آئی ایم ایف وفد اس وقت پاکستان میں ہے اور متعلقہ اداروں کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں۔ ابھی تک کوئی ایسی خبر سامنے نہیں آئی جس سے یہ اندیشہ ہو کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین حالات کشیدہ ہیں۔ 'سب اچھا‘ کی رپورٹ آ رہی ہے بلکہ بعض معاملات میں آئی ایم ایف نے حکومتی مطالبات کو ماننے کیلئے لچک دکھائی ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف وفد کے دورے سے قبل ہی تقریباً تمام بڑی شرائط پر عملدرآمد کر لیا تھا لیکن ٹیکس ہدف حاصل کرنے میں حکومت مسلسل ناکام رہی ہے۔ اس دورے کا مقصد بھی ٹیکس ہدف کے حصول پر بات کرنا تھا۔ حکومت کو اس محاذ پر اب بڑی کامیابی ملی ہے۔ وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف کو قائل کر لیا ہے کہ لگ بھگ تیرہ ہزار ارب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کرنا ناممکن ہے‘ اس لیے ٹیکس ہدف کو بارہ ہزار پانچ سو ارب روپے تک محدود کیا جائے۔ قبل ازیں بھی یہ مطالبہ ہر ملاقات میں کیا جاتا رہا لیکن شنوائی نہیں ہوئی مگر اس مرتبہ آئی ایم ایف نے اس سے اتفاق کیا ہے کہ ٹیکس ہدف کم ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر کاربن لیوی لگانے سے بھی حکومت نے انکار کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ پٹرول اور ڈیزل پر چلنے والی گاڑیوں پر کاربن لیوی لگائی جائے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن کو الیکٹرک وہیکل کی قیمتیں کم کرنے اور ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ دس روپے پٹرولیم لیوی بھی بڑھائی جائے۔ فی الحال یہ مطالبات ماننے سے انکار کیا گیا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آئی ایم ایف وفد ٹیکس ہدف کم کرنے کے مطالبے پر اچانک مان کیسے گیا اور حکومت کس بنیاد پر آئی ایم ایف کے مزید مطالبات ماننے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہی ہے؟ حکومت کے ہاتھ کون سی ایسی گیدڑ سنگھی لگی ہے جس نے اس کا سب سے بڑا مسئلہ حل کر دیا ہے؟
آئی ایم ایف ایک بین الاقومی مالیاتی ادارہ ہے جس میں سب سے زیادہ شیئرز امریکہ کے ہیں۔ ویسے تو کتابی حد تک آئی ایم ایف ایک آزاد ادارہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کسی ملک کی مدد کرنا ہوتی ہے تو امریکہ کی رضامندی ضروری سمجھی جاتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کا پیکیج منظور کرانے پر سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے شکر گزار تھے اور اس کا اظہار انہوں نے میڈیا پر بھی کیا تھا۔ اس مرتبہ بھی معاملہ مختلف نہیں۔ صدر ٹرمپ کچھ دو اور کچھ لوکی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ دہشت گردی کے ایک منصوبہ سازکو امریکہ کے حوالے کرنے پر چند روز قبل صدر ٹرمپ اور امریکی محکمہ خارجہ نے حکومتِ پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ ممکن ہے کہ آئی ایم ایف جائزے کے بعد وزیراعظم بھی امریکہ کا شکریہ ادا کریں۔ آئی ایم ایف کا اپنے رویے میں نرمی دکھانا امریکی پالیسی میں تبدیلی کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ سیاست میں حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے‘ کون سے تعلقات کب تبدیل ہو جائیں کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ٹرمپ حکومت آنے کے بعد یہ رائے تقویت پکڑ رہی تھی کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستانی حکومت سے تعلقات اچھے نہیں‘ کچھ وفاقی وزرا اور سیاستدانوں نے تو ٹرمپ کے خلاف ٹویٹس بھی کر رکھے تھے لیکن چند ہفتوں کے وقفے سے امریکہ کی جانب سے پاکستان کا شکریہ ادا کیا گیا۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے اور اس کے ملکی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ فی الحال موقع سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ موقع پر چوکا لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس اہداف کم کرنے کے علاوہ کچھ سیکٹرز کو ٹیکس ریلیف دینے کے لیے بھی مذاکرات تقریباً مکمل ہو چکے ہیں۔ کنسٹرکشن‘ سگریٹ اور جوس سیکٹرز کو ٹیکس ریلیف دیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے کے لیے عسکری کارکردگی کی مدد لی ہو۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کا ایک ہی پروگرام آج تک مکمل کیا‘ اس پروگرام میں بھی بہت سی شرائط آئی ایم ایف سے ختم کرائی گئی تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اُس وقت پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا صفِ اول کا اتحادی تھا۔ اس لیے آئی ایم ایف کی دس سے زیاد شرائط امریکہ سے درخواست کر کے ختم کرائی گئی تھیں۔اسحق ڈار ماضی کے اس کارنامے کا سارا کریڈٹ خود لیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عسکری تعاون کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ موجودہ حالات میں بھی کامیابی اسی صورت ممکن ہے اگر سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہو۔
کنسٹرکشن سیکٹر کو ٹیکس ریلیف کے تحت ایڈوانس ٹیکس 236k اور 236c کے ریٹس کم کیے جانے کی توقع ہے۔ 7e کی شرائط بھی تبدیل کی جا سکتیں اور ریلیف بڑھایا جا سکتا ہے۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو مکمل ختم کرنے کی تجویز ہے لیکن شاید یہ مکمل ختم نہ ہو سکے بلکہ اس کا ریٹ کم کیا جائے۔ بینکوں کے ذریعے گھروں کے لیے سستے قرضے دینے اور چھوٹے گھروں کی خریداری پر ایمنسٹی دینے کی بھی تجویز ہے لیکن اس کے امکانات کم ہیں۔ کنسٹرکشن سیکٹر کو ریلیف دینے سے اکانومی میں بہتری آنے کی امید ہے اور ممکنہ طور پر اس سے ستر سے زائد صنعتیں چل پڑیں گی اور جی ڈی پی نمو بھی بہتر ہو سکتی اور ملازمتیں بڑھ سکتی ہیں لیکن جوس اور تمباکو انڈسٹری کے لیے ریلیف کا مطالبہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ بقیہ سیکٹرز کو ٹیکس ریلیف دینے میں عوامی فائدہ نظر آ سکتا ہے لیکن سگریٹ کی صنعت کے لیے ٹیکس ریلیف میں عوام کا کیا فائدہ ہے؟
پاکستان میں ہر سال بجٹ کی آمد سے پہلے دو لابیاں بہت متحرک ہو جاتی ہیں۔ ایک کا مؤقف ہوتا ہے کہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھائے جائیں تاکہ سگریٹ مہنگے ہوں اور سگریٹ نوشی کی حوصلہ شکنی ہو‘ جبکہ دوسری لابی کہتی ہے کہ سگریٹ پر ٹیکس بڑھانے سے مارکیٹ میں غیر قانونی سگریٹ کی ترسیل بڑھ جاتی ہے جس سے سگریٹ نوشی میں کمی تو نہیں ہوتی البتہ غیر معیاری سگریٹ مارکیٹ میں آ جاتے ہیں جس سے لوگوں کی صحت مزید خراب ہوتی ہے اور حکومت کو بھی ٹیکسوں کی وصولی کی مد میں اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ پاکستان میں پندرہ سال سے زائد‘ اندازاً تین کروڑ 16 لاکھ افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔یہ سمجھا جاتا ہے کہ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اگر 37 فیصد اضافہ کیا جائے تو سگریٹ کی قیمتیں بڑھنے سے ساڑھے سات لاکھ افراد سگریٹ نوشی ترک کر سکتے ہیں۔ سگریٹ پر ٹیکسوں کی وصولی میں 12.1 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے اور سگریٹ سے ہونے والی بیماریوں کے علاج پر ہونے والے اخراجات میں 17.8 فیصد تک کمی آ سکتی ہے۔ ایف ای ڈی اور جی ایس ٹی کی مد میں حکومت کو 88 ارب روپے کی اضافی آمدن بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں تمباکو کی صنعت سے ٹیکسوں کی مد میں 551 ارب روپے وصول ہو سکتے ہیں۔ مارکیٹ میں غیر قانونی سگریٹ کی تجارت سے سرکاری خزانے کو سالانہ 310 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی یہ بتا چکے کہ وہ اپنے دور میں مردان میں اُن بھٹیوں کو رجسٹرڈ کرنا چاہتے تھے جو تمباکو کو سگریٹ بنانے سے پہلے پراسیس کرتی ہیں تاکہ یہ اندازہ کیا جا سکے کہ سالانہ کتنا تمباکو تیار ہوتا ہے اور اس سے کتنے سگریٹ بنتے ہیں‘ مگر سیاسی عزائم آڑے آ گئے۔ مردان میں گھروں میں سگریٹ بنانے کی چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں جو جعلی یا لوکل قسم کے برانڈز بناتی ہیں‘ جنہیں 'مردان والا‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ فیکٹریاں کہیں رجسٹرڈ نہیں ہیں اور کسی قسم کا ٹیکس نہیں دیتیں۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے تجاویز دیتی لیکن وہ تو اس سیکٹر کو مزید ٹیکس ریلیف دینے پر کام کر رہی ہے جو افسوسناک ہے۔