آج کل عجب صورتحال ہے۔ ڈارئنگ رومز میں سیاست سے زیادہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر زیر بحث ہے۔ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ تقریباً تین سال سے معاشی بدحالی کا شکار ہے‘جس کی بڑی وجہ ٹیکسوں کی بھرمار اور زیادہ شرح سود ہے۔ اب شرح سود بتدریج کم ہو رہی ہے اور ٹیکس میں بھی ریلیف دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔پہلے ڈالر کی قیمت بڑھا کر پیسہ کمایا گیا‘ پھر کالا دھن سونے میں ڈال کر پیسہ بنایا گیا‘ پھر سٹاک ایکسچینج کو نچوڑا گیا اور اب شاید رئیل اسٹیٹ سے پیسہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کراچی میں پراپرٹی کی ایف بی آر ویلیو بھی کم کی گئی ہے اور اوور سیز پاکستانیوں کو پراپرٹی خریدنے اور بیچنے پر ایڈوانس ٹیکس سے استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ اگرچہ استثنیٰ حاصل کرنے کا طریقہ انتہائی مشکل ہے اور اس کے لیے کمشنر کی منظوری درکار ہے‘ جس سے رشوت کا بازار گرم ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا رئیل اسٹیٹ کو ٹیکس ریلیف سے ملکی معیشت کو کوئی فائدہ ہوگا ؟پلاٹوں کی خرید و فروخت میں سہولت اور کنسٹرکشن پر ریلیف دینے میں فرق ہے۔ حکومت اگر کوئی ایسا منصوبہ بنائے جس سے عام آدمی کی قوتِ خرید بڑھے تو وہ زیادہ بہتر ثابت ہو گا کیونکہ تبھی لوگ خالی پلاٹوں پر گھر بنانے کے قابل ہو سکیں گے۔ کنسٹرکشن سیکٹر کو ریلیف دینے سے گھر بنانے میں آسانی ہو سکتی ہے اور اُس طبقے کو روزگار مل سکتا ہے جو اَن پڑھ ہے اور جسے کوئی ہنر بھی نہیں آتا۔ ایسے لوگ ملک سے باہر جا کر مزدوری کرتے ہیں‘ اگر ملک میں ہی کام چل پڑے تو انہیں یہاں کھپایا جا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر جی ڈی پی کا تقریباً 20 فیصد ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ بمشکل تین فیصد ہے۔ دنیا میں بینک رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو سپورٹ کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں ڈویلپر پہلے پلاٹ بیچتا ہے اور پھر اُسی رقم سے وہاں ڈویلپمنٹ کرتا ہے۔ کئی سالوں سے ڈویلپر نقصان میں ہیں۔ ان کو بھی تھوڑی سپورٹ کی ضرورت ہے تاکہ ایک مکمل بند پڑے سیکٹر میں کچھ کام ہو سکے‘ پیسہ گردش میں آئے اور ٹیکس آمدن میں بھی بہتری آ سکے۔
پاکستان میں ہدف کے مطابق ٹیکس اکٹھا نہ ہونے کی وجہ صرف رئیل اسٹیٹ سیکٹر نہیں بلکہ ٹیکس کا بوسیدہ نظام ہے۔ ٹیکس اتھارٹیز عملی اقدامات کرنے کے بجائے زبانی جمع خرچ سے کام لیتی دکھائی دیتی ہیں۔ چند روز قبل چیئرمین ایف بی آر کہہ رہے تھے کہ عوام سمگل شدہ اشیا خریدنا بند کریں تاکہ سمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہو۔ سوال یہ ہے کہ عوام کو کیسے پتا چلے گا کہ کون سی اشیا سمگل ہو کر آ رہی ہیں اور کون سی نہیں؟ یہ تو اداروں کا کام ہے۔ فی الحال 75 سے زیادہ کسٹم افسروں کے خلاف سمگلنگ کی انکوائری چل رہی ہے‘ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس کے علاوہ حکومت کی ٹیکس پالیسیاں بھی بہت عجیب ہیں۔ ملک میں تقریباً 40 لاکھ ٹیکس پیئر فائلرز ہیں۔ 25 کروڑ کی آبادی میں اگر پراپرٹی کی خرید وفروخت صرف 40 لاکھ فائلرز تک محدود کر دی جائے تو اس سیکٹر میں کوئی ٹرانزیکشن نہیں ہو گی۔ مناسب ریلیف وقت کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ریلیف دینے کے خواہاں ہیں۔ ٹاسک فورس کی حالیہ میٹنگ میں انہوں نے کہا کہ ان کا فوکس غریب آدمی کو مناسب قیمت پر گھر کی سہولت دینا اور فائلوں کے بزنس کو ختم کرنا ہے۔ یہ سچ ہے کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ریلیف ملنے سے ملک کی 72 انڈسٹریز چل سکتی ہیں۔ گھر کی تیاری میں استعمال ہونے والی ریت‘ مٹی‘ سیمنٹ اور ٹائلز سمیت اکثر اشیا مقامی ہوتی ہیں۔ سٹیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ کنسٹرکشن سیکٹر کی بحالی سے مقابلے کی فضا بھی پیدا ہو سکتی ہے اور مزید فیکٹریاں لگ سکتی ہیں۔ کنسٹرکشن کی لاگت بھی کم ہو سکتی ہے۔ ملکی ٹیکس آمدن اور جی ڈی پی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت رئیل اسٹیٹ سیکٹر تقریباً 30 فیصد کپیسٹی پر کام کر رہا ہے‘ اگر یہ 80 فیصد پر کام کرنے لگے تو تقریباً 1500 ارب روپے ٹیکس صرف اسی سیکٹر سے اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر قابو بھی پایا جا سکتا ہے۔ کم وبیش پچاس لاکھ ملازمتیں فوری پیدا ہو سکتی ہیں۔ پاکستان برآمدات سے زیادہ ڈالر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی گئی ترسیلات سے وصول کرتا ہے۔ اس وقت تقریباً 32 ارب ڈالر سالانہ ترسیلاتِ زر ہیں‘ اگر کنسٹرکشن سیکٹر کو سہولتیں ملیں تو ترسیلاتِ زر 40 سے 50 ارب ڈالر تک بڑھ سکتی ہیں۔ پوری دنیا میں جن ممالک نے بھی ترقی کی ہے انہوں نے زیادہ سرمایہ کاری رئیل اسٹیٹ میں کی ہے۔ جرمنی نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کنسٹرکشن سیکٹر پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی گئی۔ قطر‘ دبئی‘ سعودی عرب بھی رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر فوکس کیے بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں اس سیکٹر کو اتنا ہی بُوم ملنا چاہیے جس سے تھوڑی بہت بزنس ایکٹوٹی بڑھے تاکہ تمام شعبوں میں سرمایہ کاری کا مناسب ریٹرن ملتا رہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ فیکٹریاں بیچ کر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے لگ جائیں۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں بہتری سے عام آدمی کے لیے ڈویلپمنٹ کرنا آسان ہو سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب اور امریکہ میں سٹیل کی قیمتیں پاکستان کی نسبت کم ہیں۔ وہ بھی پاکستان کی طرح سٹیل درآمد کرتے ہیں۔ قیمتیں کم ہونے کی وجہ اکانومی آف سکیل ہے۔ اگر پانچ ہزار گھروں کے لیے سٹیل درآمد کیا جائے تو وہ مہنگا ملے گا اور اگر پچاس ہزار گھروں کے لیے سٹیل درآمد کیا جائے تو وہ سستا ملے گا۔ اگر عملی طور پر دیکھا جائے تو ابھی تک واضح ٹیکس ریلیف ملا نہیں ہے اور نہ ہی کوئی کنسٹرکشن پیکیج سامنے آیا ہے۔ اس کی وجہ آئی ایم ایف ہے‘ لیکن بہت جلد ریلیف کی خبریں آ سکتی ہیں۔ اصل مسئلہ ایڈوانس ٹیکس 236K اور 236C کا ہے۔ وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر بھی ایڈوانس ٹیکس کو کم کرنے اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ختم کرنے کے حامی ہیں لیکن اس کے لیے آئی ایم ایف کی منظوری درکار ہے۔ وزیراعظم نے پندرہ دن بعد ٹاسک فورس کا اجلاس بلایا ہے اور معاملے کو آئی ایم ایف کے سامنے رکھنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اگر فوری طور پر ریلیف نہ دیا جا سکا تو بجٹ میں ٹیکس ریلیف ضرور دیا جا سکے گا۔ سالانہ بجٹ میں ٹیکس ریلیف دینا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ ریلیف کی صورت میں کنسٹرکشن میٹریل کی درآمد سے ڈالر پر دباؤ آ سکتا ہے لیکن ترسیلاتِ زر میں اضافہ بھی ہوگا جس سے دباؤ میں کمی کی جا سکتی ہے۔
رئیل اسٹیٹ سیکٹر ہمارے ملک میں سب سے بڑا سرمایہ کاری کا شعبہ بن گیا ہے لیکن اگر ٹیکس ریلیف دینا ہے تو ڈویلپرز کے بجائے عام آدمی کو دیا جانا چاہیے۔ رئیل اسٹیٹ کو میگا ٹیکس ریلیف دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جتنا چاہیں کالا دھن لگائیں کوئی نہیں پوچھے گا کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ اگر کالے دھن کو سسٹم میں لانا مقصود ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ ماضی میں ایسے ریلیف سے اکانومی کو کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ غیرضروری ٹیکس ریلیف سے شاید وقتی طور پر حکومت کو کچھ فائدہ ہو جائے لیکن لانگ ٹرم میں ملکی معیشت کا اس سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس سے گھروں اور پلاٹوں کی قیمتوں میں مصنوعی اضافہ ہو سکتا ہے اور گھر عام آدمی کی پہنچ سے مزید دور ہو سکتا ہے جبکہ مزید صنعتیں بند ہونے سے بیروزگاری بھی بڑھ سکتی ہے۔ ایک وقت تھا جب انڈسٹری میں سرمایہ کاری رئیل اسٹیٹ کی نسبت دو گنا زیادہ تھی لیکن آج رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری انڈسٹری میں ہونے والی سرمایہ کاری سے تقریباً ڈھائی گنا زیادہ ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں بیروزگاری چند سالوں میں چھ فیصد سے بڑھ کر 10فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے ساتھ برآمد کنندگان اور صنعتکاروں کو ریلیف دینے سے معاشی توازن برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔