ملک میں بجلی چوری اور حکمرانوں کی عیاشی کی قیمت دس روپے فی لیٹر پٹرولیم لیوی بڑھا کر ایک مرتبہ پھر عوام سے وصول کی جا رہی ہے۔ سرکار اپنے اخراجات کم کرنے کو تیار دکھائی نہیں دیتی۔ کیبنٹ کا سائز دو گنا کر دیا گیا ہے۔ وزیروں‘ مشیروں کی فوج بھرتی کی جا چکی ہے۔ اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں آٹھ سو فیصد تک اضافہ کیا گیا اور سیاستدانوں کے بیرونِ ملک دورے رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ حکمران اپنی عیاشیوں پر سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں مگر جس عوام کی فائدہ پہنچانے کے لیے وزیراعظم صاحب دن رات کام کرنے کے دعوے کر رہے ہیں‘ وہ اب عاجز آ چکے ہیں اور حکومت کے ان ناروا فیصلوں کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ اربابِ حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت نے تیل کی قیمتیں نہیں بڑھائی ہیں تاکہ عوام پر بوجھ نہ پڑے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں اگر آج کم ہوئی ہیں تو کل یہ بڑھ بھی سکتی ہیں۔ اور اُس وقت حکومت ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرے گی اور پٹرول‘ ڈیزل کی قیمتیں یہ کہہ کر بڑھا دے گی کہ عالمی منڈی میں قیمت زیادہ ہو گئی ہے‘ ہم اس حوالے سے بے بس ہیں۔ بہت جلد یہ قیمت 270 روپے فی لیٹر سے تجاوز کر سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکام ہے۔ اس ناکامی سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے اب یہ آسان حل تلاش کیے گئے ہیں کہ پٹرولیم پر مزید ٹیکس لگا دو یا ٹیکسوں کی شرح بڑھا دو۔ اس طرح ایک ہی جھٹکے میں ٹیکس اہداف حاصل ہو جاتے ہیں۔
میں نے گزشتہ کالم میں سگریٹ اور جوسز سیکٹر کو ٹیکس ریلیف دینے کے نقصانات سے آگاہ کیا تھا اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ریلیف دینے کے فوائد بتائے تھے۔ آئی ایم ایف نے بھی ان سیکٹرز کو ٹیکس ریلیف دینے سے معذرت کر لی ہے کیونکہ اس میں عوام کا بھلا نہیں ہے بلکہ مافیاز کو فائدہ پہنچنے کے خدشات زیادہ تھے۔ پورے ملک کی نظریں اس وقت رئیل اسٹیٹ ریلیف پر ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس ریلیف دینے کے لیے آئی ایم ایف نے لچک دکھائی ہے لیکن جو منصوبہ سرکار نے بنا کر دیا تھا وہ من وعن قبول نہیں کیا گیا۔ اس لیے جو ریلیف پراپرٹی ٹائیکونز ڈیمانڈ کر رہے تھے وہ نہیں مل سکے گا لیکن کچھ بہتری ضرور آ جائے گی۔ آئی ایم ایف کی جانب سے تقریباً چھ سو ارب روپے تک کے ٹیکس اہداف کم کیے گئے ہیں‘ جی ڈی پی نمو کا ہدف بھی ساڑھے تین فیصد سے کم کر کے لگ بھگ اڑھائی فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح آئی ایم ایف کے مطابق ہو گئی ہے۔ آئی ایم ایف پاور سیکٹر کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ بجلی چوری پر قابو نہیں پایا جا سکا جبکہ بجلی کی قیمت تقریباً ڈیڑھ روپے کم کرنے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک میں بجلی سستی پیدا ہونے لگی ہے بلکہ دس روپے پٹرولیم لیوی بڑھانے کے بدلے بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے 23 مارچ کو ایک پیکیج لانچ کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ خبر بالکل بھی پُرمسرت نہیں ہے کیونکہ عوامی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ گرمی بڑھتے ہی بجلی کی قیمتیں دوبارہ بڑھا دی جائیں گی۔ حکومت پر عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔ اس لیے حکومتی پیکیج عوام کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر پاتے۔
حکومت سے مایوس ہو کر ہی عوام نے اپنی بجلی خود بنانے اور اضافی بجلی سرکار کو بیچنے کا فیصلہ کیا اور اربوں روپے کے سولر سسٹم گھروں‘ فیکٹریوں اور کھیتوں میں لگا لیے مگر اب سرکار نے سولر پالیسی ہی تبدیل کر دی ہے۔ پہلے حکومت نیٹ میٹرنگ صارفین سے27 روپے کا یونٹ خریدتی تھی اور (بشمول ٹیکسز) 65 روپے کا بیچتی تھی۔ اب 10 روپے کا یونٹ خریدا جائے گا اور تقریباً 65 روپے تک کا بیچا جائے گا۔ حکومت کنفیوز ہے یا شاید عوام کو بیوقوف سمجھتی ہے۔ اس وقت ملک کے دو بڑے صوبوں‘ پنجاب اور سندھ میں غریب عوام کو سولر پینل دینے کے لیے سستے قرضے اور نئی سکیمیں متعارف کرائی جا رہی ہیں اور وفاقی حکومت نئے سولر پینلز کو سسٹم میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے پالیسی لے آئی ہے۔ ایک طرف دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ امیر لوگوں نے سولر سسٹم لگوا رکھے ہیں جس کی وجہ سے غریب عوام کو تقریباً 90 پیسے (ڈیڑھ روپیہ) فی یونٹ بجلی مہنگی مل رہی ہے اور دوسری طرف متوسط طبقے کو سستے سولر پینل دیے جا رہے ہیں۔ اس طرح کپیسٹی چارجز مزید بڑھ سکتے ہیں۔ یہ شہباز شریف حکومت ہی تھی جس نے ملک میں سولر انرجی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے 2015ء میں سولر پالیسی لانچ کی تھی اور آج شہباز حکومت ہی سولر انرجی سے بجلی پیدا کرنے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ اب عوام شاید نیٹ میٹرنگ والا نیا سولر سسٹم نہ لگائیں بلکہ بیٹریوں پر انحصار بڑھا سکتے ہیں‘ لیکن جنہوں نے لاکھوں روپے لگا کر نیٹ میٹرنگ والے سولر سسٹم لگوائے ہیں ان کے نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟ اب تک تقریباً ڈھائی لاکھ نیٹ میٹرنگ معاہدے ہو چکے ہیں۔ یہ پالیسی ابھی نئے نیٹ میٹرنگ صارفین کے لیے ہے مگر پرانے معاہدوں کی مدت بھی سات سال تک ہے۔ یہ معاہدے ختم ہوتے ہی نئی پالیسی ان پر بھی لاگو ہو جائے گی۔ ممکن ہے چند ماہ بعد یہ معاہدے بھی ختم کر دیے جائیں۔ عوام اس وقت بالکل بے بس ہیں۔ نہ اُگل سکتے ہیں اور نہ نگل سکتے ہیں۔ ایک طرف حکومت آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کر رہی ہے اور کپیسٹی چارجز نہ لینے یا آڈٹ کرانے کا آپشن دے کر کپیسٹی چارجز کم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے اور دوسری طرف کپیسٹی چارجز کو بنیاد بنا کر عوام پر ایک اور بم گرا دیا گیا ہے جو قطعی مناسب نہیں ہے۔
ان حالات میں ایک اچھی خبر بھی ہے۔ حکومت کافی دیر سے کوشش کر رہی تھی کہ وہ ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کو آسان بنانے کے بین الاقوامی سسٹم کو پاکستان لائے لیکن کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ اب امید کی ایک کرن نظر آنے لگی ہے اور پہلا کامیاب قدم اٹھا لیا گیا ہے۔ پاکستان میں ''گوگل والٹ‘‘ لانچ کر دیا گیا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس کے بعد پے پال‘ ایپل پے اور سام سنگ پے بھی پاکستان میں متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔ پاکستان ایک کیش اکانومی ہے‘ 75 فیصد سے زیادہ ٹرانزیکشنز کیش پر کی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے اکانومی کو ڈاکیومنٹڈ نہیں بنایا جا سکا۔گوگل والٹ اکانومی کو دستاویزی بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ گوگل والٹ‘ لوکل منی ٹرانسفر ایپس سے مختلف ہے۔ یہ رقم کی ادائیگی نہیں کرتا بلکہ ایک ڈیجیٹل سٹوریج ہے جس میں اے ٹی ایم کارڈز‘ ایئر ٹکٹس اور آئی ڈیز پروگرام کی جا سکتی ہیں۔ لوکل منی ٹرانسفر سے ابھی تک معیشت کو ٹیکس اکٹھا کرنے میں فائدہ نہیں ہو سکا کیونکہ یہ ایف بی آر سے اس طرح لنک نہیں جس طرح بینک اکاؤنٹس لنک ہیں۔ ڈیجیٹل ادائیگیوں کے پلیٹ فارمز کا فائدہ ملک کو اسی وقت ہو سکتا ہے جب یہ ٹیکس چوری کا سراغ لگانے میں بھی مددگار ثابت ہوں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں